ٹوٹے ہوئے تارے!

ٹوٹے ہوئے تارے!
ٹوٹے ہوئے تارے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ٹوٹے ہوئے تارے! تارے یا ستارے کیا ہوتے ہیں؟ یہ کبھی ٹوٹتے بھی ہیں؟ اور اگر ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹ کر کہاں جاتے ہیں؟ ان ٹوٹے ہوئے تاروں کو انگریزی میں Meteor اور اردو میں ”شہابِ ثاقب“ بھی کہتے ہیں۔ ”شہاب“ کا معنی ستارہ اور ثاقب کا معنی چھید یا سورخ یعنی سوراخ والا ستارہ۔ یہ ستارہ جب ٹوٹ کر کسی دوسرے سیارے کی حدود میں داخل ہوتا ہے  تو دم دار صورت میں چمک پیدا کرتا ہے۔

معاف کیجئے میں نے آپ کو سبق پڑھانا شروع کر دیا کیونکہ اتنا کچھ تو آپ شاید پہلے سے ہی جانتے ہوں۔ لیکن مجھے اپنی کہانی سنانے کے لئے یہ سب کچھ بیان کرنا ضروری تھا۔ اس موضوع کو چھیڑنے کا سبب ایک تازہ رپورٹ ہے۔ پہلے اس کا خلاصہ سن لیں۔ پھر ہم  ٹوٹے ہوئے تاروں یا ستاروں کی دنیا میں واپس آئیں گے۔ وسعت کی انتہا کو پہنچے ہوئے خلاء اور کائنات بلکہ کائناتوں سے ان ستاروں کے رشتے کی پراسرار سچائی سے اتنا سا پردہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جتنا اس کالم کے مختصر سے فریم ورک میں گنجائش ہے۔ رپورٹ کے ذکر سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ شہاب ثاقب کسی بھی سیارے یا ہماری زمین کے مدار میں داخل ہوں گے تو ”شہابیئے“ یا Metreorite کہلائیں گے۔

میرے مستقل پڑھنے والے اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ جرنلزم اور پبلک ریلیشنز کی تعلیم اور تجربے سے پہلے میں نے سائنس میں گریجوئیشن کی تھی اور امریکہ کے خلائی ادارے ”ناسا“ کی جس رپورٹ کا بیان میں کرنے جا رہا ہوں اس سے یہاں میری فیملی کے ارکان کا تعلق رہا ہے اور کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ہے۔ اس لئے خلائی اور سائنسی موضوعات میں میری دلچسپی بھی ہے اور ناسا سے متعلق معلومات تک میری رسائی بھی بہت آسان ہے۔

”ناسا“ کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ادارے نے تقریباً تیس سال پہلے زمین کی طرف آنے والے ٹوٹے ہوئے تاروں کے ٹکڑوں یا ”شہابیوں“ پر کڑی نظر رکھنے کے لئے ایک ٹیم تشکیل دی تھی تاکہ ان کے زمین پر گرنے سے ہونے والے نقصان سے بچا سکے۔ یہ ٹیم صرف امریکہ نہیں بلکہ اس کے ارکان دنیا بھر میں موجود ہیں تاکہ جیسے ہی یہ شہابیئے خطرے کی حد پار کریں تو خطرے کی گھنٹیاں بجا کر گرنے کے متوقع مقام کو خالی کرا لیا جائے۔ اس طرح ناسا کا عالمی نیٹ ورک ان اجرام  فلکی کو اس وقت خطرناک قرار دیتا ہے جب وہ زمین سے تین کروڑ میل کے قریب تک آ پہنچتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تیس سال کے عرصے میں ناسا کے نیٹ ورک نے مختلف سائز کے 34 ہزار شہابیوں کا سراغ لگایا ہے۔ ان میں سے سات شہابیوں کے بارے میں گزشتہ برس جنوری میں پتہ چلا تھا۔

یہ تو تھا اس رپورٹ کا خلاصہ۔ آپ کی دلچسپی کے لئے اب میں اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ ہر سال تقریباً سترہ ہزار شہابیئے زمین پر گرتے ہیں۔ زیادہ تر شہابیئے زمین تک پہنچتے پہنچتے ذروں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ سائنس دانوں کے تخمینے کے مطابق روزانہ تقریباً 48 ٹن ”شہابی مواد“ زمین کی سطح پر گرتا ہے  ان میں کچھ پتھریلے ٹکڑے بڑے سائز کے بھی ہو سکتے ہیں اور نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں، جن سے بچاؤ کے لئے ناسا نے عالمی سطح پر نیٹ ورک قائم کیا ہے۔

تقریباً پچاس ہزار سال قبل امریکہ پر ایک بھاری بھرکم شہائیہ گرا تھا جس نے ایک بہت بڑا گڑھا پیدا کیا اور ان پتھریلے ٹکڑوں کو میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہوا ہے۔ 2013ء میں ایک بہت بڑا شہابیہ روس کی طرف آواز سے بھی تیز رفتار سے  بڑھا جو خوش قسمتی سے زمین کی سطح سے اوپر ہی ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا اور زمین پر کوئی نقصان نہیں ہوا۔

یہ ٹوٹے ہوئے تارے شہاب ثاقب یا شہابیئے در اصل کائنات میں موجود سورجوں (یا ستاروں) اور سیاروں سے نکلنے والا مواد ہے جو خلاء میں نکل پڑتا ہے۔ ایک بات سمجھ لیں کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ستارہ ٹوٹ گیا اور وہ شہاب ثاقب یا  شہابیئے کی صورت کسی سیارے یا زمین کی طرف نکل پڑا۔ ایک ستارہ تو اجرام فلکی کی سب سے بڑی اکائی ہے اور سائنسی زبان میں سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہمیں جتنے بھی خلاء میں ستارے نظر آتے ہیں وہ سب کے سب سورج ہیں جن کا ہمارے سورج کی طرح اپنا ایک شمسی نظام ہے جس میں دیگر سیارے گردش کر رہے ہیں۔ کائنات کا وہ یونٹ جو اپنے اندر سلگتی آگ سے روشن ہے ستارہ کہلاتا ہے اور جس میں اپنی حرارت یا روشنی نہیں ہے وہ سیارہ ہے جس میں ہماری زمین شامل ہے۔ ہر سیارے کے مدار میں جو سٹیلائٹ گردش کرے گا وہ اس کا چاند کہلائے گا جیسے ہمارا چاند۔ اور آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے سورج کے نظام میں یہ اکیلا چاند نہیں متعدد اور چاند بھی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے۔

بہت سے ستاروں (یا سورجوں) کے جھرمٹ کہکشاں کی صورت میں کائنات کی لا محدود وسعت میں موجود ہیں اور پھر اس کائنات کی طرح بے شمار کائناتیں خلاء میں جلوہ افروز ہیں۔ ہم کنوئیں کے مینڈک کی طرح صرف ایک ستارے (یا سورج) کے نظام میں واقع ایک سیارے (زمین) پر رہ رہے ہیں اور صرف اس ستارے کے نظام میں بے شمار چاند ہیں لیکن ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس کائناتی نظام میں ایک ہی سورج ہے ایک ہی چاند ہے اور ہماری زمین کے ساتھ چند ایک اور سیارے ہیں اور بس۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ سوچ کو مزید کھلا چھوڑ کر اڑنے دیا تو پر جل جائیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -