سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 53
اس کے بعد پھر میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔وقار یونس کے ساتھ میری جوڑی مشہور ہو گئی۔ ہم نے دنیا کی بڑی بڑی بیٹنگ لائن تباہ کی۔پاکستان کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا۔بورڈ نے مجھے کپتان بنا دیا۔ میری کامیابیوں کی یہ معراج تھی۔کبھی سوچا نہ تھا کہ جس ٹیم میں کھیلنے کے خواب دیکھے تھے اس کی قیادت میرے ہاتھوں میں ہو گی مگر اس کی بلندی پر پہنچنے کے بعد مجھے ایک اور جھٹکا لگا۔
میرے ساتھی میرے دوست میرے ہمدم اچانک میرے خلاف ہو گئے۔مجھے قیادت کی ذمہ داریاں سن بھالنے کے لئے جو لوگ کہا کرتے تھے وہی میرے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ساتھیوں کی جو محبت مجھے حاصل تھی وہ یکایک مخالفت میں بدل گئی۔ میں حیران تھا کہ ہوا کیوں الٹی چل پڑی۔
قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ماجد خان بورڈ کے چیف ایگزیکٹو بنے تھے۔ ان کا اقتدار شروع ہوا تھا ایسے میں کھلاڑیوں نے بغاوت کر دی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وسیم اکرم کو ہٹایا جائے ہم اس کی قیادت میں کھیلنے کو تیار نہیں۔ان کا الزام تھا کہ میں ان کو اپنا غلام سمجھ رکھا ہے۔ان سے صرف حکم کی تعمیل کرانا چاہتا ہوں۔ان کو ساتھی نہیں سمجھتا میرا رویہ درست نہیں ہے۔اس لئے کوئی میرے ساتھ کھیلنے کو تیار نہیں۔مشتاق احمد، وقار یونس، رمیز راجہ، انضمام الحق، سلیم ملک،آصف مجتبیٰ،راشد لطیف،باسط علی،عاقب جاوید اور غالباً جاوید میانداد سبھی میرے خلاف تھے۔صرف ایک کھلاڑی عطاء الرحمن میرے ساتھ تھا۔ کیونکہ عطاء الرحمن کا تعلق میرے لدھیانہ کلب سے تھا۔ باقی سب مخالف ہو گئے۔میں نے کبھی سیاست نہیں کہ ہمارے یہاں سیاست ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔میں بھی ایسی ہی کسی سازش کا شکار ہو گیا۔ میں حیران تھا کہ وہ سب کے سب ایک دن پہلے میرے گھر آئے تھے۔میرے ساتھ کھانا کھایا تھا۔ میرا نمک کھایا تھا اور سبھی میرے ساتھی تھے۔ برسوں سے ہم ایک دوسرے کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے اچانک انہوں نے دوستی کا چولا اتار پھینکا۔ سب میرے مخالف بن گئے۔شاید اس میں ان کا قصور نہ تھا۔ یہ تقدیر کا کھی تھا۔کیرئیر کے عروج پر میری قسمت میں یہ جھٹکا آنا تھا۔ حالانکہ اگر وہ مجھ سے کہتے تو میں رضا کارانہ طور پر قیادت سے دستبردار ہو جاتا۔ اس کے لئے بورڈ کو درخواست دینے کی کیا ضرورت تھی۔میں ان کو برا نہیں کہہ سکتا ۔کیونکہ وہ میرے دوست تھے۔جب دوست منہ پھیر لیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔یہ اذیت ناقابل برداشت ہوتی ہے۔کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اپنے جب زخم دیں تو تکلیف بہت ہوتی ہے۔اس دن مجھے یہ احساس ہوا کرکٹ سے میرا دل اچاٹ ہو گیا۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کروں۔ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دوں۔مگر لنکا شائر سے تو کھیلنا تھا۔ اس میں ان کا کیا قصور تھا۔میں بہت پریشان تھا۔بورڈ کے عہدیدار بھی مشکل میں تھے۔مجھے کپتانی سے ہٹا نہیں سکتے تھے اور میرے روٹھے دوستوں کو سمجھا نہیں سکتے تھے۔ان پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ اس موقع پر میں نے خود قربانی دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ کرکٹ کھیلنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔(جاری ہے)
اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔