نیب ترامیم بحال
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا، پانچ رکنی لارجر بینچ نے ان ترامیم کو متفقہ طور پر درست قرار دیتے ہوئے بحال کر دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ شامل تھے۔ انٹرا کورٹ اپیلوں پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے16صفحات پر مشتمل اِس فیصلے کو خود تحریر کیا۔فیصلے کے مطابق سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور مستعفی جج اعجاز الاحسن کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار پایا اور ترامیم کو متفقہ طور پر بحال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اِس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس اور جج پارلیمنٹ کے لیے گیٹ کیپر نہیں ہوسکتے،پارلیمان اور عدلیہ کا آئین میں اپنا اپنا کردار واضح ہے، آئینی اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دیا جانا چاہیے لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خلافِ آئین قانون سازی کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا۔ نیب قانون سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے زبردستی اقتدار میں آنے کے34 دن بعد بنایا،اُنہوں نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینک دیا اور اپنے لیے قانون سازی کی، ڈکٹیٹر نے اعلیٰ عدلیہ کے اُن ججوں کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توثیق نہیں کی تھی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشرف دور میں بنائے گئے قانون کے دیباچے میں لکھا گیا کہ نیب قانون کا مقصد کرپشن کا سد ِباب ہے لیکن جن سیاستدانوں یا سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اُنہیں بری کر دیا گیا،نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں سے سیاسی انتقام یا سیاسی انجینئرنگ تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کو قانون سازی کو ختم کرنے کے بجائے اُسے بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں،موجودہ مقدمے میں نیب ترامیم کے غیر آئینی ہونے پر بینچ کو قائل نہیں کیا جا سکا، بہت سی ترامیم کے معمار عمران خان نیازی خود تھے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی کی درخواست نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے، وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم خلافِ آئین تھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اگرچہ بینچ کے فیصلے سے اتفاق کیا تاہم ایک اضافی نوٹ بھی تحریر کیا کہ وفاقی حکومت کی اپیل قابل ِ سماعت نہیں ہے کیونکہ اِس کا استحقاق ہی نہیں تھا کہ وہ انٹرا کورٹ اپیل دائر کرے، اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے اِس لیے پرائیویٹ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق لیکن وجوہات سے اختلاف کیا ہے جو وہ بعدازاں الگ سے تحریر کریں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دورِ حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں، نیب قوانین کے مختلف سیکشنوں میں ترامیم کی گئی تھیں جن کے خلاف بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے گزشتہ سال ستمبر میں کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جسے چند روز بعد سنایا گیا۔اِس اکثریتی فیصلے میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی گئی تھیں۔ نیب قانون میں کی جانے والی ترامیم قومی احتساب آرڈیننس 1999ء سے نافذ العمل تھیں، اِن کے ذریعے بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا، نیب کا دائر کار 50 کروڑ سے کم مالیت کے بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات سے ختم کر دیا گیا تھا جبکہ نیب دھوکہ دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات بھی تب ہی کر سکتا تھا کہ جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو۔ نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ ادارہ ملزم کا زیادہ سے زیادہ 40 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے جبکہ نیب وفاقی،صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا جبکہ ریگولیٹری ادارے بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیے گئے تھے۔ ترامیم کے مطابق افراد یا لین دین سے متعلق زیر التواء پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائل یا دیگر کارروائیاں قانون کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔ اِن ترامیم کے تحت چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت چار سال سے کم کر کے تین سال کر دی گئی تھی جبکہ یہ بھی طے کر دیا گیا تھا کہ نئے چیئرمین کی تقرری تک ڈپٹی چیئرمین قائم مقام چیئرمین کے طور پر کام کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اِن ترامیم کی بحالی سے بھلے ہی کئی سیاستدان، بیورو کریٹس، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان سمیت کاروباری اور دیگر افراد مستفید ہوں گے تاہم اِس کا سب سے زیادہ فائدہ بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ کو ملنے کا امکان ہے۔نیب ترامیم کے حوالے سے فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈزریفرنس میں بریت کی درخواست بھی دائر کردی ہے۔ اُن کے وکیل کے مطابق اب یہ 190ملین پاؤنڈز کا کیس بنتا ہی نہیں ہے، نیب ترامیم میں کابینہ کے تمام فیصلوں کو تحفظ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں چیف جسٹس نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ آئینی ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں،ایک دوسرے کے فیصلوں کو تسلیم کریں، عدالتیں مقننہ کی طرف سے کی گئی قانون سازی پر انتہائی محتاط رویہ اپنائیں اور صرف اُسی صورت میں فیصلوں کو رَد کریں کہ جب عدالت کو یہ یقین ہو کہ قانون سازی میں آئین اور قانون کی واضح خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاسی بنیادوں پر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں اور مقدمات بھی نہیں بنائے جانا چاہئیں کیونکہ اِس سے خرابی بڑھنے کی اُمید تو ہو سکتی ہے معاملات کے حل کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ چیف جسٹس پارلیمان کی تکریم کا سبق دہرا رہے ہیں اور سیاستدانوں کو اِسے پڑھنے کی خاصی ضرورت ہے۔ اہل ِ سیاست پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خوش اسلوبی سے نبھائیں، سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے، الزامات لگانے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے پرہیز کریں تاکہ کوئی اور ان کے نفاق کا فائدہ نہ اُٹھا سکے۔ بہتر ہو گا کہ اہل ِ سیاست اپنے گریبانوں میں جھانکیں،اپنا قبلہ درست کریں اور وہ کام کریں جس کے لیے عوام نے اُنہیں منتخب کر کے پارلیمان میں پہنچایا ہے۔