جماعت اسلامی سیاست میں ناکام کیوں ہے؟
جماعت اسلامی ایک نظریاتی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی منظم ترین دینی و سیاسی جماعت ہے دینی ہونے کے حوالے سے یہ ایک لبرل آؤٹ لک کی حامل جماعت ہے کیونکہ اس پر کسی خاص مسلک کی چھاپ نہیں ہے۔ ہر کلمہ گو اس میں شامل ہو سکتا ہے اس جماعت کے بانی کا تعلق ہندوستان کی ریاست حیدرآباد سے تھا ان کی مادری زبان اردو تھی وہ ایک مخصوص کلچر کے ساتھ جڑے ہوئے تھے لیکن ان کی جماعت میں میاں طفیل محمد جیسے خالص پنجابی، قاضی حسین احمد اور سراج الحق جیسے خالص پٹھان اور سید منور حسن جیسے اردو بولنے والے امارت کے منصب تک پہنچے اس حوالے سے بھی جماعت اسلامی لبرل جماعت کہلائے جانے کی مستحق ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ، جماعت اسلامی کی نرسری ہے اگر ہم کہیں کہ تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ کے نام سے کام کرتی ہے،یہاں نوجوانوں کی تربیت ہوتی ہے۔ دینی افکاراور سیاسی نظریات کے حوالے سے نوجوانوں میں شعور اور آگہی پیدا کی جاتی ہے۔ پھر یہی نوجوان عملی زندگی میں آکر جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے متحرک ہوتے ہیں اور قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو جماعت اسلامی میں شامل نہیں بھی ہوتے وہ دیگر جماعتوں میں جا کر فعال اور جاندار کردار ادا کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی قومی سیاست میں ایک ایسا ہی کردار ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے لوگ اپنے شخصی کردار اور افعال میں بھی کھرے ثابت ہوتے ہیں، ان کے جو لوگ اسمبلیوں میں جاتے ہیں وہ اپنی کارکردگی کے اعتبار سے نمایاں ہوتے ہیں، تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود اسمبلیوں میں ان کی موجودگی نہ صرف محسوس کی جاتی ہے بلکہ واضح طور پر دیکھی اور جانی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی کارکردگی تو یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے کے لائق ہے اس سے قبل سینیٹر پروفیسر خورشید احمد کی سینیٹ آف پاکستان میں کارکردگی بھی مثالی رہی۔ ویسے تو پروفیسر صاحب حقیقی معنوں میں ایک قد آور علمی شخصیت ہیں، ان کی تحریر کردہ کتب چہار عالم میں پذیرائی حاصل کرتی رہی ہیں، ان کی ایک کتاب دینیات تو سی ایس ایس کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد کا پارلیمان میں کردار بھی سیاسی نصاب کی کتب میں تحریر کئے جانے اور طالبان علم کو پڑھائے جانے کے لائق ہے۔ معاشرتی اعتبار سے جماعت اسلامی گلی محلے، وارڈ کی حد تک منظم اور فعال ہے۔گلی محلے حلقے اور وارڈ کی سطح تک پھیلے تنظیمی جال کے ذریعے جماعت معاشرے میں مثبت اور فعال کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی خیر و فلاح کی داعی اور پرچارک ہی نہیں بلکہ عملی جدوجہد کرنے والی ملک گیر تنظیم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عملی سیاست میں اس کا کردار اس سطح پر نظر نہیں آتا جو اس کا حصہ بنتا ہے۔ ایک وسیع و عریض نیٹ ورک اور ہزاروں نہیں لاکھوں کارکنان و متفقین کے ساتھ ہونے کے باوجود عملی سیاست میں ناکامی کیوں اس جماعت کا مقدر بنتی ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ضرور تلاش کیا جانا چاہیے۔ آج کل جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن بھرپور انداز میں سیاست کررہے ہیں۔انہوں نے کراچی جماعت کے امیر کے طور پر انتہائی فعال کردار ادا کرکے اپنی سیاسی بلوغت کا بھرپور ثبوت دے دیا تھا جب کراچی میں جماعت اسلامی ایک طاقتور جماعت کے طور پر اپنا آپ منوانے میں کامیاب ہو گئی۔ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم جیسی جفادری جماعتوں کے مقابل جماعت اسلامی کراچی نے بڑی دھوم دھام سے ”کم بیک“ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ دوستی کرنے کے ”غیر حقیقت پسندانہ فیصلے“ کے نتیجے میں جماعت اسلامی بلدیاتی میدان میں حتمی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ کراچی کی بلدیاتی سیاست کی قیادت نہ مل سکی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے سیاسی فیصلوں میں کہیں بہت زیادہ سقم یا خلاء ہوتا ہے جس کے باعث انہیں سیاسی میدان میں حتمی کامیابی نہیں ملتی، لاہور جیسے سیاسی طور پر فعال اور بالغ النظر شہر کو دیکھ لیں یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔ یونیورسٹیاں ، کالجز اور شاندار سکول بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کا تنظیمی حلقہ بھی موثر و مضبوط ہے۔ جماعت اسلامی کا ہیڈکوارٹر بھی یہاں موجود ہے، پھر بھی جماعت اسلامی کا پڑھا لکھا امیدوار جو معقول قسم کا وکیل بھی ہے، ضیاء الدین انصاری، چند سو ووٹ بھی حاصل نہیں کر پاتا، آخر کیا وجہ ہے کہ لوگ جماعت اسلامی کو اہل، دیانت دار اور سچے و کھرے لوگوں کی جماعت سمجھتے ہوئے بھی اپنی سیاسی نمائندگی کے لئے حق نہیں دیتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمن کراچی میں اپنی سیاسی بلوغت کا سکہ جمانے کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہو چکے ہیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ وہ ملک گیر پلیٹ فارم کے ذریعے قومی سیاست میں بہتری کے امکانات پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے لیکن وہ تو اپنی سیاسی جگہ بنانے اور اسے وسیع کرنے کے لئے ایک ایسی سیاسی روش پر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو اس طرح سچی اور کھری نہیں ہے جس طرح جماعت اسلامی بذات خود سچی و کھری ہے۔ انہوں نے حال ہی میں منصورہ شریف میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ نوازشریف ”قومی سے معافی مانگیں اور اقتدار چھوڑ دیں“ انہوں نے مزید کہا ”پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ فارم 47کی پیداوار ہیں اور پنجاب حکومت دھکے سے چل رہی ہے“۔ گویا باقی صوبوں میں بالعموم (صوبہ سندھ کے علاوہ) اور کے پی میں بالخصوص حکومتیں بہت اعلیٰ چل رہی ہیں۔ گنڈا پور کی حکومت اپنے عوام کے لئے دودھ شہد کی نہریں بہانے میں مصروف ہے، وغیرہ وغیرہ۔ نوازشریف معافی مانگیں لیکن کس بات کی معافی مانگیں ذرا یہ بھی تو بتا دیں وہ اس بات کی معافی مانگیں کہ انہوں نے 9مئی کا سانحہ کرایا، وہ اس بات کی معافی مانگیں کہ انہوں نے ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی (عمرانی دور) میں ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا، کیا وہ اس بات کی معافی مانگیں کہ انہوں نے نوجوانوں کو اپنے ہی ملک کے اداروں اور سیاستدانوں کے خلاف مورچہ بند کر دیا۔ کیا وہ اس بات کی معافی مانگیں کہ ففتھ جنریشن وار میں انہوں نے کرائے کے سپاہی (سوشل میڈیا کے فعال لوگ) مہیا کئے، کیا وہ اس بات کی معافی مانگیں کہ انہوں نے ملکی قومی سلامتی کو سائفر کے ذریعے داؤ پر لگایا، گھڑی چرائی اور بیچی، جرنیلوں سے گٹھ جوڑ کرکے ایک منتخب حکومت کے سربراہ کو چلتا کیا، دھرنا دیا، چینی صدر کے دورے کو ملتوی کرایا، قومی اہمیت کے منصوبے سی پیک کو جام کیا، حافظ نعیم الرحمن کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اگر یہ حکومت چھوڑ دیتے ہیں تو پھر حکومت عمران خان کو ملنی چاہیے جس کے ساتھ حافظ صاحب کی جماعت مل کر پاکستان کو جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی کے افکار کی روشنی میں ریاست مدینہ بنائیں گے، استغفراللہ، ایسی باتوں کی وجہ سے جماعت اسلامی کو قوم نے اپنا حقِ نمائندگی نہیں دیا اور نہ ہی اس کی توقع ہے کہ جماعت اسلامی کو لوگ مستقبل قریب میں اپنا حق نمائندگی تفویض کریں گے۔ نوازشریف میں کئی کوتاہیاں ہوں گی، انہوں نے کئی سیاسی غلطیاں کی ہوں گی لیکن ان کا کسی طور بھی عمران خان کے ساتھ تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ نوازشریف ملک دشمن نہیں، جرنیلوں کا مخالف ان کے سیاسی کردار کا شاقی لیکن مسلح افواج کو تقسیم کرنے والا نہیں ہے۔حافظ صاحب ذرا اس حوالے سے اپنی پسندیدہ جماعت تحریک انصاف اور اس کے قائد، عمران خان کی ملک دشمن اور ملت کش پالیسیوں پر بھی کچھ فرما دیتے تو ان کے سیاسی قدر میں کچھ بڑھوتی ہو جاتی۔