صدر ٹرمپ ’ٹیرف وار‘ کے اثرات
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد پریس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوابی محصولات عائد کرنے کے حوالے سے وہاں کی انتظامیہ سے بات چیت کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد واشنگٹن بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ وفد وزیرِاعظم شہباز شریف کی منظوری حاصل کرنے کے بعد بھیجا جائے گا، سٹیئرنگ کمیٹی اور مشترکہ ورکنگ گروپ اِس چیلنج سے نبٹنے کے لیے سفارشات کو حتمی شکل دیں گے، پاکستان دونوں ممالک کے لئے بہتر حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اْنہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت امریکہ کی جانب سے عائد کردہ جوابی ٹیرف کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی شعبے کو سبسڈی فراہم نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل دنیا کے تمام ممالک کے لیے 10 فیصد یونیورسل یا بیس ٹیرف نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا، اْس کے بعد مختلف ممالک کی طرف سے امریکہ پر عائد کردہ ٹیرف کے تناسب سے اْن پر محصولات عائد کیے، زیادہ تر ممالک پر اْن کی طرف سے عائد کردہ ٹیرف کا نصف عائد کیا گیا ہے، پاکستان کے امریکہ پرعائد 58 فیصد کا نصف 29 فیصد عائد کیا گیا جو 9 اپریل 2025ء سے لاگو ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے شروع کی گئی اِس ”ٹیرف وار“ کے نتیجے میں چین اور کینیڈا کے علاوہ بعض دوسرے ممالک نے بھی امریکہ پر جوابی ٹیرف عائد کر دیا اور اب اس تجارتی جنگ کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں، اِن کے انڈیکس ایک ایک دن میں کئی کئی فیصدگر رہے ہیں، زیادہ تر مارکیٹوں میں پانچ فیصد سے بھی زائد کی مندی دیکھی گئی، بہت سے حصص کی قیمتوں میں اب تک درجنوں کھرب کی کمی آ چکی ہے۔ صرف امریکی سٹاک مارکیٹوں میں گزشتہ چند روز میں سرمایہ کاروں کے حصص کی قیمتوں میں 60 کھرب ڈالر سے زائد کی کمی دیکھی گئی۔ ڈاؤ جونز،ایس اینڈ پی 500 اور نیسڈک میں کئی کئی فیصد گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ پیر کے روز بھی سٹاک مارکیٹیں کھلتے ہی ”سرخ“ ہو گئیں یعنی اِن میں شدید مندی کا رجحان نظر آیا، گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل بڑھتا پاکستان سٹاک ایکسچینج کا ہنڈرڈ شیئر انڈیکس بھی چند گھنٹوں میں پانچ فیصد تک گر گیا جس کے بعد اِس پر لگائے گئے بیریئر کے باعث حصص کا لین دین ایک گھنٹے تک رْکا رہا تاہم بعد ازاں کچھ ریکوری دیکھنے میں آئی۔ اِن سطور کی تحریر تک کھلنے والی سبھی سٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی دیکھنے میں آ رہی تھی، لندن سٹاک ایکسچینج کا فْٹسی ہنڈرڈ انڈیکس پانچ فیصد نیچے آیا، جرمنی کی سٹاک مارکیٹ میں چار فیصد کمی ہوئی، جاپان کا نکئی انڈیکس نو فیصد نیچے آیا جبکہ ہانگ کانگ کے ہینگ سینگ انڈیکس میں 13 فیصد سے زائد گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ پاکستان کی طرح جنوبی کوریا میں بھی شدید مندی کے خدشات پر ٹریڈنگ عارضی طور پر روک دی گئی جبکہ آسٹریلین سٹاک مارکیٹ میں 160 ارب ڈالرز کا خسارہ ہوا جہاں ٹریڈنگ شروع ہونے کے صرف 15 منٹ بعد انڈیکس چھ فیصد نیچے آ چکا تھا۔ سعودی عرب کی سٹاک مارکیٹ میں بھی سرمایہ کاروں کے حصص کی قیمتوں میں 500 ارب ریال کی کمی دیکھی گئی جبکہ قطر، کویت، مسقط اور بحرین کی سٹاک مارکیٹیں بھی شدید مندی کا شکار رہیں۔ سٹاک مارکیٹیں ہی نہیں بلکہ حالیہ تجارتی جنگ کے خدشات بڑھنے سے تیل کی قیمتیں بھی آٹھ فیصد گر کر چار سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
امریکی صدر سے جب عالمی سٹاک مارکیٹوں میں بھونچال سے متعلق سوال کیا گیا تو اْن کا جواب تھا کہ وہ کچھ بھی گرانا نہیں چاہتے تاہم کبھی کبھار دوائی بھی لینی پڑتی ہے، جب تک وہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ حل نہیں کر لیتے، ڈیل نہیں کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا چین کا ٹریڈ سرپلس ناپائیدار ہے، ٹیرف پر یورپی اور ایشیائی رہنماوں سے بات ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمد پر مجموعی طور پر 54 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات کی درآمد پر 34 فیصد ٹیرف کا اعلان کر دیا۔ چین کی جانب سے صرف امریکی مصنوعات پر ٹیرف ہی عائد نہیں کیا گیا بلکہ چینی وزارت تجارت نے 11 امریکی کمپنیوں کو ”غیر معتبر اداروں“ کی فہرست میں بھی شامل کر دیا ہے جس کے بعد اب وہ چین میں کاروبار نہیں کر سکیں گی، یہی نہیں اِس نے اْن سات اہم معدنیات کی برآمدات پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں گیڈولینیم اور یٹریئم شامل ہیں جو طبی آلات اور الیکٹرانکس کی تیاری میں درکار ہوتی ہیں۔ چین اِس سے قبل امریکی ٹیرف کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں مقدمہ میں بھی دائر کر چکا ہے۔ چین کے کسٹمز حکام نے امریکی چکن کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، اِن پابندیوں کا اطلاق 10 اپریل سے ہوگا۔ چین کی جانب سے جوابی ٹیرف عائد کرنے کے اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین نے غلط قدم اْٹھایا، وہ گھبرا گئے اور یہی ایک ایسی چیز ہے جو چین برداشت نہیں کرسکتا۔ کینیڈا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اضافی ٹیرف کے اعلان کے بعد امریکی گاڑیوں کی درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا جبکہ یورپی یونین نے امریکی ٹیرف کو عالمی معیشت کے لیے ’بڑا دھچکا‘ قرار دیتے ہوئے جوابی اقدامات کی تیاری کا اعلان کیا۔فرانسیسی حکومت نے یورپ کے ساتھ مل کر ٹرمپ ٹیرف کا جواب دینے کی بات کی ہے، اطالوی وزیراعظم نے یورپی یونین پر امریکی ٹیرف کو غلط قرار دیا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ نے امریکی ٹیرف کو عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔ اْنہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرے، عالمی معیشت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات سے گریز ضروری ہے، سست شرح نموکے وقت امریکی ٹیرف عالمی معیشت کیلئے خطرہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہو جو صدر ٹرمپ کے اِس حالیہ ٹیرف سے بچ سکا ہو، یہاں تک کہ انٹارٹِکا کے قریب وہ غیر آباد جزائر بھی اِس ٹیرف کی زد میں آ گئے ہیں جہاں صرف پینگوئنز آباد ہیں اور آخری مرتبہ انسان شاید کئی سال قبل ہی گیا ہو۔ ٹرمپ کی اِس تجارتی جنگ کو لے کر دنیا بھر میں شدید تشویش پائی جاتی ہے،وہ اگرچہ اِسے عارضی تکلیف قرار د رہے ہیں اور اِن کی کابینہ اِسے امریکہ کے بہتر مستقبل کے لیے اْٹھایا گیا ناگزیر قدم قرار دے رہی ہے تاہم دنیا بھر میں اِس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مالیاتی صورتحال یقیناً تشویشناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ موجودہ معاشی صورتحال کے باعث عام امریکی بھی شدید پریشان ہے کیونکہ امریکی صدر کی طرف سے بارہا شرح سود کم کیے جانے کے مطالبے کے باوجود امریکی سینٹرل بینک کے سربراہ اْن کی اِس اپیل ہر کان دھرتے نظر نہیں آ رہے، اس نے امریکیوں کو قیمتوں میں اضافے اور معاشی ترقی کی رفتار میں کمی سے خبردار کرتے ہوئے شرحِ سود میں فی الحال کمی سے انکار کر دیا ہے۔ اِنہی معاملات کے باعث ٹرمپ کی مقبولیت 47 فیصد سے کم ہو کر 43 فیصد پر آ گئی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق دنیا کے پچاس سے زائد ممالک نے محصولات کے معاملے پر رابطہ کیا ہے، امریکہ کی طرف سے پوری دنیا کے ساتھ بیک وقت اِس جنگ کو چھیڑ دینا دنیا بھر کے معاشی ماہرین کے لیے حیران کْن ہے اور وہ امریکہ کی طرف سے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے لائحہ عمل کو درست قرار نہیں دے رہے۔ اْن کے نزدیک امریکہ کو تمام ممالک کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے دونوں اطراف سے لگائے گئے محصولات کی وہ شرح طے کرنی چاہئے جس سے دونوں ممالک کے درمیان کم از کم تجارت جاری رہ سکے، اِس کے خاتمے سے یا حد سے زیادہ کمی سے یقیناً مستقبل قریب میں وہ اہداف شاید حاصل نہ ہو سکیں جن کی توقع کی جا رہی ہے۔ امریکہ میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان سامنے آئے ہیں جس سے روزگار کے مواقع بھی یقینا پیدا ہوں گے تاہم اِس کے لیے بہت سا وقت درکار ہے، امریکی کمپنیوں نے موجودہ معاشی حالات کے پیشِ نظر ملازمین کو نکالنا شروع کر دیا ہے جس کا براہ راست اثر امریکی شہریوں پر پڑے گا، کچھ ایسی ہی صورتحال دیگر ممالک میں بھی پیش آئے گی، اشرافیہ کو تو شاید اتنا مسئلہ نہ ہو بلکہ وہ اِس جنگ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے لیکن عام آدمی کے لئے زندگی مزید تنگ ہو سکتی ہے۔