پاراچنار پر بے حسی کیوں؟
میرے لئے یہ بہت ہی تکلیف کا باعث اور حیران کن بات ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں بد امنی پھیلانے کے لیے بارڈر پار اور ملک کے اندر سے کچھ گروہ حکومت اور ریاستی اداروں کو مشکل میں ڈالنے کے لیے وقفے وقفے سے تخریبی کا رروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے طوری اور بنگش قبائل کے اکثریتی آبادی کے علاقے پارا چنارمیں کچھ لوگ خفیہ طریقے سے بارڈر کراس کر کے کارروائیاں کرتے ہیں۔ جس سے یہاں کے باسی پرامن شہریوں کو قتل اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ 23 اکتوبر کو شلوزان گاؤں پر پہاڑوں سے ہونے والی فائرنگ سے حالات خراب کئے گئے۔ قطر سے اپنے بچوں سے ملنے کیلئے آنے والاپاراچنار سے تعلق رکھنے والا شخص پشاور روڈ پر ٹارگٹ کلنگ میں قتل کردیا جاتا ہے۔ سکیورٹی ادارے کی حفاظت میں پاراچنار جاتے ہوئے چارخیل کے مقام پرکانوائے پر حملے میں پانچ افراد کوقتل کردیا جاتا ہے پھر بوشہرہ گاؤں پر حملہ ہوتا ہے۔جس سے متعدد افراد قتل کردیے جاتے ہیں۔اور پھر یہ آگ اطراف میں جنگ کی صورت حال پیدا کردیتی ہے۔یہ تکلیف دہ بدامنی آج کی پیدا وار نہیں،ان واقعات کی کڑیاں بہت دور تک جاتی ہیں ورنہ اس سے پہلے بھی آج کے ضلع کرم اور ماضی کے فاٹا کی کرم ایجنسی کے لوگ پرامن طور پر رہتے تھے،مگر عسکریت پسندی اور تکفیری دہشت گردں کی سرپرستی کی وجہ سے یہاں حالات کسی بھی وقت کسی بھی ایشو پر خراب کرنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا اور پھراس کے پیچھے محرک گروہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
مجھے 1980ء کی دہائی کا وہ وقت یاد ہے جب پاراچنار پر پاکستان کے اندر سے جانے والے دہشت گردوں نے ملک کے امن و امان کو تہہ و بالا کیا اوریہاں کی اکثریتی آبادی کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ اس وقت کی مدبر قیادت شہید علامہ عارف حسین الحسینی رحمتہ اللہ علیہ کی دعوت پر ہم چند تنظیمی دوستوں نے پاراچنار کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات و واقعات کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا۔ اس دوران بھی اور بعد ازاں بھی چھوٹی موٹی مشکلات تو آتی رہی ہیں جن کے حل کے لیے علاقہ معززین نے حالات کو نارمل کرنے کی کوشش کی اور وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن اس کے بعد 2007ء سے پاراچنار کا چار سالہ محاصرہ رہا۔لوگوں کا صدہ کے معروف راستے سے ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع کردیا گیا تھا۔یہاں کے باسیوں کو کاروبار اور تعلیم کے حصول کے لئے افغانستان کے راستے پشاور جانا پڑتا تھا۔ پھر اسی سال 4۔مئی میں سات اساتذہ کے سکول میں قتل سے جو صورتحال پیدا ہوئی اسے سامنے رکھتے ہوئے میں حق بجانب ہوں کہ کچھ باتیں پاکستان کے طاقتور اداروں سے کروں۔ اب جبکہ پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کو خاردار تارلگا کر محفوظ کیا گیا ہے،وہاں پر ایف سی کے چاق و چوبند دستے بھی بارڈر پر نظر رکھے ہوئے، دراندازی کے واقعات کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہوں گے لیکن چند دن پہلے کے واقعات کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو لگتا ہے کہ حفاظتی اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ کہیں کوئی کوتاہی ضرور ہے۔ مئی میں انتہائی پڑھے لکھے حساس طبقہ جسے معاشرے میں استادکہا جاتا ہے، انہیں بے دردی سے سکول میں ذبح کر دیا گیا لیکن انتظامیہ، حکومت اور مقتدر قوتوں کی طرف سے اگر مجرموں کی گرفتاری اور انہیں سزا دلوانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا ہوتا تو شاید بعد کے واقعات رونما نہ ہوتے۔
میری یہ گذارشات صرف اداروں کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ ملک کی طاقتور قوتوں سے التماس بھی کر رہا ہوں کہ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور جہاں کہیں بھی کوتاہی نظر آرہی ہے، اسے بے نقاب کر یں اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دیں۔ میں یہ باتیں پاکستان کا سینیئر ترین سیاسی ورکر ہونے کی حیثیت سے بھی کررہا ہوں کہ راقم الحروف کافی عرصے سے اداروں کی کارکردگی اور شرپسندوں کی شرانگیزیاں اخبارات کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا رہا ہے اور اب بھی اس فریضے کو سر انجام دیتا رہتا ہوں۔ اس لئے میں اس حوالے سے چند اہم باتیں چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر گیلانی سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ خود اس علاقے کا دورہ کریں یا اپنی نمائندگی میں کوئی با اختیار وفد وہاں کے حالات کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے بھیجیں۔ میں آرمی چیف سے ایک بزرگ،سید اور پاکستانی شہری ہونے کے حوالے سے بھی التماس کرتا ہوں کہ مجھے یہ بتایا جائے کہ طوری اور بنگش قبائل کے علاقے میں پہلے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ بند کر دیے گئے، پھرپاراچنار کے گھیرے کو تنگ کیا گیا۔ ہم سب اسرائیلی مظالم کی مذمت تو کرتے ہیں مگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام جیسی خود کو قومی سیاسی جماعتیں ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟ گلگت، کوئٹہ اور پاراچنار میں ہونے والی بدامنی پر ان کی زبانیں بندکیوں ہوجاتی ہیں؟چھوٹے چھوٹے ایشوز پر بات کرنے والا میڈیا بھی پاراچنار کے مسئلے پر خاموش رہا۔ ان علاقوں کی قبائلی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہاں کے عوام کی بھی قسمت لڑائی جھگڑے اور بدامنی ہی ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں تبدیلی کیا آئی ہے؟ہر طرح کی حکومتی مشینری کی موجود گی کے باوجود علاقے میں امن قائم نہیں کیا جاسکا۔
میں سمجھتا ہو ں وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومتیں پاراچنار پر توجہ دیں اور یہاں نفرت کے ذریعے بدامنی پیدا کرنے والوں کی سرکوبی کریں اور کچھ نہیں تو کم از کم نیشنل ایکشن پلان پر ہی عمل کرلیں تو دوبارہ بدامنی پیدا نہیں ہوگی۔
میں ان تمام معاملات کو قریب سے دیکھنے والا سیاسی کارکن ہوں۔اس لئے میری دلی خواہش ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں،جن خطوط پر میں نے اپنی گذارشات پیش کی ہیں، انہیں سامنے رکھتے ہوئے علاقے کی مشکلات کو دور کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں تو لوگوں کی گھٹن ختم کرنے میں معاونت ہو گی۔ان شاء اللہ دہشت گرد اپنی موت آپ مرجائیں گے!۔۔۔۔