نوخیز اذہان کے لئے ’’ ہم بھی اگر بچّے ہوتے‘‘ اور "معین اختر" کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے بزم اردو  دبئی کی کاوش، وسیم بادامی   نے  لطف  دوبالا کر دیا

نوخیز اذہان کے لئے ’’ ہم بھی اگر بچّے ہوتے‘‘ اور "معین اختر" کو خراجِ تحسین ...
نوخیز اذہان کے لئے ’’ ہم بھی اگر بچّے ہوتے‘‘ اور

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دبئی (طاہر منیر طاہر) متحدہ عرب امارات میں بچوں میں پڑھنے کے شوق کو تقویت دینے کے مقصد سے، بزم اردو  دبئی نے شارجہ چلڈرن ریڈنگ فیسٹیول کے تعاون سے دو دلکش اسٹیج پرفارمنس کے ساتھ ایک بھرپور ثقافتی پیشکش سے شائقین کے دلُ موہ لئے۔ اس پیشکش کا مقصد بچوں کو اُردو زبان کی خوبصورتی کی طرف راغب کرنا تھا کیونکہ بزم اردو کا ماننا ہے کہ نوجوان اس زبان کا مستقبل ہیں اور ہم انہیں بچپن ہی سے اس زبان کو سیکھنے اور اِسے اپنانے کی طرف لا  سکتے ہیں  اور اس طرح کے اقدام ہماری ثقافت کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پہلا پروگرام جس کا عنوان تھا ’’ ہم بھی اگر بچّے ہوتے‘‘    یہ خاص  طور سے نوخیز اذہان کے لئےتیار کیا گیا تھا۔ جبکہ دوسرا پروگرام بعنوان  ’’ معین اختر کو خراجِ تحسین‘‘  ایک ایسے فنکار کو خراجِ عقیدت تھا جو  اداکاری، کامیڈی اور میزبانی میں اپنی شاندار صلاحیتوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ معین  اختر نے نسلوں اور سرحدوں کے پار سامعین کو مسحور کیا اور اپنی استعداد اورخداد داد صلاحیتوں سے برِصغیر  پاک و ہند کے تفریحی منظر نامے پہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، تقریب کا آغاز نوجوان سامعین کے لیے ایک یادگار پرفارمنس ’’ ہم بھی اگر بچّے ہوتے‘‘ سے ہوا۔  دو حصوں پر مشتمل اس حصے میں  پہلے  بچوں کی طرف سے ایک پرلطف 'مزاحیہ مشاعرہ کا اہتمام  کیا گیا جس میں مزاح کا عنصر لئے نونہال شاعروں کی مہارت کا مظاہرہ کیا گیا۔
اس پُر لطف تفریحی سفر میں  سامعین کی رہنمائی کرنے والے کوئی اور نہیں، بلکہ  مشہور صحافی اور ٹی وی اینکر  وسیم بادامی تھے جن کےبرجستہ اور  شگفتہ جملوں نے اس خوبصورت پیشکش کے لطف کو دوبالا کر دیا تھا۔  بزمِ اُردو کے رُکن  سید سروش آصف کی طرف سے تحریر  اور ہدایت کردہ اس سیگمنٹ کے اسکرپٹ کو اپنے تازگی اور تفریحی انداز کے لیے انتہائی   پذیرائی ملی۔ سید سروش آصف متحدہ عرب امارات میں ایک مشہور شاعر ہیں لیکن مزاح نگاری میں یہ ان کا پہلا قدم تھا اور ایک شاندار کاوش تھی۔
بلال مقصود، پاکستان کی میوزک انڈسٹری کی ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنے ابتدائی سالوں میں  مشہور بینڈ اسٹرنگز  کےبانی کی حیثیت سے کام کیا۔
 اور  اُس حیثیت میں متعدد بار امارات کے دورے بھی کئے لیکن اس مرتبہ بلال مقصود کا امارات آنے کا مقصد محض موسیقی نہیں بلکہ با مقصد اور مفید معلومات کو نوخیز ذہنوں تک خوبصورت اور دلچسپ انداز میں پیش کرنا تھا-   انہوں نے "ہم بھی آگر بچے ہوتے" کے بعد کے سیگمنٹ کے لیے اسٹیج سنبھالا۔ اورمختلف تعلیمی موضوعات پر محیط دلکش اردو مواد کو دلفریب اسکٹس، گانوں اور انٹرایکٹو سیگمنٹس کے ذریعے پیارے سامعین کے سامنے پیش کیا۔ بلال مقصود نے اپنے  پیارے کٹھ پتلی کرداروں پیارے کٹھ پتلی کرداروں لال بیگ اور طفیل کے ساتھ، مقصود نے نوجوان سامعین کے لیے  خاص طور پر ایک متحرک اور دلکش تجربہ تخلیق کیا اوراس پرکشش پروگرام کے ذریعے بچوں کو خوش  کیا گیا ۔
مقصود کا نقطہ نظر اور مقصد اب  تفریح ​​سے آگے بڑھ گیا ہے اب یہ مقصد اُردو زبان کو فروغ دینے اور  آنے والی نسلوں میں  اس سے دلچسپی اور اس زبان تک اُن کی رسائی کو آسان اور پُر لطف بنانا ہے یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم پر نمایاں پسند یدگی کے ساتھ مقصود کا "پکے دوست" چینل بچوں کے لیے خوبصورت اور تعلیمی اردو مواد فراہم کرنے والے چینل  کے طور پر ان کی ساکھ کو مزید مستحکم کرتا ہے-
شام کے آخری حصے میں بزم اردو نے مرحوم معین اختر کو خراج عقیدت پیش کیا، جو پاکستان کے تفریحی میدان میں ایک ممتاز شخصیت ہیں جو اداکاری، کامیڈی اور میزبانی میں اپنی غیر معمولی مہارت کے لیے مشہور ہیں۔ انور مقصود جو پاکستان کی تفریحی اور باذوق حلقوں کی ایک قابل احترام شخصیت ہیں اور اپنی برجستگی، حسِ مزاح اور طنزیہ گفتگو اور بصیرت انگیز تبصروں کے لیے جانے جاتے ہیں انہوں نے معین اختر کے ساتھ گزاری ہوئی تین دہائیوں کی یادوں کو سامعین کے سامنے پیش کیا۔
انور مقصود  اور معین کی جوڑی نے  بے مثال کامیابی اور داد سمیٹی اور ان کی شہرت برصغیر کے تارکین وطن میں پوری دنیا میں پھیل گئی- مزاح، ذہانت اور سماجی مشاہدے کے ان کے الگ الگ امتزاج سے سامعین کو مسحور کر دیا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان باصلاحیت اداکار یاسر حسین نے "لوز ٹاک" سے مقصود کے مشہور خاکوں کو زندہ کیا  جو ناظرین کو  اس پرانے دور کی طرف لے گئے جہاں انور مقصود اور معین اختر کی متحرک شراکت داری بے مثال کامیابی کی علامت تھی۔ وہ "لوز ٹاک" سے زندگی کے خاکوں کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے سامعین کو اس دور میں لے گئے جب انور مقصود اور معین اختر کی بے مثال جوڑی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔
معین اختر کے لیے ایک مختصر دستاویزی فلم تیار کی گئی تھی اور حمزہ لاری نے اس متاثر کن دستاویزی فلم میں معین اختر کی زندگی کے بہت سے متنوع عناصراور ان کے ساتھی فنکاروں کی آراء کو یکجا کر کے معین اختر کی کامیابی کے سمندر کو کوزے میں سمیٹ کر ان کے چاہنے والوں کے سامنے پیش کیا۔  سامعین میں معین اختر کے بیٹے شرجیل اختر کی موجودگی کی وجہ سے یہ سیگمنٹ اور زیادہ یادگار بن گیا۔ بزم اردو نے ان کی موجودگی کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اس یادگار اور اپنی   نوعیت کے ایک منفرد پروگرام کے اختتامیہ کے طور پر اسٹیج پر مدعو کیا  اور یوں یہ  شام تمام حاضرین کی پرجوش تالیوں اورگہری عقیدت کے درمیان سمیٹ لی گئی اور  حاضرین کی پرجوش تالیوں اور حقیقی تعریف کے درمیان اختتام پذیر ہوئی-
حاضرین میں موجود معزز مہمانوں میں قابل ذکرجناب  سنجیو صراف تھے، جو "ریختہ" (اردو ویب سائٹ کے عالمی علمبردار) کے بانی ہیں  اور ان کی موجودگی سے محفل کے وقار میں اضافہ ہوا  امارات کی اپنی اور یہاں کے ادبی حلقوں میں اپنی  دلکش میزبانی کے لئے جانی جانے والی ترنّم احمد نے  اپنے مخصوص انداز  کے ساتھ سامعین تک اس خوبصورت اور یادگار  شام کو پہونچانے کا فرض بخوبی نبھایا۔
بزمِ اُردو کی سجائی اس محفل کی کامیابی پہ ، بزم اردو کے بانی ریحان خان کو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی انتھک کوششوں پر  تعریف و توصیف سے  نوازا گیا۔ مزید برآں، بزم اردو کی ٹیم، خاص طور پر محمد  سلیم، ترنم احمد، سید سروش آصف،  ثروت زہرہ، صائمہ نقوی،  زبیدہ خانم  دیگر ممبران کی کاوشوں کو سراہا گیا- خصوصی داد و تحسین جانب تابش زیدی کے حصے میں آیا جنہوں نے اپنی انتھک کاوشوں سے اردو زبان کو  شارجہ چلڈرن ریڈنگ فیسٹیول کا ایک مستقل حصہ بنا دیا ہے اور بزمِ اُردو کے مقصد کی ادائیگی کو مہمیز کیا ہے۔ امید ہے کہ  بزم اردو، دبئی اپنی کوششوں سے اس خوبصورت زبان کی قدر اور وقار میں اضافہ   کرتی رہیگی  اور اردو سے محبت کرنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی رہیگی-