حیرت انگیز دنیا سے باہر نکلے تو بڑی دیر تک سارے منظر ذہن میں نقش رہے، ایسا لگتا تھا جیسے وقت ٹھہر گیا تھا اور ہم خوابوں کی دنیا میں گھوم رہے تھے
مصنف،: محمد سعید جاوید
قسط:98
ایسا ہی ایک چھوٹا گنبد ساتھ میں واقع فرعون ملکہ نفرتاری کے منصوبے کے لئے بھی بنایا تھا جو وہاں سے محض چند قدم دور تھا۔
سامنے بیٹھے ہوئے فرعون رعمیسس ثانی کے چاروں مجسموں کے عین وسط میں ان کے قدموں کے پاس سے ایک دروازہ اندر کی طرف جاتا ہے، جس میں اس کے نام پر بنایا جانے والا وہ مندر موجود تھا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ ہم سب بھی اپنے گائیڈ کے ساتھ اندر داخل ہوگئے۔ شروع میں تو باہر روشنی سے آنے کی وجہ سے گھپ اندھیرا لگا۔ جب آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دیکھا کہ مدھم سی روشنی میں راہداری کے دونوں طرف بادشاہوں، ملکاؤں اور فرعونوں کے علاوہ ان کے دیوتاؤں کے بڑے اور قد آدم مجسمے نصب تھے اور دیواروں پر قدیم مصری زبان میں لکھی گئی ان کی تحریریں تھیں۔ آگے چل کر مندر کچھ چھوٹی چھوٹی راہداریوں اور کمروں میں بٹ گیا لیکن مرکزی راہ داری اسی طرح آگے چلتی گئی جہاں تک کہ وہ مندر کے عقبی سرے پر پہنچ گئی۔ جہاں یہ ختم ہوئی تو وہاں سامنے ایک چبوترے پر ایک بار پھر رعمیسس ثانی کے وہی چاروں مجسمے اسی ترتیب سے ایستادہ تھے، جیسے کہ وہ باہر تھے۔ البتہ یہ قد کاٹھ میں بہت چھوٹے یعنی عام انسانوں جتنے بڑے تھے۔ آس پاس کے کمروں میں بھی وہی کچھ تھا جو پیچھے دیکھ آئے تھے۔
عام حالات میں مندر کے اندر جانے والی راہداری میں ملگجا سااندھیرا ہی رہتا ہے۔ تاہم سال میں 2 مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سورج ناصر جھیل کی طرف سے طلوع ہو کر ایک ایسے زاویئے پر آ جاتاہے جہاں روشنی کی پہلی کرن دروازے اور مرکزی راہداری سے داخل ہو کر سفر کرتی ہوئی انتہائی پیچھے بیٹھے ہوئے فرعون کے چاروں مجسموں پر پڑتی ہے اور وہ کچھ دیر کے لئے روشن ہو جاتے ہیں۔ یہ قدرت کا چند لمحوں کا ایک حیران کن عمل ہوتا ہے جس کو دیکھنے کے لئے ساری دنیا سے سیاح خصوصی پروازوں سے یہاں پہنچتے ہیں۔ یہ عجوبہ ہر سال 22 فروری اور 22 اکتوبر کو وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مندر اور مجسمے جب اپنی پرانی جگہ پر قائم تھے تو تب بھی وہاں انہی تاریخوں میں یہی منظر ہوتا تھا۔ اس کا انتظام اس وقت کے کاریگروں نے کیا ہوا تھا جو روشنی سے اس قسم کے معجزے کرتے رہے تھے۔جب اس مندر کو نئی جگہ پر منتقل کیا جانے والا تھا تو سائنس دانوں نے اس پر لمبی چوڑی تحقیق کی اور پھر یہی طریقہ ذہن میں رکھ کر سارامنصوبہ بنایا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے اور اب ہزاروں سال قبل مسیح میں قائم کیا گیا روشنیوں کا یہ کھیل یہاں بھی موجود تھا۔ اس حیرت انگیز دنیا سے باہر نکلے تو بڑی دیر تک سارے منظر ذہن میں نقش رہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وقت ٹھہر گیا تھا اور ہم خوابوں کی دنیا میں گھوم رہے تھے۔
فرعون ملکہ، نفرتاری کا مندر
بڑے مندر سے باہر نکل کر تھوڑا آگے بڑھے تو یہاں ایک دوسرا عظیم الشان معبد تھا جو فرعون بادشاہ رعمیسس ثانی نے اپنی چہیتی ملکہ نفرتاری کے لئے بنوایا تھا۔ اسے بھی یونیسکو والے منصوبے کے تحت اس کی پرانی جگہ سے لا کر اسی حالت میں رعمیس کے مندر سے اتنے ہی فاصلے پر نصب کیا گیا جتنا کہ قدیم مصریوں نے بنایا تھا۔ یہ بادشاہ کے مندر سے قدرے چھوٹا تھا، اس لئے اسے چھوٹا مندر بھی کہتے ہیں۔یہ بھی اسی طرح ایک چٹان کے اوپر اور اس کے اندر تراشاگیا تھا۔ رعمیسس مندر کے چار بڑے مجسموں کے برعکس ملکہ نفرتاری کے مندر کے سامنے چھ مجسمے تھے، جو کھڑی ہوئی حالت میں تراشے گئے تھے۔ جن میں سے تین ایک طرف اورتین دوسری طرف اور بیچ میں سے ایک دروازہ مندر کے اندرونی حصے میں جاتا تھا۔ دونوں طرف رعمیسس کے دو مجسموں کے درمیان ملکہ نفرتاری کا مجسمہ بنایا گیاتھا۔ حیرت انگیز طور پر یہاں بنائے جانے والے تمام مجسموں کی اونچائی ایک جیسی تھی۔ ورنہ باقی سب جگہ ملکہ نفرتاری کے مجسمے قد میں بادشاہ سے کافی چھوٹے ہی رکھے جاتے تھے۔ ان دونوں کے قدموں میں چھوٹے چھوٹے مجسمے بھی کھڑے تھے جو غالباً ان کے بچوں کو ظاہر کر رہے تھے۔ اندر جانے والے دروازے کے اوپر ایک بڑے کوبرا سانپ کا مجسمہ بنایا گیا تھا جیسے وہ اس سارے معبد کی رکھوالی کر رہا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں