کس موضوع پر لکھا جائے؟

کس موضوع پر لکھا جائے؟
 کس موضوع پر لکھا جائے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالم لکھنے کی اپنی مجبوری بھی ضرور ہوتی ہے لیکن قارئین کا تقاضا بلکہ ذوق طلب بھی دیکھنا ہوتا ہے۔جس جنس کے خریدار کمیاب ہوں، اس کو سرِ بازار لے کر آنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ہر کالم نگار کا ایک خاص موضوع ہوتا ہے اور وہ اس کے دائرے ہی کے اندر رہ کر لکھنا چاہتا ہے۔ ایک تو اس موضوع پر اس کی گرفت زیادہ مضبوط ہوتی ہے، دوسرے اس کا تجربہ اور تیسرے اس کی اپنی آسانی بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ مثلاً مذہبی موضوعات پر کالم لکھنے والوں کو اگر اقتصادی یا دفاعی موضوعات پر لکھنا پڑ جائے تو نہ ان کے قلم میں وہ روانی باقی رہتی ہے اورنہ اس کا کوئی خریدار ملتا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ یہ تحریر ’’متاعِ کس مخر‘‘ ہو کے رہ جاتی ہے۔


’’شمشیروسناں‘‘پر لکھنے کے لئے میرے پاس ہزاروں موضوعات سامنے رکھے نظر آ رہے ہیں لیکن ’’دفاع‘‘ کا یہ موضوع آج فن کے جس بام بلند پر جا پہنچا ہے، اس پر کچھ تحریر کرنے کی مشکلات ایک طرف، اس کے قاری کا قحط بھی دامن گیر ہوتا ہے۔ کالم نگاری کے لئے آج اخبارات میں جو موضوعات ’’اِن‘‘ ہیں، ان میں سیاست، بین الاقوامی معاملات، مشرق وسطیٰ، کشمیر، علاقائی موضوعات، مذہب، سماجی امور، گھریلو مسائل (Domestic Problems) ،پانامہ لیکس وغیرہ پیش پیش ہیں۔۔۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کو اخباروں میں بار بار دیکھ دیکھ اور پڑھ پڑھ کر مجھے نجانے ایک قسم کی اکتاہٹ سی کیوں محسوس ہوتی ہے۔ میں کوئی نئی بات، کوئی نیا موضوع، کوئی نیا انداز تحریر اور کوئی نئی اپروچ ڈھونڈتا ہوں۔ یہ تقاضا میں خود اپنے آپ سے بھی کرتا رہتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہو کہ میں بعض اوقات اپنے مخصوص موضوع یعنی ’’دفاع‘‘ سے ہٹ کر ’’اِدھر اُدھر‘‘ کے موضوعات پر بھی تر کتازیاں کرتا رہتا ہوں۔لیکن دل کو قرار نہیں آتا۔۔۔دل چاہتا ہے کوئی ایسا موضوع، کوئی ایسا کالم اور کوئی ایسی تحریر ہو، جو خود مجھے اور میرے قاری کو چونکا دے، اس کی معلومات میں اضافہ کرے، اسے تفکر اور تدبر کی دعوت دے اور اس کو غور و فکر کی ایک نئی اور تعمیری جہت سے آشنا کرے۔ زبان کا مسئلہ نہیں، اردو ہو کہ انگریزی الا ماشاء اللہ ہمارے تمام کالم نگار (میں خود بھی ان میں شامل ہوں) کوہلو کے وہ بیل ہیں، جو ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔


دفاعی امور پرلکھنے کا ڈول میں نے اس لئے ڈالا تھا کہ یہ فیلڈ اردو زبان میں بالکل ’’کنواری‘‘ اور ’’بنجر‘‘ پڑی تھی۔چند مزاحیہ تحریروں، چند سوانحی تراجم کے علاوہ اردو میں دفاع پر پڑھنے کو کچھ بھی نہیں تھا جبکہ دوسری طرف دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں ’’عسکری ادب‘‘ کا کیف و کم (Quality and Quantity) مرعوب کن حد تک جگہ جگہ بکھرا ہوا ملتا ہے۔ میں نے 20برس پہلے جب اس موضوع کو لکھنے کے لئے منتخب کیا تو قارئین کی خوئے خواندگی کو تبدیل کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ وہ تو ایسا دفاع مانگتے تھے جس میں سیاست ہو، تنقید وتنقیص ہو، ٹانگ کھینچنے کا چلن ہو اور چٹ پٹاپن پایا جائے۔


آج بھی کم و بیش یہی عالم ہے۔ کسی بھی ٹیلی ویژن چینل کو آن کریں، کوئی ریٹائرڈ جرنیل سامنے نظر آئے گا جو بزعم خود ان موضوعات پر بحث و تمحیص کے دریا بہا رہا ہوگا، جن کی ساری ملازمت میں اس پر بندش تھی، لیکن وہ ساری عمر جس فن پر لکھتا رہا، بحث و مباحثہ کرتا رہا، پڑھاتا اور پڑھتا رہا، اس پر ہرگز کچھ نہیں کہتا۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ یہ ریٹائرڈ سینئر سروس آفیسرز جن موضوعات پر گوہر افشانیاں کررہے ہوتے ہیں، یہ ان کی فیلڈ نہیں ہوتی۔ ان پر نقد و نظر کرنے کے لئے دوسرے بہت سے غیر وردی پوش لوگ موجود ہیں جو موضوعِ زیر دست سے انصاف کرنے کے زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ مثلاً وزارت خارجہ کے ریٹائرڈ سیکرٹری صاحبان، سفیران کرام اور وہ اساتذہ جو ملک کی معروف یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی سیاسیات کے طالب علم (انسٹرکٹر) ہوتے ہیں۔ مثلاً اب عراق یا افغانستان یا کشمیر میں جو جنگ ہو رہی ہے اس کے خالصتاً پروفیشنل پہلو بھی ہوں گے۔ یہی وہ پہلو ہیں جو جنگ کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں (اور ہو رہے ہیں)۔چاہئے تو یہ تھا کہ وردی پوش حضرات ان ٹیکنیکل موضوعات پر بھی کچھ کہتے، ناظر کو یہ بتاتے کہ افغانستان اور امریکہ کی عسکری مساوات کیا ہے، امریکہ کی عسکری سٹرٹیجی کیا ہے، خودکش حملوں کا عسکری جواب کیا ہے اور امریکہ کیوں وہاں صرف 10ہزار فوج رکھے ہوئے ہے، کیا اس سپرپاور کے پاس بس اتنی فوج باقی رہ گئی ہے؟ یہ جو ٹیلی ویژن پر ہر روز درجنوں عراقی اور شامی باشندوں کا قتل عام دکھایا جاتا ہے اور ایک آدھ امریکی بھی ساتھ مارا جاتا ہے تو اس کی ’’ویڈیوکلپ‘‘ دنیا بھر کے الیکٹرانک میڈیا کو کون جاری کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟ 2000ء کے بعد آج تک عراق اور لیبیا سے جو تیل نکالا گیا ہے اس کی مقدار کیا ہے، کہاں کہاں سے آئل ٹینکرآتے اور کتنا کتنا تیل لے کر کہاں کہاں جاتے ہیں؟ اس موضوع پرمغربی میڈیا کی طرف سے مکمل بلیک آؤٹ کا مقصد کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اس نوع کے سینکڑوں سوال ہیں،جن کا تعلق دفاع اور دفاعی امور سے ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ ریٹائرڈ جرنیل حضرات ان پر تبصرہ کرتے اور آس پڑوس کے اسلامی ممالک کی عسکری قیادت کو ایسی معلومات فراہم کرتے، جن کی روشنی میں وہ اپنی آئندہ عسکری پلاننگ میں آسانیاں محسوس کرتے یا ان کو ایک ڈائریکشن مل جاتی۔ صرف امریکہ کو کوستے چلے جانے سے امریکی افواج کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ ان کا اپنا ایک ایجنڈا ہے۔ اس جامع ایجنڈے کے عسکری پہلو اور دفاعی مضمرات بھی ہوں گے۔ ان پر یہ لوگ اپنی ’’جرنیلی رائے‘‘ کا اظہار کرتے تو میں سمجھتا کہ وہ اپنی سروس میں گزارے ہوئے تین چار عشروں کے فنی تقاضوں کا قرض اتار رہے ہیں لیکن وہ تو محض ان معاملات پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں جو ان کی خصوصی فیلڈ نہیں ہوتی۔


دفاع کے موضوعات ٹیلی ویژن پر ڈسکس ہونے چاہئیں اور ان کی چھان پھٹک ہونی چاہیے۔ شاید اس طرزِ عمل کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ جیسا کہ میں نے اس کالم کی ابتداء میں ذکر کیا تھا، ناظرین اور قارئین اس طرح کے ’’خشک تار و خشک مغز و خشک پوست‘‘موضوعات کے خریدار نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن قارئین گرامی! یہی وہ موضوعات ہیں جن کو ایک عام پاکستانی کو جاننے کی ضرورت ہے۔


آج اگر آپ اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو سارا ماحول ایک خاص رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ یہ رنگ صرف ایشیائی اقوام کے لئے بطور خاص مرغوب گرداناجاتا ہے۔( چین اور جاپان کو ایشیا میں سے نکال تو نہیں سکتے لیکن ایک عرصے سے ان دونوں ممالک نے اپنے راستے ایشیا کے دوسرے درجنوں ممالک سے الگ کر لئے ہیں) مسلم ممالک ان میں پیش پیش ہیں۔ شمالی افریقہ میں مسلمان ممالک کی جو بیلٹ ہے، اس کا حال بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔ برطانیہ نے جب سترہویں صدی عیسوی میں اپنی کالونیاں ایشیا اور افریقہ میں قائم کیں تو بڑی احتیاط سے دفاعی موضوعات کو پردۂ اخفاء میں رکھا۔۔۔ یہ ایک نہایت دلگداز اور وسیع و عریض موضوع ہے۔ آپ اس پر جتنا بھی غور کریں گے، آپ کو حیرت ہوگی کہ کم و بیش تین سو برس تک مغربی اقوام نے جدید سلاحِ جنگ کی ایجاد اور اس کے استعمال میں جو جو پیش رفتیں کیں، ان کی ہوا تک ان کالونیوں کے باسیوں کو لگنے نہ دی۔ یہ موضوعات پبلک کے لئے شجر ممنوعہ تھے اور جب انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ان مقبوضات سے رختِ سفر باندھا تو دفاعی معلومات اور موضوعات کے باب میں ایک بڑا خلاء پیدا ہو گیا ۔اور تو اور پاکستان اور ہندوستان کی وہ دیسی افواج، جنہوں نے دونوں عالمی جنگوں میں حصہ لیا تھا، وہ جب آزاد ملک کی آزاد فوج بنیں تو اس ’’شجر ممنوعہ‘‘کو جوں کا توں برقرار رکھا۔


آج آزادی کے بعد 70برسوں میں ایک عام پاکستانی شہری کو دفاعی امور کی ابجد سے بھی برائے نام سی واقفیت نہیں ہے۔ کوئی ایسی ڈکشنری نہیں، جو جدید عسکری اصطلاحات کے معانی بتا سکے۔ کسی جدید عسکری ہتھیار پر کوئی اردو پملفٹ موجود نہیں۔ ملٹری ہسٹری کا خانہ بھی بالکل خالی ہے۔1948ء ،1965ء، 1971ء اور کارگل کی جنگوں پر اردو زبان میں کوئی مستند تاریخ موجود نہیں۔ عسکری اصطلاحات اور تراکیب کی کوئی اردو لغت بازار میں نہیں ملتی۔ کوئی اشاعتی ادارہ یہ کام انجام نہیں دے رہا جبکہ مغرب میں درجنوں ایسے ادارے موجود ہیں جو صرف اور صرف دفاعی امور و معاملات پر کتابیں چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ہم کب تک اس طرف توجہ نہیں دیں گے۔ حکومتی یا نجی سطح پر کوئی ادارہ ، کوئی تنظیم ایسی نہیں، جو اس طرف آئے اور اس خلاء کو پُر کرے۔ یہ جو میں کبھی کبھار خالصتاً دفاعی موضوعات پر اردو میں ٹوٹی پھوٹی، ناتمام اور نامکمل قسم کی تحریریں اور کالم لکھتا ہوں تو میرا حال بھی گویا مولانا الطاف حسین حالی سے مختلف نہیں، جنہوں نے کہا تھا:
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکاں سب سے الگ

مزید :

کالم -