بیوروکریسی میں عرصہ تعیناتی؟
آئین پاکستان کی خالق پارلیمنٹ برتر،سپریم ہے اور وہ قانون سازی کا اپنا آئینی حق پورے استدلال سے وصول کر رہی ہے،26ویں ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں،چیف جسٹس صاحبان کی تقرری، مدت تعیناتی کے حوالے سے اہم معاملہ سامنے آیا،اگر چہ یہ ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی گئی ہے، اس حوالے سے بحث و تمحیص ابھی بے معنی ہو گی،مقننہ نے اپنا آئینی حق استعمال کیا اب دیکھیں سپریم کورٹ اس حوالے سے کیا موقف اپناتی ہے،26ویں ترمیم کے کچھ ہی روز بعد فوجی سربراہان کی تعیناتی کی مدت تین سے بڑھا کرپانچ سال کر دی گئی،یہ بھی پارلیمنٹ کا حق تھا اس پر نقد و نظر بھی مناسب نہیں البتہ کسی کو اعتراض ہے یا اس ترمیم میں کچھ غیر آئینی ہوا تو اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کا اسے بھی پورا حق ہے۔افسوس صد افسوس، آزادی کے76سال بعد بھی ہم آئینی عہدوں کی تقرری تعیناتی اور مدت تعیناتی کی بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے بنیادی مسائل بحران کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں،معیشت کی بنیادیں کھوکھلی اور صنعت زبوں حالی سے دوچار ہے،زراعت کسمپرسی کا شکاراورزرعی رقبہ میں دن بدن کمی آ رہی ہے،اجناس مہنگی،مگر کسان کو فصل کی پوری قیمت نہیں ملتی، بیج،کھاد،زرعی ادویہ اور آلات پر غیر ملکی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے،امن و امان کی حالت قابل رحم ہے، مہنگائی، بیروزگاری، قلت اشیاء کے ساتھ صرف زرعی مقاصد نہیں پینے کے پانی کی دستیابی بھی چیلنج بن چکی ہے،ایسے میں ہم ریاستی اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی ترقی اور مدت پر تو بحث کر رہے ہیں، مگر جن صوبائی عہدیداروں یاانتظامیہ نے حکومتی پالیسیوں، فیصلوں اور اصلاحات پر عملدرآمد کرانا ہے ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔ پارلیمنٹ نے اپنا اختیار استعمال کیا،جن کے لئے کیاان کو کوئی اعتراض بھی نہیں، لیکن مختصر مدت میں آئین میں جوبہتر ترامیم کی گئیں ان میں سے ایک بھی عوامی مفاد میں نہیں،بلکہ حکمرانوں کو مضبوط،مستحکم بنانے اور عرصہ اقتدار کو طوالت دینے کے لئے تھیں اسی طرح ایک ترمیم عدلیہ کو حکومت کا زیر نگیں کرنے اور دوسری زور آوروں کو خوش کرنے کے لئے تھیں، سابق چیف جسٹس نے توسیع لینے سے انکار کر دیا اور مسلح افواج کے سربراہوں کو بغیر مانگے توسیع دے دی گئی،”باغباں بھی خوش رہے،راضی رہے صیاد بھی“۔
آئین کی رو سے چیف سیکرٹری،وفاقی سیکرٹری،صوبائی سیکرٹری شائد آئینی نہیں انتظامی عہدے ہیں،ایسے ہی کمشنر، ڈپٹی کمشنرہیں، انہوں نے ملکی،صوبائی انتظامی معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے،مگر وہ صرف وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے اشارہئ ابرو کے محتاج ہیں،ان کا کوئی عرصہ تعیناتی ہی نہیں،گڈ گورننس کے لئے اگرمضبوط مستحکم،با اختیار اور با اعتبار حکومت ناگزیر ہے تو ایسی حکومت کے لئے سیاسی اور انتظامی اداروں میں توازن انتہائی ضروری ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ سیاسی ادارہ تو مضبوط و مستحکم ہو مگر انتظامی ادارے بے یقینی بے اعتمادی کا شکار ہوں، توکیاعوام کے مسائل حل کئے جا سکیں گے؟نظام کوئی بھی ہو انتظامی اداروں کی اہمیت ہمیشہ دو چند رہی ہے کہ حکمرانوں اور عوام میں پل کا کردار انتظامیہ یعنی بیوروکریسی ہی ادا کرتی ہے۔ سیاسی حکومت پانچ سال کامینڈیٹ لے کر آتی ہے اور اس کی بھرپور کوشش ہوتی ہے اس عرصہ میں عوام کو سہولیات دے کر اگلے الیکشن کی انتخابی مہم میں پورے قد سے داخل ہو، بیورو کریٹ کم از کم 25سال کا مینڈیٹ لیکر آتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے فرائض بجا طور انجام نہیں دے پاتے، انتظامی ٹیم خوف اورگو مگو کا شکاررہتی ہے،وجہ صرف یہ کہ کسی انتظامی افسر کومعلوم نہیں کہ صبح وہ اس پوسٹ پر رہے گا یا نہیں، تبادلہ کے خوف کی دو دھاری تلوارہر وقت سر پر لٹک رہی ہو تو کون کارکردگی دکھا سکتا ہے؟
ماضی میں سیاسی اور انتظامی حدود و اختیار اور عرصے کا تعین سپریم کورٹ انیتا تراب کیس کے فیصلہ میں کر چکی ہے اوریہ سیاسی اور انتظامی حکام میں توازن قائم کرنے کی ایک بہترین کاوش تھی،بیوروکریٹک ذرائع کا شکوہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تقرری و تبادلے کے حوالے سے کوئی حکومت سپریم کورٹ کے طے کردہ ضابطوں پر عمل نہیں کر رہی تاکہ ان کے عہدے کی معیاد کا تحفظ کیا جا سکے اور بیورو کریسی کو سیاست سے بچایا جا سکے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بمشکل ہی کسی معاملے میں قبل از وقت تبادلے کے لئے تحریری طور پر وجوہات بتائی جاتی ہیں،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سرکاری ملازمین کے عہدے کی معیاد کو تحفظ دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ سرکاری ملازمین کے عہدے کی معیاد تبدیل نہیں کی جا سکتی تاوقتیکہ کوئی ٹھوس وجہ موجود نہ ہو اور یہ وجوہات تحریری طور پر بیان کی جائیں،سپریم کورٹ کے مطابق ان وجوہات کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے، اگرچہ عمومی طور پر حکومتیں اصرار کرتی ہیں کہ کسی بھی افسر کو کسی بھی وقت اس کے عہدے سے تبدیل کرنا حکومت کا استحقاق ہے، لیکن سپریم کورٹ نے انیتا تراب کیس میں کہا تھا کہ تقرریاں،برخواستگی اور ترقی کامعاملہ قانون کے مطابق ہونا چاہئے اور اس میں طے شدہ ضوابط کا خیال رکھنا چاہئے اور ایسے معاملات جہاں قانون موجود نہیں اور وہاں استحقاق استعمال ہوتا ہے تو ایسے میں استحقاق کو شفاف، منطقی اور منظم طریقے سے استعمال کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ استحقاق عوامی مفاد میں استعمال کیا جائے۔اکثر و بیشتر ہونے والے تبادلے اور تقرریاں سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور استعداد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ مذکورہ بالا معاملات فیصلہ سازی اور ریاست کی انتظامی مشینری سے متعلق ہیں، ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے کہ عہدے کی معیاد، اپائنٹمنٹ، ترقی اور ٹرانسفر کے متعلق فیصلے اصولوں کے مطابق رہیں نہ کہ ایسے صوابدیدی اختیارات کے مطابق جن میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہو سکتی یا نظر ثانی نہیں ہو سکتی،سپریم کورٹ کی ہدایت پر فیصلے کی نقول وفاقی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، صوبائی چیف سیکرٹریز، کمشنر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اور تمام وفاقی و صوبائی محکموں کے سیکرٹریز کو بھجوائی گئی تھیں۔تاہم، عمومی طور پر اس تاریخی فیصلے کو متعلقہ حکام نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اس تفصیلی اور منطقی فیصلہ کے بعد ضروری تھا کہ عدالت عظمیٰ عملدرآمد پر نگاہ رکھتی تاکہ بیوروکریسی سے ہونے والی زیادتی کا کچھ ازالہ ممکن ہوتا،مگر ایسا نہ ہواء جس کے باعث اعلیٰ عدلیہ کے اس حکم کی مسلسل خالف ورزی ہو رہی ہے،دلچسپ نہیں بلکہ فکر انگیز بات کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی سطح کے افسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس عہدہ پر کب تک فائز ہیں اورکب راندہ درگاہ کر دیئے جائیں گے سول انتظامیہ میں اسی بے یقینی کا نتیجہ ہے کہ اب افسروں کی بڑی تعداداچھے برے کی پہچان کئے بغیر اپنا عہدہ بچانے اور عزت و آبرو سے نوکری کرنے کے لئے ہر نئی حکومت کے دست ”حق پرست“ پر بیعت ہو جاتی ہے،یوں بیوروکریسی ایک ٹیم بن کر منظم انداز سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کے ماحول سے محروم ہے۔
٭٭٭٭٭