عورت آج بھی ہے مظلوم

عورت آج بھی ہے مظلوم
عورت آج بھی ہے مظلوم
سورس: Twitter

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جلسے، جلوس، ریلیاں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ پورے ہفتہ جاری رہے گا ۔ عورت کل بھی مظلوم تھی ، عورت آج بھی مظلوم ہے اور اُس وقت تک مظلوم رہے گی جب تک اُسے اسلام کا عطا کردہ حق اور مقام نہیں دیا جائے گا۔ تاریخ کے اوراق الٹیے اور اسلام سے قبل عورتوں کے حالات کا مطالعہ کیجئے۔ تمام بڑی تہذیبیں اور مذاہب عورتوں کے بارے میں خاموش تھے یااُسے اتنا حقیر ، نجس اور ناپاک سمجھتے تھے کہ اُس سے حسن سلوک کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔

روم اور یونان نے علوم و فنون میں بے پناہ ترقی کی تھی لیکن وہاں عورتوں کا جو حال تھا وہ اِس سے ظاہر ہوسکتا ہے کہ شوہر کو اِس بات کی قانوناً اجازت تھی کہ وہ جب چاہے عورت کو قتل کردے۔ ہندوؤں کی یہ حالت تھی کہ اُن کے ہاں عورت کا اپنا وجود ہی نہیں تھا، اُ س کی زندگی خاوند کی زندگی سے جڑی تھی خاوند کی موت کے بعد اُسے اپنا رختِ سفر بھی باندھ لینا پڑتا تھااور وہ  شوہر  کی لاش کے ساتھ چتا کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی آغوش میں پناہ حاصل کرتی تھی۔ عرب معاشرے میں عورت کا وجود ہر خاندان کے لئے باعثِ ننگ تھا۔ اگر کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوتی تو ماتم کا سا عالم پیدا ہوجاتا ۔ بچیوں کو جننے والی مائیں اپنے چہرے نوچ لیتی تھیں۔ باپ سروں میں خاک ڈالتے تھے۔ اُن میں سے کتنے تھےکہ نومولود بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے، اُن کے گلوں پر چھریاں چلا دیتے۔ 

جب رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے عورت کی مظلومیت ختم کی اور اُسے وہ سارے حقوق عطا فرمائے جو  ظالم مردوں نے اُس سے چھین رکھے تھے۔ سرور کائنات ﷺ نے عورت کو اتنا اونچا مقام و مرتبہ دیا کہ اگر وہ ماں ہے تو اُس کے قدموں تلے جنت ہے، اگر بیٹی ہے تو فرمایا ک"ہ جس کی دو تین بچیاں ہوں وہ اُن کی پرورش کرے اورحسن سلوک سے کام لے تو جنت میں وہ اور میں اِس طرح ہونگے جس طرح یہ دو انگلیاں ہیں"۔اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں ان کی مثال آج تک دنیا کا کوئی دین یا مذہب پیش نہیں کرسکا،اس لئے عورت کے حقوق کا تحفظ اسلام کے عطا کردہ ضابطوں سے ہی ہوسکتا ہے۔

سورۃ النساء حقوق نسواں کا آسمانی چارٹر ہے، اللہ رب العزت نے اِس ایک سورۃ میں عورتوں کے تمام حقوق کو جمع کردیا اور بتا دیا کہ ایک مسلم معاشرے میں عورت کسی بھی روپ میں ہو، چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا ماں ہو، اُس کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ اُسے باہر جاکر کمانے کی ضرورت ہے نہ کوئی اسے مجبور کرسکتا ہے البتہ جب وراثت کی تقسیم کا وقت آئے گا تو وہ حقدار ہوگی، ماں کو بھی وراثت میں حق ملے گا ، بیوی کوبھی ملے گا، بہن کو بھی ملے گا اور بیٹی کو بھی ملے گا۔

اسلام عورت کو زندگی کا حق دیتا ہے، اسے پرورش کا حق دیتا ہے، اسے تعلیم کا حق دیتا ہے، اسے معاشی حق دیتا ہے،  اظہار رائے کا حق دیتاہے۔ اسلام نے اُن کے حقوق و تعظیم کے لئے سال میں 365دن مقرر کئے ہیں، ان 365دنوں میں سے ایک لمحے کے لئے بھی عورت کو بھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسلام عورت کو حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ پر امن، خوشگوار، پرسکون اور اطمینان والی زندگی گزارنے کی ضمانت دیتا ہے جن کی بدولت اٖس کی عزت و آبرو، عفت و حیا اور پاکدامنی محفوظ رہتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے عورت کے سماجی ، تمدنی ، معاشی ، تعلیمی اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو اپنے عملی رویوں سے ایسا واضح کیا ہے کہ قیامت کی صبح تک وہ ہدایت کے روشن چراغ بن کر رہنمائی کرتے رہیں گے۔
ہم نے عورتوں کے حقوق کے لئے تمام حربے آزمائے ، مختلف نظاموں کو اپنایا اب وقت ہے کہ ایک بار اسلام کی تعلیمات کو بھی اپنا کر دیکھ لیں۔پاکستان میں بہت سے ادارے، این جی اوز اور انفرادی طور پر بہت سی شخصیات ایک عرصے سے خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔  میں ذاتی طور پر بہت سی شخصیات کو جانتی  ہوں جن کی تمام عمر خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد میں گزرگئی۔ عورت فاؤنڈیشن کا کام بہت اچھاہےْ ممتاز مغل اور نبیلہ شاہین اسے لیڈ کررہی ہیں۔آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن جسے اپواء کے نام سے جانا جاتا ہے، پنجاب میں روحی سید صاحبہ اس کی سربراہ رہی ہیں، ورکنگ ویمن آرگنائزیشن ہے، جسے معروف ایکٹوسٹ اور ٹریڈ یونین لیڈر آئمہ محمود لیڈ کررہی ہیں وہی اس کی صدر ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی بہت سی این جی اوز کا ایک اتحاد ممکن الائنس ہے، جسے سلمان عابد صاحب اور عنبرین فاطمہ چلا رہے ہیں، سنگت ڈویلپمنٹ فاونڈیشن ہے جسے زاہد اسلام صاحب لیڈ کررہے ہیں۔ بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ بی ایل ایل ایف ہے جس کو  سیدہ غلام فاطمہ چلا رہی ہیں اور ایک عرصے سے بھٹوں پر کام کرنے والی محنت کش خواتین کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔بشریٰ خالق ۔ ام لیلیٰ ۔ بیگم مہناز رفیع سب کے سب بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن  گزشتہ  چند برسوں کے دوران خواتین کے حقوق کے نام پر  جو طوفانِ بدتمیزی بپا کرنے کی کوشش کی گئی وہ از خود خواتین کے حقوق کی اِس تحریک پر خود کش حملہ ہے۔

۔

نوٹ : یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -