فارس اور سفید ہاتھی !!!
3 جنوری 2020 بروز جمعہ کو ایرانی جنرل قاسم سلیمانی عراقی سرزمین پر ایک امریکی ڈرون حملے میں شہید ہوگئے۔ یقیناً یہ امریکی اقدام قابل مذمت ہے کیونکہ یہ امریکی اقدام بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف وزی ہے۔جسکے نتیجے میں عالمی امن خطرے میں پڑگیاہے۔عالمی میڈیا تیسری جنگ عظیم چھڑنےکے امکانات پر اظہار خیال کررہاہے۔ ایران نےبھی بدلہ لینےکا اعلان کرتےہوئے انتقامی حملوں کاآغاز کردیا ہے اور عراق میں قائم دو امریکی فوجی اڈوں پر گذشتہ شب 15 بیلسٹک میزائل سے حملہ کیا گیا ،ایران نے اس حملے میں 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تاہم امریکی صدر نے ایران کے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی حملے میں کوئی بھی امریکی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تاہم فوجی اڈے کو معمولی نقصان پہنچا ہے،امریکی صدر نے ایران کے خلاف معاشی پابندیاں مزید سخت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ایران کو جوہری بم بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،میں جب تک امریکا کا صدر ہوں ایران ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا ۔اس سے قبل ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ہمارا دشمن امریکہ اور یہودی ریاست ہے،ہمیں اِنہیں پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دشمن ہمارے اندرشکوک پیدا کر کے ہماری دفاعی طاقت کو متاثر کرنا چاہتا ہے،ہم نے جنرل سلیمانی کے قتل کا بدلہ لیکر امریکا کے منہ پر تھپڑ مارا لیکن صرف فوجی آپریشن کافی نہیں ہے،خطے میں امریکہ کی موجودگی کرپشن کی جڑ ہے،قاسم سلیمانی کی شہادت سے ثابت ہوا ہے کہ ایران کا انقلاب زندہ ہے۔
ایران امریکہ کشیدگی کے بعد اب ہمیں پاکستان کے قومی مفادات کی حفاظت کے نقطۂ نظر سے تمام صورتحال پر گہری نظر رکھنےکی ضرورت پیش آگئی ہے۔ سب سے پہلے دیکھنا ہوگا کہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود اس بحرانی کیفیت کی وجہ کیاہے ؟ تو اس کا سادہ ترین جواب مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی عسکری قوت کی موجودگی ہے ۔ مجھےافسوس ہےکہ ایرانی جنرل کو اسی خطےکےملک عراق کی سرزمین استعمال کرتےہوئےنشانہ بنایا گیا۔
اگردیکھاجائے تو ایران عسکری لحاظ سے امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔ میں بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے سے متفق ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ ایران باقاعدہ جنگ کی بجائے پراکسی وار کو ترجیح دےگا۔ اگر ایران پراکسی وار کا آغاز کرتا ہے تو یقیناً اسرائیل حزبُ اللہ کا اولین نشانہ ہوگا ۔ اس صورت میں امریکی ردعمل سےایک باقاعدہ جنگ چھڑنا سکتی ہے ۔اس کے علاوہ اگر ایران کسی عرب ملک میں واقع امریکی فوجی اڈوں کا نشانہ بناسکتا ہے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ ایسی محدود جنگی کارروائی کو ایک باقاعدہ جنگ میں بدلنا چاہے کیونکہ امریکی عزائم کافی خطرناک دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس مقصد کےلیے امریکہ مشرقِ وسطٰی ہی کی سرزمین استعمال کرےگا ۔ لہذٰا مشرقِ وسطیٰ کے وہ تمام ممالک , جہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں ۔ انہیں زمینی حقائق کو سمجھنا ہوگا اورانہیں سنی شیعہ اختلافات کو بھلا کراپنی کمزور پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون شیعہ ہے؟ اور کون سنی ہے؟ تو مسلم حکمران بھی اب بطور مسلمان سوچنا شروع کردیں ورنہ یاد رکھیں کہ ایک ایک کرکے مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک ایک لاحاصل جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گےاور تیسری جنگ عظیم کا میدان مشرقِ وسطیٰ میں ہی سجے گا۔
گزشتہ برس بھی امریکہ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے انہیں جنگ کے دہانے پر یہنچانے کی کئی کوششیں کیں , اس سب کچھ کےباوجود بھی جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کے متعلق سعودی ردعمل کافی حوصلہ افزا ہے۔ میری پوری امت مسلمہ سے بھی اپیل ہے کہ وقت و حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور فرقہ وارانہ آگ کے آتش فشاں کے اپنی طرف بڑھتے ہوئےلاوے کے خطرات کو بروقت محسوس کرلیں ۔ ورنہ یاد رکھیں یہ ہی فرقہ وارانہ نفرتیں مشرقِ وسطیٰ کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیں گی ۔ جہاں تک ہمارے ملک پاکستان کا تعلق ہے تو حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی جانب سے جو موقف اپنایا گیا ہے , وہ وقت کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ایران، سعودی عرب اور امریکہ جاکر ان ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملیں جبکہ آرمی چیف متعلقہ عسکری قائدین سے روابط قائم کریں اور واضح پیغام دیا جائے کہ پاکستان امن کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تو تیار ہے مگر وہ دوبارہ کسی بھی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتا۔وزیر اعظم کے اس بیان کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
دوسری طرف عوام پاکستان کو بھی جذبات کی رو میں بہنے سے گریز کرناچاہیے،ہمیں جتنا ہو سکے , پاکستان کو اس آگ سے بچانا چاہیے لہذٰا نہ خود جذباتی ہوں نہ دوسروں کو ترغیب دیں خواہ آپ کسی بھی مسلک سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں ؟آپ پاکستان کا سب سے پہلے سوچیں ۔ پاکستان کا ایران اور امریکہ کے تنازع میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ بالکل مناسب ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایران بھارت کا ایک بڑا بزنس پارٹنر اور چاہ بہار بندرگاہ منصوبے کا خالق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی نے پاکستان کے اندر داخل ہوکر کارروائی کی دھمکی دی تھی تو دوسری جانب ہمیں یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ نے روس کے خلاف افغان جہاد میں ہمیں کس طرح استعمال کیا؟ اور لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان کے کندھوں پر ڈال کر پاکستان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اس کا اتحادی بن کر ہم نے کتنے نقصانات اٹھائے ؟ امریکی امداد کی قیمت ہم نے دہشتگردی میں شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کی لاشیں اٹھا کر چکائی ۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام پر بھارتی فوج نے کرفیو نافذ کررکھا ہے اور وہاں موت کے سائے منڈلا رہے ہیں مگر امریکہ ہماری مدد کو نہ آیا اور نہ ہی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھارت پر کرفیو اٹھانے کےلیے دباؤ ڈالا ۔ ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود عالمی برادری کا ضمیر نہ جاگ سکا۔ مشکل کی گھڑی میں ہی دوست اور دشمن بے نقاب ہوتے ہیں ۔ لہذٰا ہم جان چکے ہیں کہ کون ہمارا کتنا ہمدرد اورمخلص دوست ہے۔ یہ بات یاد رکھ لیں کہ ہم غلطی سے بھی ایران یا امریکہ کی حمایت کردیں تودونوں صورتوں میں جنگ ہمارے گھر تک پہنچ جائےگی ۔ اگر ہمیں اپنا گھر بچانا ہے تو ہمیں لازماً اور مستقل غیرجانبدار رہنا ہوگا کیونکہ یہ ہمارے بہترین قومی مفاد میں ہے ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔