حضرت خضر علیہ السلام اور تصور دستگیری

    حضرت خضر علیہ السلام اور تصور دستگیری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 روشنی، مالک کل کے نور امر کی ایک ادنی سی تجلی کے ظہور کے عکس سے پیدا ہوتی ہے، اس کی جھلکیاں، ہمیں صاعقہ، آگ شمس و قمر اور نجوم میں دکھائی دیتی ہیں۔ روشنی جب حدت خارج کرتی ہے تو اس کے ماخذ سے برقیاتی مقناطیسی لہریں اور بخارات پیدا ہوتے ہیں، جن سے حیاتیاتی توانائی وجود میں آتی ہے، یہی توانائی، کرۃ الارض، کرۃ الماء، کرۃ الفضاء و ہوا میں نمو کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ 

"خضر" (Khidr) آپ علیہ السلام کا نام نہیں بلکہ لقب ہے، لغت میں جس کے معنی سبز (Green) کے ہیں، صحیح بخاری کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں "وجہ تسمیہ" بیان کی گئی ہے کہ "خضر علیہ السلام" کا نام اس وجہ سے خضر پڑا کہ ایک بار وہ صاف چٹیل زمین پر بیٹھے تھے،اور زمین ان کے بیٹھنے کی برکت کی وجہ سے "سرسبز" ہو گئی۔ مفسرین کرام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام "نبی" (Prophet) تھے، بعض مفسرین کرام انہیں "ولی اللہ" اور کچھ "عبدصالح" مانتے ہیں۔ ترجمہ: "ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ جس کو ہم نے اپنی رحمت بخشی تھی، اور اپنے پاس سے علم عطاء کیا تھا"۔ (سورۃ الکہف65)

محققین کے نزدیک قرآن پاک کا یہ انداز بیان مقام نبوت پر ہی دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا بغیر کسی شک و شبہ کے وہ "نبی " تھے۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ بعض علماء کرام کی تحقیق و خیال کے مطابق "حضرت خضر علیہ السلام "کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حیات ابدی (Athanasy) حاصل ہے، اور وہ بھوکے، بھٹکے مفلس الحال انسانوں کی رہنمائی فرماتے ہیں، اکثر اولیاء کرام کی سوانح نگاریوں و تذکروں میں حضرت خضر علیہ السلام سے ان کی میل ملاقاتوں کے حال و احوال درج ملتے ہیں۔ بہرحال یہ اللہ والوں کی باتیں بہت خاص ہیں، اور فیض یافتہ و مشرف بنگاہ خاص الخاص مقرب بندے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اب رہا سوال کہ کوئی تحریری و قطعی  دلیل ان کی "حیات ابدی" کی تو جواب شائد "نہ " میں ہے۔اور یہی حقیقت ہے۔

قرآن پاک نے حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام (Moses) کی ملاقات کا مقام "مجمع البحرین" بتایا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ، لیکن اس سے مراد کونسا "مقام" ہے، اس کے صحیح تعین میں کافی اختلاف ہے۔ بعض علماء کرام کی تحقیق کے مطابق ان دو دریاؤں سے مراد "افریقہ" کے دو دریا ہیں۔ کچھ علماء و مفسرین کا خیال ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں "دجلہ و فرات" مل کر خلیج فارس میں گرتے ہیں، جبکہ محققین کے ایک گروہ کے مطابق یہ "مقام عقبہ" ہے، اور چند ایک کے نزدیک دو دریاؤں سے مراد " بحر قلزم و بحر روم" ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر "قرآن پاک" میں ان کا نام لیے بغیر سورۃ کہف آیات مبارکہ 60 تا 82 میں ہوا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک بزرگ شخصیت سے ملاقات کا ذکر ہے، لیکن نام نہیں بتایا گیا کہ وہ بزرگ ہستی کون ہیں؟ صحیحین کی روایت جو کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخصیت "حضرت خضر علیہ السلام " ہی تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے، کہ سرکارﷺ نے ارشاد فرمایا: "ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے وعظ کر رہے تھے، دوران وعظ ایک شخص نے دریافت کیا، کہ سب سے زیادہ عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا کہ میں (موسیٰ علیہ السلام)، اللہ تعالیٰ نے اس قول کو نہ پسند فرماتے ہوئے عتاب کیا، کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عالم ہونے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف قائم نہیں کی تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سب سے زیادہ عالم نہیں ہو بلکہ میرا فلاں بندہ (خضر علیہ السلام) جو "مجمع البحرین" میں ہے تم سے زیادہ عالم ہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی التجاء و درخواست پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے سے آپ علیہ السلام کی ملاقات کروائی جن کا نام "حضرت خضر علیہ السلام" تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک ایسا "خاص علم" عطاء فرمایا، جو اس سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشاہدے میں نہیں تھا۔ 

سب سے پہلے جس کشتی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت خضر علیہ السلام سوار تھے، اس کا ایک "پھٹہ" حضرت خضر علیہ السلام نے خود ہی نکال دیا، موسیٰ علیہ السلام کے استفسار پر بتایا کہ آگے ظالم بادشاہ ہے، جو صحیح و عمدہ کشتیاں (Bots) چھین لیتا ہے، لہٰذا آپ علیہ السلام (خضر علیہ السلام) نے کشتی کو عیب دار بنا دیا۔ پھر آگے چل کر راستے میں کھیل کود (Sport) میں مصروف ایک لڑکے کو قتل کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ اس کے والدین "نیکو کار" ہیں اور یہ لڑکا کافر تھا اور والدین کے ایمان چھیننے کی وجہ بننے والا تھا۔ آپ علیہ السلام ایک قریہ میں داخل ہوئے اور گاؤں والوں نے طلب کرنے کے باوجود "کھانا" دینے سے انکار کر دیا، لیکن اس کے باوجود ایک گرتی ہوئی دیوار (Wall) کو آپ علیہ السلام نے فوراً سیدھا کر دیا اور بتایا کہ اس دیوار کے نیچے یتیم بچوں کا "مال" دفن تھا۔ اگر دیوار گر جاتی اور لوگ اکٹھے ہو جاتے تو پھر کسی صورت میں بھی مال محفوظ نہیں رہنا تھا۔ 

یہ خالصتاً اللہ والوں کی باتیں ہیں، اور یہ وہ "اسرار و رموز" و "علم و معرفت  ہے جس تک رسائی اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص مقرب بندوں کو ہی عطاء کرتا ہے، اور یہ ہر کسی کے بس کی بات ہرگز نہیں ہوتی، مقام نبوت تو خیر سرکار دو عالم ﷺ پر اپنی انتہاء و اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ مقام "ولائیت" تک رسائی کے لئے روح کی صفائی، یقین، مرشد کامل کی رہنمائی و نظر فیض و کرم اور والدین کی خدمت و دعائیں اور خوشنودی بنیادی عناصر ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -