علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر3
تحریر: پیر ابو نعمان
1998ء میں اسے ایک دوست نے حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی کے آستانے جامعہ جیلانیہ نادرآباد لاہورمیں بھیج دیا۔ یہ بندگان سیفیہ ایران، افغانستان اور ملک بھر سے آئے ہوئے تھے اور غم یار میں بھوک، پیاس سے بھی بیگانے تھے۔ سیفیت میں اور بالخصوص حضرت مبارک صاحبؒ کے مہمانوں کی خاطر داری کرنا ایک مسلّمہ اصول تھا لیکن اتنی بڑی خلقت کے لنگر کا اہتمام ہسپتال میں کرنا آسان نہیں تھا۔
’’نہیں ہم کریں گے، ہم اپنے محبوب شیخ کے مہمانوں کو تینوں پہر ہی کیا جب بھی مانگیں گے انہیں کھانا کھلائیں گے۔ نہ مانگیں گے تب بھی ان کی خاطر داری کریں گے۔۔۔‘‘ حضرت اخندزادہ مبارک صاحب کے خلفاء کی میٹنگ میں قبلہ پیر محمد عابد حسین سیفی صاحب نے عزم کا اظہار کیا اور پھر خلفاء نے باہمی فیصلہ کے بعد ناشتے، ظہرانے اور عشائیہ لنگروں کو آپس میں بانٹ لیا۔
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر2 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی نے اسی وقت اپنے محبوب مرید و خلیفہ پیر محمد رمضان سیفی کو حکم دیا اور کہا ’میں تمہارے حالات سے واقف ہوں۔ مگر یاد رکھنا، آج جو لوگ حضرت مبارک صاحبؒ کی خدمت کریں گے وہ بھی پچھتائیں گے۔ اور جو محروم رہ جائیں گے وہ ان سے بھی زیادہ پچھتائیں گے۔اگر تم چاہتے ہوں یہ سعادت تمہیں نصیب ہوتو ناشتہ کی ذمّہ داری تمہاری ہے‘‘
پیر محمد رمضان رضوی سیفی نے اپنے شیخ کا حکم سنا تو جذبہ خدمت کے تصوّر سے ہی ان کے باطن میں مٹھاس گھل گئی۔ وہ مجھے بتا رہے تھے ’’چودھری صاحب اپنے شیخ کی خدمت کی سعادت حاصل کرنا اور پھر دادا مرشد کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا تصوّر میرے لئے ایمان کا درجہ رکھتا تھا۔ حالانکہ اس وقت میرے پاس تین لوگوں کو کھانا کھلانے کے اسباب بھی موجود نہیں تھے۔ کجا تین سو لوگوں کا ناشتہ تیار کرانا اور پھر وہ بھی پرُتکلف، انواع و اقسام کے کھانوں پر مشتمل۔
میرے شیخ حضرت پیر محمد عابد حسین صاحب نے فرمایا تھا’’ دیکھو رمضان۔ حضرت مبارک صاحبؒ کے مہمان دوسرے ملکوں سے بھی آ رہے ہیں اور یہ بہت لاڈلے مہمان ہیں۔ ان کیلئے کھانے میں نان چھولے نہیں چلیں گے۔ حلوہ پوڑیاں، مرغ قورمے، بریانی، آملیٹ، پراٹھے، بریڈمکھن الغرض جو بھی ممکن ہو وہ تیار کرنا ہے۔ کیونکہ حیدری صاحب نے ازراہ تعفن مجھے کہہ دیا ہے کہ پیر صاحب ’’چھولے گھوڑے کھاتے ہیں‘‘۔ لہٰذا کھانے میں صاحبزادگان اور پختون سیفیوں کے ذوق و شوق کو ملحوظ رکھنا ہے۔ افغانی بہت اچھا گوشت کھاتے ہیں، پائے، نہاری، کوفتے، غرض ہلکا پھلکا اور بھاری بھر کم شاہانہ ناشتہ تیار کرانا ہے۔ یہ ہماری آن کا بھی مسئلہ ہے۔ اور ادب و خدمت اور مہمان نوازی کا بھی تقاضا‘‘
میں نے عرض کیا۔ ’’حضور میں حاضر۔ بس آپ استقامت کیلئے دعا فرمائیں‘‘۔ سرکار پیر صاحب نے دست دعا بلند کئے اور خصوصی دعا فرمائی۔
ابو نعمان پیر محمد رمضان سیفی جب اپنے عاجزانہ انداز میں اپنی یادداشتوں کو تازہ کر رہے تھے، قبلہ پیر محمد عابد صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ فرمانے لگے ’’یہ میرا بیٹا سخی، مخلص اور مخدوم ہے۔ اس نے ہم سب کی لاج رکھ لی اور میرے شیخ مبارک صاحبؒ کی خدمت نے اسے شہرت و عزت اور دولت سے نوازا ہے۔ اللہ نے اس کا عجز اور خدمت قبول کر لی‘‘
اپنے شیخ کے مہمانوں کو ہسپتال میں ناشتہ فراہم کرنا بذات خود بہت تفصیل طلب ہے۔
’’ 24 روز تک متواتر، وقت پر شاہانہ ناشتہ تیار کرانے کیلئے ہم رات کو ہی دیگیں چڑھا دیتے تھے‘‘۔ پیر محمد رمضان اپنے مرشد کے خاموش ہونے پر گویا ہوئے۔ ’’میں خالی ہاتھ تھا۔ مرشد کریم نے مجھے ایک بڑا ڈالا (گاڑی) دے دیا تھا تاکہ اس پرناشتہ کی دیگیں اور سامان لے جایا جا سکے۔ میں قرض لیکر اپنے ساتھیوں کی مدد سے ناشتہ کا سامان لیکر تیار کراتا۔ چوبیس روز یہی معمول رہا۔ اس دوران غیب سے میری مدد ہوتی رہی۔ ایک روز میں بیکری میں گیا تو سوچ رہا تھا ۔ ’’یاالہٰی آج میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ڈبل روٹی، انڈوں کا پہلے ہی کریڈٹ چل رہا ہے۔ اب کس منہ سے بیکری والے سے سامان مانگوں‘‘۔ میں جھجھک رہا تھا، ساتھ سامان بھی لے رہا تھا۔ اس دوران ایک کلین شیو لڑکا چشمہ لگائے بیکری والے کے پاس آیا۔ اور اس نے کہا ’’اس سارے سامان کا بل میں ادا کروں گا‘‘۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھا۔نہ جان پہچان ، اس سے کبھی سلام دعا بھی نہ ہوئی تھی۔ ۔ میں اسے مبارک صاحبؒ کی کرامت سمجھا کہ میرا اللہ میرے لجپال شیخ کے مریدین کو کہیں شرمندہ نہیں ہونے دیتا۔ اس دوران ایسی اور بھی بہت سے کرامتیں ظاہر ہوتی رہیں۔ ایک روز میرے مرشد میرے ساتھ گاڑی میں آگے بیٹھے ہوئے تھے۔ پیچھے دیگیں اور کھانے کی پراتیں رکھی تھیں۔ جب گاڑی برکت مارکیٹ کے قریب پہنچی تو اچانک سامنے سے آنیوالی گاڑی کی غلطی سے ہماری گاڑی بڑی تیزی سے فٹ پاتھ کی طرف گھوم گئی۔ ایک دم میری زبان سے نکلا یااللہ مدد ۔ اس لمحہ گاڑی فٹ پاتھ پر لگے ایک بڑے سے بجلی کے کھمبے کے پاس یوں جا کر کھڑی ہو گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ دیگیں جوں کی توں حالت میں تھیں حالانکہ گاڑی اپنے ٹائروں پر گھوم کر رہ گئی تھی جس سے ہر شے الٹ پلٹ ہو سکتی تھی مگر یہ میرے شیخ کا لنگر تھا۔ اور اس نے خود اپنے لنگر کی حفاظت کر لی تھی ۔(جاری ہے)