قسمت کا لکھا یہ انسانوں کی تقسیم 

 قسمت کا لکھا یہ انسانوں کی تقسیم 
 قسمت کا لکھا یہ انسانوں کی تقسیم 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ایک سوال ہے۔ اس  سوال کے اندر بھی کئی سوالات ہیں۔  سوال یہ ہے کہ ناروے، کینیڈا، نیوزی لینڈ، سنگاپور، جاپان اور دوسرے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کے مقابلے میں پاکستان جیسے بھوکے، غربت اور مسائل میں گرے ممالک جیسے کئی افریقی اور ایشین ممالک  کے درمیان اتنا فرق کیوں ہے؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے یا انسانوں کی پیدا کردہ تقسیم، بے انصافیوں اور سوچ کی پیدا کردہ صورتحال ہے؟  اب جو سوال دوستوں سے کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پوری دنیا کے اندر جہاں جہاں بھی مذاہب کا زور ہے ان سب کے درمیان مشترک چیزیں ناخواندگی اور غربت ہے۔ یعنی مذہبی رسومات ادا کرنے والے  اور سب کچھ مذہب کے ذمے لگا دینے والے لوگ زیادہ تر غریب اور ناخواندہ ہیں۔ جیسے کہ وسطی افریقہ کے کئی ممالک ہیں۔ افغانستان، بھارت، فلپائن، انڈونیشیا اور پاکستان کے مخصوص علاقوں میں مذہبی رسومات اور فرقہ بندی کا زور ہے، لیکن پاکستان میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ بھی مذہبی ہے اور وہ ہیں بدعنوانی میں لتھڑے بیوروکریٹس اور کئی سیاستدان یہ لوگ ہر طرح کی بدعنوانی سے مال اکٹھا کرتے ہوئے سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح لئے ورد کرتے اور عبادت کرتے نظر آتے ہیں اور مذہبی محفلوں کی اگلی صفوں میں براجمان ہوتے ہیں یا پھر خاص مہمان ہوتے ہیں۔

اِسی طرح مذہب کی تبلیغ کرنے والوں پر غور کیا جائے تو یورپ، امریکہ، افریقہ سمیت پاکستان میں بھی ان لوگوں کے کئی ذاتی مفادات مذہب کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان لوگوں نے مذہب کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ یورپ کے پادری ہوں یا افریقہ کے عیسائی مبلغین ہوں۔ ہندو پنڈت ہوں یا مسلم ممالک کے مولوی حضرات ہوں۔ یہودی راہبر ہوں یا بدھ مت کے سادھو ہوں۔ سب ہی کہیں نہ کہیں مذہب کے نام پر ذاتی مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا رہن سہن اور ان کا لائف سٹائل ان کی تبلیغ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پاکستان میں مذہبی راہنماؤں نے سیاسی جماعتیں بنا رکھی ہیں۔ کچھ نے غیر سیاسی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، لیکن مفادات سب کے ایک ہی جیسے ہیں۔ یہ سب لوگ نہایت امیر اور زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو سادگی کا درس دیتے ہیں۔ غریبوں کو غربت کی وجہ ان کی لکھی گئی قسمت بتا کر مطمئن کر دیتے ہیں،بلکہ کہتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ بھی ہمیں دے دو تمہیں اس کے بدلے جنت میں آسائشیں ملیں گی۔ ان کے پیروکار یا مریدین ان سے یہ پوچھنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے کہ سرکار جنت میں تو آپ نے بھی جانا ہے۔ پھر اس دنیا کی آسائشوں میں دِل کیوں لگا رکھا ہے؟  آپ دوسروں کو یہ کہتے ہو کہ دنیاوی مال حرام ہے اور خود مال اکٹھا کرنے پر لگے ہو؟ یا پھر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ کوئی بھی مذہب صرف ناخواندہ اور غریت لوگوں پر ہی لاگو ہوتا ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ  ہمیں پیدائش کے وقت جو مذہب کی گھٹی دی جاتی ہے۔ کیا ہم نے ساری عمر اسی میں گزار دینا ہوتی ہے۔ یا وقت کے ساتھ ساتھ کچھ سوچنا اور سمجھنا بھی ہماری ذمہ داری ہوتا ہے؟ آپ جس بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ اکثریت کا اللہ پر ایمان تو ہے اور ہم مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق، مالک اور رب صرف اللہ کی ذات ہے۔ ہمارا یہ بھی پختہ ایمان ہے کہ اللہ بہت ہی بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ جب ایک انسان یا جانور کی ماں اسے لازوال پیار کرتی ہے تو جس اللہ نے جو مخلوق پیدا کی ہے تو کیا اسے اپنی مخلوق سے پیار نہیں ہے؟ تو پھر وہ اللہ رزق اور وسائل کی تقسیم میں کیوں کر بے انصافی کر سکتا ہے؟ کیا اس مالک کا فرمان نہیں ہے کہ میں نے کائنات کو توازن سے پیدا کیا اور توازن سے ہی قائم رکھا ہوا ہے؟ تو پھر ہم انسانوں کے حالات کیوں متوازن نہیں ہیں؟ ہم سے کیا غلطی ہوئی کہ ہمیں غریب پیدا کیا گیا اور جن کو دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہیں انہوں نے کیا کمال کیا ہے؟

باتیں اور مثالیں اور بھی بیشمار ہیں مگر تحریر کو طوالت سے اور قارئین کو اوازری سے بچانے کے لئے آج کے لئے اتنا،ہی کافی ہے۔

کہنا صرف یہ ہے کہ ہمیں دو انتہاہوں کے بیچ میں بھی کہیں سچائی کی تلاش کرنی چاہئے۔ہمیں اپنے موقف کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنے سے کچھ فرصت پا کر دوسروں کے موقف پر بھی غور کر لینا چاہئے۔ ہمیں گھٹی میں ملے مذہب کا خود بھی مطالعہ کرنا چاہئے اور دوسرے مذاہب اور اپنے مذہب کا موازنہ بھی کر لینا چاہئے۔ اس طرح ہمارے ایمان میں پختگی آ سکتی ہے۔ ہمیں نظام قدرت و فطرت پر پورا غور کرنا چاہئے۔

آخر میں گزارش ہے کہ جس ملک کی آبادی باوجود اس کے کہ ایک کروڑ سے زائد خواتین کے بالوں میں شادی کے بغیر ہی چاندی اتر آئی ہو بے رو جھاڑیوں کی مانند بڑھ رہی ہو اور ان پیدا ہونے والوں میں ایک فیصد بھی وسائل کی تلاش کرنے کا ہنر نہ جانتے ہوں اور ان میں صرف ہر دسواں  بندہ کام کرنے والا اور نو ہاتھ پھیلانے والے ہوں، جس ملک کی 25 کروڑ کی آبادی میں سے چار کروڑ پیشہ ور گداگر ہوں اور اس سے کہیں زیادہ گھروں میں چھپے بھلے مانس گداگر ہوں۔ اس ملک میں ترقی نہیں پسماندگی بڑھتی ہے۔ ایسے ممالک کی ریاست مہا گداگر ہوتی ہے۔ اور ایسے ممالک کے سڑکوں اور چوراہوں پر مانگنے والے گداگر بھی خوشحال ہوتے ہیں، جبکہ گداگر حکمرانوں کی تو باقاعدہ عیاشیاں ہوتی ہیں البتہ محنت کرنے والے اور ایماندار کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -