معلوماتی سفرنامہ۔۔۔تینتیسویں قسط
سرزمینِ عرب اور قربِ قیامت
اس موقع پر تو مناسب ہوگا کہ سعودی عرب کے معاشرے کے بارے میں اپنے کئی سال پرمحیط تجربات و مشاہدات میں آپ کو شریک کرلوں۔ کیونکہ اس برادر اسلامی ملک کے بارے میں ہماری معلومات زیادہ نہیں۔ یہاں کے سفر نامے تو بہت لکھے گئے ہیں مگر زیادہ تر وہ حرمین کی داستان اور اسلام کی تاریخ تک ہی محدود رہے ہیں۔ آنے والے حج و عمرے کے لیے سیدھے حرم آتے ہیں اور اکثر وہیں سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔مگر میں چونکہ کافی عرصے مقیم رہا ہوں اور سعودی عرب کے تمام اہم شہروں میں گیا ہوں اس لیے میں وہ معلومات بھی آپ کو دے سکتا ہوں جو ایک زائر نہیں دے سکتا۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔بتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سعودی عرب آنے والے شخص کے پہلے تاثرات یہ ہوتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی دولت مند ملک میں آگیا ہے۔ لمبی لمبی گاڑیاں ، بلندو بالا عمارات، بڑے بڑے عظیم الشان شاپنگ سنٹرز، دنیابھر کے فاسٹ فوڈ اداروں کی شاخیں، امرا کے بڑے بڑے محلات۔ غرض ہر جگہ دولت کی فراوانی اور دنیاوی شان و شوکت کا عنصر نمایاں ہے۔ آج سے چند سال قبل تک یہاں کا معاشرہ ایک سادہ بدوی معاشرت کا نمونہ تھا۔ جس کے کوئی آثار اب بڑے شہروں میں نظر نہیں آتے۔ یہ دراصل اس عظیم پیش گوئی کا ظہور ہے جو مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ یہ روایت صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے اور راوی بھی کوئی عام شخص نہیں سیدنا عمرؓ ہیں۔حدیث کے پورے ذخیرے میں اس جیسی اعلیٰ روایت کم ہی ہوگی۔اس میں نہ صرف پورے دین کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے بلکہ قربِ قیامت کی بہت اہم پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ حدیث کے مطابق ایک دفعہ لوگوں کو دین سکھانے کے لیے حضرت جبرائیل ؑ انسانی شکل میں تشریف لائے تاکہ سب لوگ ان باتوں کو سن لیں اور اچھی طرح یاد رکھیں۔ میں یہاں حدیث کا وہی حصہ بیان کررہا ہوں جس کا تعلق پیش گوئی سے ہے۔ روایت کے مطابق حضرت جبرائیل ؑ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سوالات کیے۔ آپ کا آخری سوال یہ تھا کہ قیامت کب آئے گی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاکہ بتانے والے کو پوچھنے والے سے زیادہ خبر نہیں (یعنی دونوں کو معلوم نہیں)۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس کی کچھ نشانیاں بتلادیں۔ آپ نے فرمایا کہ ننگے پاؤں بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے اور لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔
یہ پیش گوئی اتنے واضح طریقے پر پوری ہوئی ہے کہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے اس کی حقیقت دیکھ سکتا ہے۔ اس کا خلاصہ صرف ایک نسل میں لوگوں کی مالی حیثیت میں انتہائی غیر معمولی تبدیلی ہے۔ یہ معلوم بات ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات کا آغازجزیرہ نما عرب سے ہوا ۔ اس کے بعد عربوں کے تمدن میں کافی تبدیلی ہوئی ۔ مگراس تبدیلی کے اثرات اس خطے سے باہر ظاہر ہوئے۔ حضرت علیؓ کے دور حکومت میں خلافتِ راشدہ کا مرکز مدینہ سے کوفہ منتقل ہوگیاتھا۔ اس کے بعد دمشق، بغداد اور اسپین وغیرہ عربوں کی حکومت اور تمدن کے عظیم مراکز رہے۔ مگر جزیرہ نما عرب کے تمدن، ثقافت اور رہن سہن میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ لوگ صدا کے بدوی تھے اور بدوی رہے۔یہ صرف ایک نسل پہلے کی بات ہے کہ یہاں کے باسیوں کی زندگی میں تبدیلی آئی جب پٹرو ل کی دریافت نے عربوں کو اچانک دنیا کی امیر ترین قوم بنادیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ننگے پاؤں بکریاں چلانے والے بلند و بالا عمارات کے مالک بن گئے۔ وہ خواتین جو لونڈیو ں کی طرح زندگی گزارتی تھیں ان کی لڑکیاں جب بیش قیمت لباس اور زیورات پہنے، مرسڈیز کار میں موبائل فون ہاتھ میں لیے گھومتی ہیں تو اپنی سادہ مزاج ماں کی مالکن لگتی ہیں۔ یہ سب آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم پیش گوئی کے اس دوسرے حصے کو محض ظاہری الفاظ کے حوالے سے لیں تب بھی اس کی سچائی آخری حد تک سامنے آچکی ہے۔ سعودی عرب دورِ حاضر میں بھی غلامی کا بڑا مرکز رہا ہے۔ٹھیک اس زمانے میں جب یہاں تعمیر و ترقی کا دور شروع ہواسعودی عرب میں غلامی بیک جنبش قلم ختم کردی گئی۔۔۔ اس طرح کہ ایک حاملہ لونڈی کے ہاں اگلی صبح بیٹی پیدا ہوئی تو اس کی حیثیت ایک آزاد عورت کی تھی جسے کبھی لونڈی نہیں بنایا جاسکتا تھا۔
معاشی حالات
مالی حالت کا ذکر آگیا ہے تو پہلے میں سعودی عرب کے معاشی حالات سے ہی بات شروع کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کوتیل کی دولت کی شکل میں جو فراخی عطاکی ہے اس کا تذکرہ اوپر ہوچکاہے۔ اس کے علاوہ گیس اور سونے کے وسیع ذخائر بھی یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ مزید یہ کہ حج اور عمرے کی شکل میں یہاں سیاحت کی عظیم ترین انڈسٹری لگی ہوئی ہے۔ لاکھوں لوگ ہر سال یہاں حج و عمرے کے لیے آتے ہیں۔ جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کی بڑی تعداد کا روزگار وابستہ ہے بلکہ سعودی کرنسی بڑی اہم کرنسی بن چکی ہے اور بھاری مقدار میں زرِ مبادلہ ملک کو حاصل ہوتا ہے۔
ان تمام باتوں کی بنا پر یہاں عوام الناس کی حالت میں بہت بہتری آئی ہے۔ تنخواہیں بہت اچھی ہیں۔ یہ ایک ٹیکس فری سوسائٹی ہے اس لیے پوری تنخواہ جیب میں آتی ہے۔ سامانِ زندگی بہت سستا ہے۔دنیا بھر کی مصنوعات دستیاب ہیں۔ ہر پھل ہر موسم میں مل جا تاہے۔چیزیں خالص ہیں۔ تعلیم مفت ہے۔ مکان وغیرہ کے لیے حکومت سے بلا سودی قرضے مل جاتے ہیں۔ حکومت عوام کی فلاح کا خیال کرتی ہے۔ کاروبار کے وسیع مواقع ہیں۔ بلکہ میںیہ کہتا ہوں کہ جتنے اچھے مواقع یہاں ہیں دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں۔ یہاں ۱۲ فیصد امپورٹ ڈیوٹی کے علاوہ کوئی اور ٹیکس نہیں۔ لیبرباہر کے ممالک سے منگوائی جاتی ہے اور بہت سستی ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید بہت زیادہ ہے۔ پرائس کنٹرول کا کوئی نظام نہیں۔ قیمتوں کا تعین صرف مارکیٹ کرتی ہے۔ اس لیے یہاں جو بھی کاروبار میں کود تا ہے تیر جاتا ہے۔ بلکہ چند سالوں میں خود اپنا جہاز خریدلیتا ہے۔
معاشرتی حالات
گلف کی جنگ کے بعدمعاشی حالات میں تبدیلی آئی ہے اس کی وجہ سب جانتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس بنا پر کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ پھر جیسا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دولت کو اپنی امت کا فتنہ قرار دیا ہے اس لیے اس فتنے کے اثرات بھی پورے طور پر نظر آتے ہیں۔ دولت کا اصول ہوتا ہے کہ آہستہ ہستہ یہ چند خاص طبقات میں مرتکز ہوتی چلی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں بھی یہی ہورہا ہے۔یہاں کی ساری دولت مقتدر اور سرمایہ دار طبقات کے ہاتھوں میں جمع ہورہی ہے۔ جس کے لازمی نتیجے کے طور پر نچلے طبقات میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ روزگار کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اسی بنا پر یہاں کی حکومت غیر ملکی کارکنا ن کو باہر نکالنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار ملے۔ یہاں جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ منشیات فروشی، چوری، آبروریزی اور قتل وغیرہ جیسے جرائم کی خبریں اخباروں میں شائع نہیں ہوتیں بلکہ ان کے مرتکبین کو جب سزا سنائی جاتی ہے تب خبر بنتی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ سارے مجرموں کوپکڑا نہیں جاسکتا اس لیے اکثر جرائم کی خبریں شائع نہیں ہوتیں۔ چوری اور رشوت ستانی کے متعدد واقعات تو خود میرے ذاتی علم میں ہیں۔دولت کے زیادہ ہونے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس کی حرص بڑھتی ہے جو جرائم اورمعاشرتی بے چینی کا ایک بڑاسبب ہے۔
ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ شادی کا ہے۔ شادی کے وقت لڑکوں کو مہر کے نام پر ایک بہت بڑی رقم لڑکی کے باپ کو دینی پڑتی ہے۔ یہ رقم ہر لڑکا نہیں دے سکتا۔ اس لیے لڑکیاں بیٹھی رہتی ہیں اور لڑکوں کی بھی شادی نہیں ہوپاتی۔ پھر اکثر مرد باہر ملکوں کی خواتین سے شادیاں کرلیتے ہیں اس سے بھی مسئلہ پیدا ہوتاہے۔ تاہم یہاں طلاق اور دوسری شادی کو عیب نہیں سمجھا جا تا اس لیے بہت سارے وہ مسائل نہیں ہوتے جو ہمارے ہاں موجود ہیں۔شادی کو مشکل بنانے میں سعودی معاشرت کا یہ پہلو بھی شامل ہے کہ شادی کے بعد لڑکا بالعموم الگ رہتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کا رواج نہیں۔ لیکن پورا گھر سیٹ کرنا اتنا سہل نہیں ہوتا۔معاشرے میں اسراف کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ شادی بیاہ میں نمود و نمائش پر خواتین بے اندازہ پیسے خرچ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اشیائے تعیشات کی کثرت ہے۔ لوگوں کے پاس موجود پیسہ ملک کی ترقی میں خرچ ہونے کے بجائے غیر ضروری اشیا کی درآمدمیں خرچ ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں نظر آنے والی خوشحالی بالکل مصنوعی ہے۔ عیش وعشرت کی بنا پر لوگوں میں کام کرنے اور محنت کرنے کا رجحان بالکل نہیں۔ ہر شخص کام چوری کو سب سے بڑا کام سمجھتا ہے۔ جو تھوڑا بہت پڑھ لیتا ہے و ہ منیجر سے کم عہدے پر کام کے لیے راضی نہیں ہوتا۔ آج اگر تیل کی دولت ختم ہوجائے تو آپ تصور نہیں کرسکتے کہ یہاں کیا حال ہوگا۔
اخلاقی حالات
ایک عام آدمی جب سعودی عرب آتا ہے تو یہاں کا ماحول دیکھ کر بڑا متاثر ہوتا ہے۔ نماز کے وقت سارے بازار بند ہوجاتے ہیں۔ ہر شخص نماز پڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ خواتین کے لیے بھی مساجد میں نماز کا اہتمام ہے۔عورتیں بغیر برقع کے نظر نہیں آتیں۔ حتیٰ کے غیر مسلم خواتین بھی بغیر برقع کے باہر نہیں نکلتیں۔ مساجد میں آئمہ درس و تدریس کا اہتمام کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا پر کوئی غیر اخلاقی چیز پیش نہیں کی جاسکتی۔ انٹر نیٹ بھی سنسر ہوکرآتا ہے۔ ہر طرف قال اللہ اور قال رسول کا دور دورہ ہے۔ شریعت نافذ ہے۔مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ کوئی بہت اچھا نقشہ پیش نہیں کرتا۔ یہاں جنسی ہراس (Sexual Harassment) بہت عام ہے۔ کوئی عورت تنہا گھر سے نہیں نکل سکتی۔
میں نے جدہ آتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور کی جس بات کا ذکر کیا تھا وہ یہی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو یہ کیسے خبیث لوگ ہیں کہ ٹیکسی میں عورتیں جارہی ہیں اور یہ لفنگے ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور جیسے ہی ٹیکسی رکی یہ بھی ساتھ رک گئے۔ پہلے مجھے ایسی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا مگر جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یقین آیا۔ کوئی تنہا عورت کھڑی ہو تو فوراً دس گاڑیا ں پاس آکر رک جاتی ہیں۔ یا ہارن دے کر گزرتی ہیں کہ ذرا وہ آسرا دے اور یہ اسے گاڑی میں بٹھاکر لے جائیں۔ یہ صرف لفنگوں کی حرکتیں نہیں، میں نے تو اچھے اچھے لوگوں کو گاڑی روکتے دیکھا ہے۔ کتاب پر نظر ثانی کے دوران ایک خبر پڑھی کہ ریاض میں 63افراد کو کوڑے مارے گئے۔ یہ لوگ اسکول کی طالبات کو تنگ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ میں اوپر بیان کرچلاہوں کہ سعودی عرب میں جرم کی خبر صرف اس وقت آتی ہے جب مرتکبین کو سزا ملتی ہے۔ جبکہ یہ حرکت یہاں بہت عام ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن کا میں ذکر اس لیے مناسب نہیں سمجھتا کہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں اور میں ان کا براہِ راست گواہ نہیں ہوں۔ وگرنہ زبانِ خلق تو بہت کچھ کہتی ہے۔ سعودی خواتین کا لباس ، اسلامی اعتبار سے، نامناسب ہوتا ہے۔ کچھ اس میں دخل ان کی اس معاشرت کا بھی ہے جس میں ہر فیملی تنہا رہتی ہے اور خواتین اجنبیوں کے سامنے نہیں آتیں۔ لیکن بچے بہرحال بڑے ہوجاتے ہیں۔ قریبی رشتہ دار بھی آتے جاتے ہیں۔میرا گمان ہے کہ ان کے مردوں کا وہ رویہ جس میں وہ کسی بھی عورت کو گاڑی میں بٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اس میں ان کے گھروں کی خواتین کے لباس کاعمل دخل ضرور ہے۔ اب تو ڈش کے ذریعے گھر گھر مغربی میڈیا چل رہا ہے۔ جس میں عریاں چینلز بھی آتے ہیں۔اس کے نتائج تو بہرحال سامنے آئیں گے۔
جاری ہے۔ چونتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں