سیر و تفریح اور مقدس مقامات کی زیارات کرتے ہم بالآخر ترکی سے ایرانی بارڈر پہنچے، پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر ایرانی حکام نے خشک مزاجی ختم کردی 

سیر و تفریح اور مقدس مقامات کی زیارات کرتے ہم بالآخر ترکی سے ایرانی بارڈر ...
 سیر و تفریح اور مقدس مقامات کی زیارات کرتے ہم بالآخر ترکی سے ایرانی بارڈر پہنچے، پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر ایرانی حکام نے خشک مزاجی ختم کردی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:17
اس کے علاوہ لاہور شہر اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں کوڑا کرکٹ کی ویسٹ ایج کو باقاعدہ منصوبے کے تحت اکٹھا کرنے اور ری سائیکل کرنے کے لیے بھی کمپنی بنائی گئی ہے۔ ترک شہروں میں صفائی ستھرائی کا جو اعلیٰ معیار رکھا گیا ہے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چاہتے ہیں کہ یہی معیار لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی شروع کیا جائے۔ اس کے لیے وہ لاہور میں کام کا آغاز کر چکے ہیں اور دیگر شہروں میں بھی اس انداز میں کمپنیاں کام شروع کر چکی ہیں یا کر دیں گی۔ اس سے پورے صوبہ کے بڑے شہروں میں کچرے اور کوڑے کے جو ڈھیر نظر آ رہے ہیں ختم ہو جائیں گے اور اس کوڑے اور کچرے سے بھی کوئی تعمیری کام لیا جا سکے گا۔
لاہور شہر کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں متعدد بدبودار گندے نالے تھے ان نالوں میں شہر کی مختلف آبادیوں سے سیوریج کا پانی ڈالا جا رہا ہے اور یہ نالے انسانی آبادیوں میں بدبو اور زہریلے مچھروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ترک ماہرین نے ان نالوں کا بغورمطالعہ کر کے ان کے لیے بھی ایک مؤثر علاج تجویز کیا ہے جس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ بہت سے بلدیاتی امور کے لئے ترک دوستوں کی مشاورت کام آ رہی ہے۔ پاکستان کے شہری اُمید کرتے ہیں کہ ہمارے حکمران اس سلسلہ میں ترک دوستوں کے بہترین مشوروں سے مناسب فائدہ اٹھائیں گے۔ پاکستان کے شہروں میں بھی اعلیٰ درجہ کی صفائی اور بہترین حفظان صحت کے ماحول کی ضرورت ہے۔
ایران آمد
ترکی میں کئی دن قیام کرنے اور مختلف شہروں کی سیر و تفریح کرتے اور مقدس مقامات کی زیارات کرتے ہوئے ہم بالآخر ترکی سے روانہ ہوئے اور ایرانی بارڈر پر پہنچے۔ یہاں ترکی اور ایران کا ایک بڑا شہر تھا جہاں واہگہ باڈر…… لاہور کی طرح ترکی سے ایران میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ ہم لوگ جب یہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایرانی حکام کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ ہماری گاڑی کو ایک طرف کھڑا کر دیا گیا۔ اس زمانہ میں شاہ ایران کا دور دورہ تھا اور ہم جانتے تھے کہ پاکستان اور ایران دونوں دوست ممالک ہیں مگر ہمیں ایک دوست نے بتایا تھا کہ ترکی سے آنے والوں کے ساتھ ایرانی بڑی سردمہری سے پیش آتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ مراسم ہونے کے باوجود ایک کھچاؤ سا ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ ترکی سے آنے والوں کے ساتھ ایرانی حکام بڑی خشک مزاجی سے پیش آ رہے ہیں۔ اس پر میں اپنا پاسپورٹ لے کر ایرانی حکام کے پاس گیا اور اُنہیں بتایا کہ ہم انگلینڈ سے آ رہے ہیں۔ پاکستان جانا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر ایرانی حکام نے خشک مزاج اور سردمہری ختم کرتے ہوئے مسکرا کر پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو۔ اس پر میں نے اُنہیں بتایا کہ ہم لوگ اس گاڑی پر ہیں اور بائی روڈ پاکستان جا رہے ہیں۔ اس پر وہاں چند مزید ایرانی حکام بھی آ گئے اور انہوں نے خوش آمدید…… پاکستانی برادرز…… کہا اور ہمارے کاغذات پاسپورٹ اور گاڑی کے کاغذات وغیرہ چیک کیے اور پھر انہوں نے گاڑی کی تلاشی لیتے ہوئے مکمل چیک اپ کیا…… اور اس کے بعد انہوں نے ہمیں ایک نقشہ دیا کہ اس کے مطابق اس سڑک پر آپ نے سفر کرنا ہے جو کہ آپ کو سیدھا پاکستانی بارڈر پر لے جائے گی۔ ایران میں داخلے کے بعد ہم نے سب سے پہلے ایک مناسب سا ہوٹل تلاش کیا جہاں ہم نے رات بسر کی اور صبح کی نماز کے بعد ہم لوگ ناشتہ وغیرہ کر کے سفر کے لئے روانہ ہو گئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -