سب کچھ کسی فلمی منظر کی طرح پیچھے کی طرف لپٹتا محسوس ہوتاتھا، التیت پیچھے رہتا جارہا تھا اور گنیش قریب آرہا تھا
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:152
مو ٹر سائیکل ساٹھ ستّر کلو میٹر کی رفتار سے ڈھلوان راستے پر بے آواز دوڑ رہا تھا۔ ہموار بل کھاتی سڑک مکانوں، ہو ٹلوں، کھیتوں اور با غوں کے پاس سے گزرتی تھی اور سب کچھ کسی فلمی منظر کی طرح پیچھے کی طرف لپٹتا محسوس ہوتاتھا۔ التیت پیچھے رہتا جارہا تھا اور گنیش قریب آرہا تھا۔میرا دل چاہتا تھا کہ میں بازو کھول کر اونچی آواز میں کوئی خوشی بھرا گیت گاؤں لیکن میں نے اپنے خواہش کو اندر ہی روک لیا کہ کہیں ہمارا مددگار میری دماغی حالت پر شک نہ کرنے لگے اور دل میں ”وادیاں میرا دامن، راستے میری بانھیں۔۔۔۔“ گانے لگا۔
میں اور طاہر التیت سے چلے تو جلد ہی دوسرے ساتھیوں سے آ گے نکل آ ئے اورمو من آ باد کے باہر مین روڈ پر پہنچ کر پیدل ہی گنیش کی طرف جا رہے تھے۔ میں یوں بھی سفر میں بھیڑ اور محفل سے گھبراتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ جب تک مسافرپیدل نہ چلے کسی علاقے سے واقف ہو ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ اس خیال نے کئی بار مجھے کافی مشقت میں بھی ڈالا ہے لیکن پھر بھی درست بات یہی ہے۔سو ہم دونوں ایک موڑ پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور میں طاہر کو بتا رہا تھا کہ میں جب پہلی بار ہنزہ آ یا تھا تو اس مو ڑ پر بیٹھ کر میں نے اپنی تصویر بنائی تھی اور یہاں سے نیچے دریا تک سب کچھ صاف دکھائی دیتا تھا۔ تب باقی دنیا کی طرح ہنزہ کی آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ جہاں اب ہو ٹل اور آبادیا ں ہیں وہاں گھاس سے ڈھکی وسیع ڈھلوانیں تھی جن میں راستے بھی نہیں تھے اور آپ فطرت کا ہاتھ تھام کر اونچی گھاس میں چلتے تھے۔ اور یہ جو کچھ اور جتنا کچھ باقی رہ گیاہے یہ بھی کچھ برسوں میں جدت اور تجارت کے طغیان میں بہہ جائے گا۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اوپر سے ایک مو ٹر سائیکل آ تا نظر آ یا۔”ہیں۔۔۔ ہنزہ میں مو ٹر سائیکل؟“ میں نے حیرانی سے خود کلامی کی۔
”اس سے لفٹ لیں؟“ طاہر نے پو چھا۔
”دیکھ لو۔“ میں نے کہا تو طاہر نے کھڑے ہو کر قریب آ تے سوار کو انگو ٹھے سے لفٹ کا اشارہ کیا۔ توقع کے عین مطابق مو ٹر سائیکل چند فٹ دور جا کررک گیا۔ میں نے پچیس چھبیس سالہ سوار کو بتا یا کہ ہم گنیش جارہے ہیں اگر وہ ہمیں ساتھ لے جائے۔ وہ جوان بھی ادھر ہی جا رہا تھا۔ اس نے خوش دلی سے ہم دونوں کو اپنی پیچھے بٹھا لیا۔ اس کا نام مقصود تھااور وہ ”قراقرم ہینڈی کرافٹ ڈویلپمنٹ پروگرام“ (KHDP )میں ڈیزائینر تھا۔
مو ٹر سائیکل بغیر پھٹ پھٹ اور گھر گھر کی آواز نکالے خا موشی کے ساتھ دوڑ رہا تھا کیوں کہ راستہ ڈھلوان ہونے کی وجہ سے اس کا انجن بند تھا۔
”راستہ اترائی کا ہونے کی وجہ سے یہاں پٹرول کی تو بہت بچت ہوتی ہوگی کیوں کہ انجن تو چلا نا ہی نہیں پڑتا؟“ طاہر نے اندازہ لگاتے ہوئے پو چھا۔
”ہاں لیکن چڑھائی میں سارا بچت برا بر ہو جاتا ہے۔“ مقصود نے ہنس کر کہا۔
یہ بات شاید طاہر کے ذہن میں نہیں آئی تھی کہ نیچے جانا جتنا آسان ہے، اوپر آنا اتنا ہی مشکل ہے۔ مین روڈ پر آکر موٹر سائیکل بائیں جانب مڑ ا اور چند منٹ میں ہم گنیش میں تھے۔
گنیش کے شروع ہی میں سڑک کے بائیں جانب ایک چھو ٹی سی دیوار تھی جس کی منڈیر سے سبز سنہرے سیبو ں سے لدے د رختو ں کی ٹہنیاں شرمیلی لڑکیوں کی طرح جھانکتی تھیں۔ان کے پیچھے ”قراقرم ہینڈی کرافٹ ڈویلپمنٹ پروگرام“ (KHDP) کی چھو ٹی سی عمارت تھی۔ مقصود نے موٹر سائیکل روک کر ہمیں قرا قرم ہینڈی کرافٹ کا کار خانہ اندر سے دیکھنے کی دعوت دی جو میں نے فوراً قبول کرلی۔
مقصود نے ہمیں انچارج خاتون سے ملوایا۔ وہ ایک بھلی مانس بی بی تھی۔ دونوں نے مل کر ہمیں سارے یونٹس دکھائے۔ وہاں موجود کارکنوں سے ملوایا۔ یہاں دھاگا رنگنے سے کپڑا بُننے تک سا را کام ایک ہی چھت تلے ہوتا ہے۔ہونے کو تو یہ کام دنیا میں کئی جگہ ہوتا ہے مگر یہاں یہ سب کام صرف ہنزائی عورتیں کرتی تھیں۔ چھو ٹے چھو ٹے کمرے جن کے اندر کھڈیاں لگی تھیں، ڈئزائننگ ہو رہی تھی اور ہنزہ کی روایتی ٹوپیاں، تھیلیاں، پرس اور دیگر تجارتی مصنوعات تیار ہو رہی تھیں۔ میں نے وہاں کا بنا ہوا کپڑا خریدنے کی خواہش ظاہر کی تو اس بی بی نے بتا یا کہ تیار سامان کی فروخت کریم آباد میں ”تھریڈ نیٹ ہنزہ“ سے ہو تی ہے۔ کچھ دیر میں ہم مقصود صا حب اور دوسرے میزبانوں کا شکریہ ادا کر کے نکلے اور آ گے چل دئیے۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔