بڑا انسان،نامور لکھاری اوردلنشیں شخصیت
اشفاق احمد کی 17 ویں برسی پر خراج عقیدت
(لالہ رخ خان کے تحقیقی مقالے سے اقتباس)
تاریخ کے اوراق دہرائے جائیں تو یقینا ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اشفاق احمد کا نام الگ اہمیت کا حامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے اشفاق احمد کی خدمات بیش قیمت ہیں انہوں نے 1949ء کے لگ بھگ ریڈیو پاکستان کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اور دیکھتے دیکھتے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے”اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جس محنت، لگن اور محبت کے ساتھ اس نے افسانے لکھے اسی محنت اور لگن کے ساتھ ریڈیو کے لیے لکھا۔“)
ریڈیو کی دنیا میں اشفاق احمد کا لازوال شاہکار ”تلقین شاہ“ ہے جو 30 برس بعد بھی اسی طرح مقبول خاص و عام رہا جس طرح پہلے تھا۔ ”تلقین شاہ“ ریڈیو پاکستان کے آسمان پر ستارہ بن کرچمکتا رہا اور اشفاق احمد کے فن کو نکھار بخشتا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیچر کی کامیابی میں اشفاق احمد کی ادائیگی کا بہت عمل دخل ہے۔بقول ا ے حمید: ”جب تک تلقین شاہ کا فیچر ریڈیو پر نشر ہوتا رہتا لوگ ریڈیو سیٹ سے الگ نہیں ہوتے تھے۔ آج بھی جب ریڈیو پاکستان کے کسی سٹیشن سے یہ فیچر نشر ہوتا ہے تو اس کی تازگی اور شادابی روز اوّل کی طرح قائم و دائم رہتی ہے۔“ 1956ء میں اشفاق احمد نے باقاعدہ طور پر ”تلقین شاہ“ کا ہفتہ وارپروگرام شروع کیا۔یہ پروگرام دو کرداروں ”تلقین شاہ“ اور”ہدایت“ پر مشتمل تھا۔
”تلقین شاہ“ کی کامیابی ایک اوریجنل ادیب اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کی کامیابی تھی۔ اس فیچر میں اشفاق احمد کی باریک بین نظر اپنے معاشرے کے کرداروں کے روزمرہ معمولات کا گہرا مشاہدہ اور اس کی ہمدردی بھر ا طنز عروج پر ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ میں جو کردار تخلیق کیے وہ ہمارے معاشرے کے سچے کردار ہیں۔ تلقین شاہ کا فیچر سنتے ہوئے اور اس کے کرداروں کو بولتے ہوئے سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مختلف کرداروں کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ اشفاق احمد کے قلم اور ایک بھر پور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افسانہ نگار کے فن کا کمال ہے۔ اشفاق احمد نے تلقین شاہ محض ہنسی مذاق کے لیے نہیں لکھا بلکہ اس غرض سے لکھا کہ ہم اپنی خامیوں سے آگاہ ہوسکیں۔
اس طرح اپنے ریڈیائی فیچر ”ٹاہلی دے تھلے“ میں اشفاق احمد نے پاکستان کے دیہاتی افراد کی خوشیوں اور ان کے مختلف مسائل کی بڑی جامع تصویر کشی کی ”یہ پاکستانی معاشرے کی بڑی سچی تصویریں تھیں جو ریڈیو کے ذریعے ہمارے دل و دماغ میں نقش ہوتی چلی گئیں۔“(?) اپنے افسانوں کی طرح اشفاق احمد نے اپنی ریڈیائی تخلیقات کے ذریعے بھی ہمیں ہماری خامیوں اور خوبیوں سے آگاہ کیا۔
”یہ حقیقت ہے کہ اشفاق احمد نے ریڈیو اور ٹیلی وڑن کو اپنی اعلیٰ ترین ادبی تخلیقات دیں۔ ”تلقین شاہ“ ”ٹاہلی دے تھلے“ ”اچے برج لاہور دے“ او ر دوسرے کئی ریڈیائی فیچر اور ڈرامے۔ اگر ریڈیو پاکستان لاہور کی ادبی وراثت کا کوئی تذکرہ لکھا گیا تو اشفاق احمد کی تخلیقات کا شمار ریڈیو کے ادب عالیہ میں ہوگا۔“
اشفاق احمد نے ریڈیو کیلئے اصلاحی سکرپٹ بھی لکھے اور پرپیگنڈہ سکرپٹ بھی لکھے۔ لیکن کسی مقام پر بھی اْس نے ادب اور اسلوب ِ تحریر سے انحراف نہیں کیا۔ ہر انسان خواہ بنیادی طور پر وہ ادیب ہو، تخلیق کار ہو تو اس کی کوئی بھی تحریر ادبی دائرے سے باہر نہیں رکھی جا سکتی۔ ”اشفاق احمد ادب کے انشاپرداز اورتخلیق کار ہیں۔ وہ ریڈیو اور ٹیلی وڑن پر لکھنے سے پہلے اپنی ادبی تخلیقات کے ذریعے ادب میں نمایاں مقام حاصل کر چکے تھے۔“
اشفاق احمد کی شخصیت میں ایک کشش اور جاذبیت ہے۔ اْس کا ہر ریڈیائی سکرپٹ ایک مکمل اور مضبوط ادبی سکرپٹ ہوتا تھا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے لیے کئی دوسرے نامور ادیبوں نے بھی بہت کچھ لکھا مگر اشفاق احمد کے مقام تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ قدرت نے اشفاق احمد کو ادب تخلیق کرنے کیلئے بنایا تھا۔ اور جب کوئی صلاحیت اللہ کی طرف سے ملی ہوتو اس کا سرچشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا اور لکھنے والا بڑی بے ساختگی اور روانی سے لکھتا ہے۔ اشفاق احمد کا ریڈیو کا زمانہ ان کا اور ریڈیو دونوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ اشفاق احمد زندگی کی تمام تر توانائیوں سے بھر پور ایک زندہ دل، خوبصورت اور صحت مندسوچ رکھنے والے ادیب تھے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا برصغیر میں ایک اہم مقام بن چکا ہے۔”ریڈیو کیلئے وہ اسی یک سوئی اور لگن سے لکھتا جس طرح وہ نقوش یا ادب لطیف کیلئے کوئی افسانہ لکھتا تھا۔“ اشفاق احمد کے ریڈیو کے آرٹسٹوں کی ایک پوری ٹیم تھی جس کو انہوں نے پوری ٹریننگ دی ہوئی تھی۔ اس میں چند ایک تو اپنے زمانے کے مشہور ریڈیو آرٹسٹ تھے۔ مثال کے طور پر آفتاب احمد، مظہر حسینی، اور محمد حسین وغیرہ۔ لیکن جو نو آموز آرٹسٹ تھے وہ بھی اشفاق احمد کے زیر تربیت رہ کر بڑے مشاق آرٹسٹ ہو گئے تھے۔
اسی طرح اشفاق احمد کے پنجابی فیچر ”اچے برج لاہور دے“ نے بھی ریڈیو پر کامیابی کا لوہا منوایا۔ یہ فیچر لاہور شہر اور اسکے آس پاس کے دیہات کی سوشل زندگی کے روزمرہ مسائل کے بارے میں تھا۔ اشفاق احمد کے بعد کے پنجابی ریڈیائی ڈراموں اور فیچروں میں مزاح کا رنگ جگت بازی کی حد تک پہنچ گیا۔ مگر اشفاق احمد کا ہر سکرپٹ اس قسم کے مزاح سے پاک ہوتا تھا۔ اس کے پاس مزاج کے برخلاف طنز کے نشتر تھے۔ اس کا طنز آدمی کے دل پر اثر کرتا تھا۔ ریڈیو کے اردو ڈراموں میں اشفاق احمد نے اپنے ادبی معیار کو برقرار کھا۔”اس کے ریڈیو ڈرامے فنی اور ادبی اعتبار سے مکمل اور پختہ ہوتے تھے۔ حالانکہ اس زمانے میں اس کی عمر میں اتنی پختگی نہیں آئی تھی مگر یہ ان خداداد صلاحیتوں کا کمال تھا۔ اور خدادا دصلاحیتوں کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔“
جب ریڈیو پاکستان پر پرگراموں کی ریکارڈنگ ہونے لگی تو اس کے کچھ عرصے بعد اشفاق احمد نے اپنی کوٹھی میں ہی ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنالیا۔ یہ ان کا شوق تھا۔ وہ ”تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ اپنے گھریلو سٹوڈیو میں ہی کرتے اور پروگرام کا پور ا پیکج بنا کر ریڈیو پاکستان لاہور کودے دیتے تھے۔ چونکہ اشفاق احمد ریکارڈنگ وغیر ہ کے تمام تکنیکی شعبوں سے واقف تھے۔ اس لیے پروگرام کی ریکارڈنگ اورکوالٹی کبھی خراب نہیں ہوتی تھی۔ گھریلو سٹوڈیو میں وہ صرف اپنے فیچر ”تلقین شاہ“ کی ریکارڈنگ ہی کرتے تھے۔ ان کے اردو اور پنجابی کے مکمل دورانیے کے ڈرامے لاہور ریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیو میں ریکارڈ کیے جاتے تھے۔ لاہورٹیلی وڑن اسٹیشن ٹائم ہونے سے پہلے ہی اشفاق احمد نے ریڈیو کے واسطے اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا اور ان کے ریڈیا ئی فیچر اور ڈرامے سن کر ایسا لگتا تھا جیسے اس کے ریڈیائی سکرپٹس میں اس کے افسانوں کے کردار بو ل رہے ہوں۔
٭٭٭
اور بقول اے حمید: ”افسانوں کا سچا اور طاقتور ماحول نظر آتا تھا۔ چارپائیاں مرمت کرنے والوں سے لے کر کوٹھیوں کے پچھلے برآمدوں میں بٹھائے ہوئے پرانی وضع کے بات بات پرتنقید کرنے والے بوڑھے ملتے تھے۔“
٭٭٭