ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار اد انہیں کر سکتے:سپریم کورٹ

       ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار اد انہیں کر سکتے:سپریم کورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                                                            اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں آئینی بینچ نے کہا کہ صرف چوکی کے باہرکھڑی ہونے پر تو شہری کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا، اگر شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل اسی کے تحت ہو گا۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قراردیا کہ فوج کے ماتحت سویلینزکا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے، اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ وزارت دفاع کیا ایگزیکٹو ادارہ ہے؟ ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا خود جج بن کر فیصلہ کرسکتاہے؟جسٹس جمال نے ریمارکس دیے آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتی، فوجی عدالتوں کے کیس میں بنیادی آئینی سوال ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتاہے؟ اس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایسانہیں ہے، آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں،مختلف کیٹیگریزشامل ہیں، اس موقع پر جسٹس جمال نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 8(3) فوج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے، کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ آئین میں شہریوں کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ افواج پاکستان کیلوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسریشہری، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سوال ہی یہی ہے کہ فوج کے لوگوں کوبنیادی حقوق سے محروم کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کوئی شہری فوج کاحصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے؟ ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر شہری کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ایک صورتحال ہے، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہی تو سب سے اہم سوال ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سوال کا جواب بہت سادہ ہے، اگرشہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل  اسی کے تحت ہوگا، صرف چوکی کے باہرکھڑیہونے پر تو شہری کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا، آرمی ایکٹ کا نفاذ کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔جسٹس مسرت نے کہا کہ اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔جسٹس جمال نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کیڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا، ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا، فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانیکی کوشش کرتا ہے تو کیا یہ بھی آرمڈفورسز کے فرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا؟

آئینی بینچ

مزید :

صفحہ اول -