بلوچستان سے اٹھتی کالی گھٹائیں
قومی معیشت میں بہتری آ رہی ہے، کھلی معیشت کے اعشاریے مثبت ہوتے چلے جا رہے ہیں توازن تجارت ہو یا ادائیگیوں کا توازن،بہتری کی طرف گامزن ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر بھی مناسب حد تک بھرے ہوئے ہیں،ٹیکسوں کی وصولیاں بھی جاری ہیں،وصولیوں کے ماہانہ اہداف بھی تسلی بخش انداز میں حاصل کئے جا رہے ہیں،وزیراعظم شہباز شریف ایف بی آر کے اعصاب پر سوار ہیں،وصولیوں میں رتی برابر بھی کمی یا کمزوری قابل سرزنش ہو چکی ہے، معاشی حالات صرف بہتر ہو ہی نہیں رہے،بلکہ بہتر ہوتے نظر بھی آ رہے ہیں،مہنگائی کا سونامی تباہی و بربادی کے بعد کہیں گم ہو چکا ہے،مہنگائی کم ہو رہی ہے،لیکن وہ کم ہوتی نظر نہیں آ رہی،کیونکہ بجلی و گیس کی قیمتوں نے عوام کے احوال ابتر کر رکھے ہیں ایسی ابتری نظر بھی آ رہی ہے، عوام بلوں کے ہاتھوں پریشان ہیں، تھوڑے بہت نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک پریشان ہیں،بجلی و گیس کی بلند قیمتوں نے شہریوں اور عام صارفین کو ہی نہیں،بلکہ کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کو بھی پریشان،بلکہ نڈھال کر دیا ہے۔ گھریلو بجٹ شدید عدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں، قدر زر میں شدید گراوٹ کے بعد گو قدر زر کسی حد تک مستحکم ہو چکی ہے لیکن قوتِ خرید گر چکی ہے۔ذرائع آمدنی گھٹتے چلے جا رہے ہیں،بیروز گاری بڑھتی چلی جا رہی ہے، غربت اور بدحالی روز افزوں ہے،شہریوں کی اکثریت اپنے حال سے پریشان اور دُکھی ہے اور اپنے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس اور نااُمید ہو چکی ہے۔حکمران،اشرافیہ اور پالیسی ساز اگرچہ نہ صرف عوامی مسائل سے نمٹنے اور بہتری لانے میں بہت زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں،لیکن صلاحیت کا فقدان ایک اہم مسئلہ ہے،معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے روکنے کے لئے ان میں ”سیاسی خواہش“ کی کمی بھی عیاں ہے۔سرکار کی رٹ یا حاکمیت روز بروز کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے،تاجر شٹر ڈاؤن کر رہے ہیں۔ہڑتالیں کر رہے ہیں،کیونکہ وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے ہیں، وہ ٹیکس کا حکم اور طریقہ کار خود طے کرنا چاہتے ہیں،ویسے ایک بات تو درست ہے کہ تاجر بجلی کے بلوں میں بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ14،13 دیگر ٹیکس پہلے ہی ادا کر رہے ہیں،بجلی کا بل اخراجات کی مد میں آتا ہے لیکن بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس ایک دفعہ نہیں،ایک ہی بل میں کئی مرتبہ(کم از کم دو مرتبہ) شامل ہوتا ہے ذرا ہمارے اہلکاروں کی اعلیٰ ذہانت دیکھیں اخراجات پر بھی انکم ٹیکس لاگو کرتے ہیں، پھر تاجر ٹھیک ہی کر رہے ہیں کہ وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں،ہمارے تاجر پہلے ہی2023-24ء میں جاری کردہ ”پوائنٹ آف سیل“ کے نظام کے تحت ٹیکس دینے سے انکار کر چکے ہیں۔ وزیر خزانہ بھی بجٹ 2024-25ء میں اس بات کا برملا اقرار کر چکے ہیں کہ ”یہ نظام مطلوبہ نتائج ظاہر کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اس لئے اب تاجر درست نظام متعارف کرا رہے ہیں، تاجر 28اگست2024ء کو ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کے ذریعے،اس سکیم کو مسترد کرنے کے عزم صمیم کا اظہار کر چکے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے حکمران، پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندہ افراد اپنی مراعات سے دستبردار ہونے پر رضا مند نظر نہیں آ رہے،شاید سرکاری اخراجات، پروٹوکول، تنخواہیں،مراعات وغیرہ ویسے ہی چل رہے ہیں۔منظورِ نظر افراد کی بھاری مشاہیر پر تعیناتیاں ویسے بھی جاری ہیں جیسے کبھی پہلے ہوتی تھیں۔آئی ایم ایف کی ہدایات پر محکموں میں رائٹ سائزنگ ہو رہی ہے،محکموں کا ادغام بھی ہو رہا ہے اور کئی ڈیپارٹمنٹ بند بھی کئے جا رہے ہیں لیکن معاملات قابو میں نہیں آ رہے، سرکاری خرچ پر ذاتی تشہیر کا عمل بھی جاری ہے۔دورے بھی جاری ہیں اور قرض پر قرض بھی لئے جا رہے ہیں۔قرض لینے کی حکمت عملیاں بڑے اہتمام کے ساتھ طے کی جاتی ہیں۔ ان پر کامیابی سے عملدرآمد بھی ہوتا رہتا ہے،لیکن قرضوں سے نمٹنے اور ان سے گلو خلاصی کرانے کے لئے کچھ بھی طے نہیں کیا جا رہا۔قرضوں کا بوجھ روز بروز، ہر لمحہ بڑھتا ہی چلا جا ہا ہے ہمیں تو صرف بیرونی قرضوں کے حصول کی دوڑ دھوپ نظر آتی ہے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف،ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک یا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کتنا قرضہ لینا چاہتے ہیں اور وہ کس قدر لے رہے ہیں،لیکن چین کے ساتھ ہمارے معاملات ڈھکے چھپے ہیں، سی پیک کے تحت ہم نے ان سے کیا طے کیا ہے؟ وہ ہمیں کیا دیں گے اور بدلے میں کیا لیں گے؟ ہم ان سے کیا لے چکے ہیں اور انہیں کیا کیا دے چکے ہیں یہ سب قومی راز ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اگر چینی معاہدوں پر عملدرآمد نہ کر سکے تو معاملات سنگین بھی ہو سکتے ہیں،ویسے ہم نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن/ گیس سپلائی کا معاہدہ کیا، ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کر دیا، شاید اس پر سات، آٹھ ارب ڈالر خرچ بھی ہو گئے،لیکن ہم امریکی دباؤ میں اپنے حصے کا کام نہیں کر پا رہے۔معاہدے کی شقوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے باعث ہمیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔سوچنے کی بات ہے جو ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کر رہے ہیں،امریکہ نے ان کا کیا بگاڑ لیا ہے ان میں ہندوستان بھی شامل ہے جو خطے میں امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے، ترکی بھی انہی ممالک میں شامل ہے۔ افغانستان پر امریکی پابندیوں نے کیا اثرات مرتب کئے ہیں وہ تین سالوں میں بغیر کسی غیر ملکی امداد کے ایک خود مختار ملک کے طور پر مستحکم ہو رہا ہے۔وہاں نہ تو کوئی معاشی بحران ہے اور نہ ہی امن و امان کے مسائل۔طالبان حکومت اپنی رٹ قائم کر چکی ہے یہ ہم ہی ہیں کہ330 یا اس سے بھی زیادہ ارب ڈالر کی معیشت رکھنے،70 ارب ڈالر سالانہ کی کمائی کرنے اور100ارب ڈالر خرچ کرنے والا ملک ہونے کے باوجود،دنیا کی عظیم الشان افواج اور ایٹمی دفاعی حصار رکھنے کے باوجود معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں،دہشت گردی کی زد میں ہیں،داخلی عدم استحکام میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ خاصا اُلجھا ہوا ہے، ناراض بلوچ اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہیں،کچھ ہتھیار بند بھی ہو چکے ہیں،دشمن ان کی صفوں میں سرایت کر چکا ہے، وہ آزادی کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں،لسانی اور علاقائی نفرت پھیلانے کی منظم کاوشیں بھی ہو رہی ہیں،ہماری مسلح افواج دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور ہتھیار بند بلوچوں سے نمٹنے میں مصروف ہے وہ بڑی کامیابی سے پاکستان کی سالمیت کا تحفظ کر رہی ہے،لیکن اصل محاذ پر خاموشی ہے،ناراض بلوچوں کے ساتھ بات چیت، سیاسی انگیج منٹ کا محاذ سرد ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاستدان بھی آگے بڑھیں،ان سے بات چیت کریں، اُنہیں ہمدردی کے ساتھ سنیں۔ان کی شکایات کا جائزہ لیں،ان کے زخموں پر مرہم رکھیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی معاملات پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔بلوچ رہنما سردار اختر مینگل کا پارلیمنٹ پر عدم اعتماد انتہائی سنجیدہ فعل ہے اور ان کا پارلیمان سے مستعفی ہونا افسوسناک ہی نہیں، بلکہ الارمنگ بھی ہے۔پارلیمان ایک ایسا فورم ہے جہاں پاکستان کی تمام اکائیوں کے نمائندہ افراد ملتے ہیں۔ یہ ایک آئینی اور قومی و ریاستی ادارہ ہے جس نے پاکستان یا مملکت کی تمام اکائیوں کو اکٹھا باندھ کر رکھا ہوا ہے۔بلوچستان کا مسئلہ پہاڑوں میں یا میدانوں میں بندوق کی نوک کے ذریعے حل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ بندوق ریاست کے باغیوں اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والوں کے خلاف ضرور استعمال کی جانی چاہئے، لیکن حقوق مانگنے والوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات ہونے چاہئیں اور یہ کام سیاستدانوں کا ہے، انہیں اس کام میں جلد بازی اور ہوشیاری دکھانی چاہئے۔