ہم دریائے جہلم پر سفر کرتے کنٹرول لائن کے نواحی علاقے پہنچے تو علم ہوا آگے ممنوعہ علاقہ ہے،۔ سرحد کے اس پار ہندوستانی فوج کی چوکیاں صاف نظر آرہی تھیں 

 ہم دریائے جہلم پر سفر کرتے کنٹرول لائن کے نواحی علاقے پہنچے تو علم ہوا آگے ...
 ہم دریائے جہلم پر سفر کرتے کنٹرول لائن کے نواحی علاقے پہنچے تو علم ہوا آگے ممنوعہ علاقہ ہے،۔ سرحد کے اس پار ہندوستانی فوج کی چوکیاں صاف نظر آرہی تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:217
سب سے پہلے ہم پیر چناسی پہنچے۔ یہ ایک بزرگ کا مزار ہے جو مظفر آباد سے 30 کلومیٹر دور ایک بلند پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے جو  9514فٹ کی بلندی پر ہے یعنی مظفر آباد سے بھی 2400 فٹ اونچا۔ قدرتی بات ہے وہاں ٹھنڈ بھی زیادہ ہو گی۔ اس کے بعد ہم نے لائن آف کنٹرول دیکھنے کا پروگرام بنایا جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک غیر مستقل بارڈر ہے۔ یہ ایک جنگ بندی لائن ہے جو 1965 ء اور1971 ء کی جنگوں کے درمیان اس وقت وجود میں آئی تھی جب دونوں ممالک کی افواج نے ایک دوسرے کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور پھر جنگ بندی کے بعد جہاں وہ رکے ہوئے تھے اسی کو کنٹرول لائن مان لیا گیا۔جب کہ ہندوستان کے ساتھ لگنے والی سرحد کو بین الاقوامی سرحد کہا جاتا ہے۔ ہم لوگ دریائے جہلم پر سفر کرتے اور آس پاس کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جب کنٹرول لائن کے نواحی علاقے میں پہنچے تو علم ہوا کہ آگے ممنوعہ علاقہ ہے۔ جب اس سلسلے میں وہاں کے ایک فوجی افسر کے ساتھ بات چیت ہوئی تو انھوں نے کمال مہربانی سے ہمیں آگے جانے کی اجازت دے دی اور یوں ہم سرحدی چوکی چکوٹھی تک پہنچ گئے۔ سرحد کے اس پار ہندوستانی فوج کی چوکیاں اور ان کے ملازمین کی نقل و حرکت صاف نظر آرہی تھی۔ یہاں پاک فوج کے ایک نوجوان افسر نے ہمیں اس بارے میں کچھ معلومات دیں کہ کس طرح ان سرحدوں کی حفاظت کو  24 گھنٹے یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہاں درمیان میں ایک پل بھی تھا جس کے دونوں طرف سے گاڑیوں کی نقل حمل اور پیدل آمدو رفت جاری تھی۔اور کچھ کاروباری سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آ رہی تھیں۔ 
اگلے دن ہم کشمیر کی خوبصورت ترین نیلم وادی کی طرف نکل گئے۔ دریائے نیلم اور دریائے جہلم ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے نکلتے ہیں اور دو مختلف وادیوں سے سفر کرتے ہوئے آتے ہیں اور مظفر آباد کے قریب یکجا ہو جاتے ہیں۔جس جگہ یہ ملتے ہیں اسے دومیل کہتے ہیں یعنی2 دریاؤں کے ملنے کی جگہ۔ نیلم ویلی میں سے سفر کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم جنت میں آگئے ہوں۔ ہر طرف خوبصورت، ہر ے بھرے پہاڑ،حسین چشمے اور ساتھ ساتھ بہتا ہوا دریائے نیلم ایک شاندار اور دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ ہم نے ایک جگہ اسی رواں دواں شور مچاتے دریا کے پاس ایک ریسٹ ہاؤس میں بیٹھ کر کچھ دیر آرام کیا اور کھانا کھایا۔ اور بڑی دیر تک آس پاس پھیلی ہوئی خوبصورتی سے محظوظ ہوتے رہے۔ یہاں قریب ہی چشمے پر ایک پن بجلی گھر بھی نصب تھا جس میں سے پانی ایک دباؤ کے ساتھ نیچے دریائے نیلم کی طرف بہہ رہا تھا۔  واپسی کے سفر میں نیلم جہلم کا مشہور زمانہ ہائیڈرو پاور پلانٹ بھی دیکھا جہاں سے 969 میگاواٹ سستی بجلی بنا کر قومی گرڈ سسٹم میں شامل کی جاتی ہے۔ یہاں دریائے نیلم کا پانی دباؤ کے ساتھ ایک سرنگ میں سے گزر کر دریائے جہلم سے جا ملتا ہے۔ جس کے زور سے ٹربائنیں چلتی ہیں اور اس عمل سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر میں 3 راتوں کے قیام اور پھر کچھ خوبصورت مقامات کی سیر کے بعد ہم نے واپسی کی ٹھانی اور واپسی پر چند گھڑیاں مری میں قیام کرکے اور بہترین کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم اسلام آباد لوٹ آئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -