بے حس ٹک ٹاکر افسر

ایک وقت تھا جب بیوروکریٹ اپنی کارکردگی خود نہیں بتاتے تھے ان کی کارکردگی نظر آتی تھی یا عوام بتاتے تھے، مگر اب وہ سیلاب زدگان میں دو دو سرکاری روٹیاں بانٹتے اس کی فلم بنواتے، ایک ایکٹر کی طرح بولتے اور شارٹ ادا کرنے کو اپنی کارکردگی سمجھتے ہیں، سول اور پولیس افسر عام جگہوں اور کھلی کچہریوں میں ماتحتوں کو ڈانٹنے بلکہ ذلیل کرنے کی ویڈیوز وائرل کرتے ہیں اور بعد میں دوسرے ضلعوں کے اپنے کو لیگز سے فخریہ کہتے ہیں کہ یار کھلی کچہری میں ایک ایس ایچ او کی کلاس لینے والی ویڈیو کو اتنے ہزار لوگوں نے دیکھا مزہ آ گیا، ان کو اب افسر کم ٹک ٹاکر کہا جا سکتا ہے،پنجاب میں پولیس کی طرف سے شروع ہونے والا یہ بے حس،دوسروں کو بے عزت کرنیوالا، سیلف پروموشن کلچر اب ہر محکمے میں پھیل نہیں سرائیت کر چکا ہے، ان ٹک ٹاکر افسروں کی فلمیں، کلپ اور سوشل میڈیا پر سرگرمیاں دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی فلم کا کوئی سین چل رہا ہے، اب پولیس اور سول افسروں کے درمیان کارکردگی کی بجائے ٹک ٹاک مقابلے ہو رہے ہیں،کیا پی اے ایس،کیا پولیس اور کیا ہماری پی ایم ایس۔ مظفرگڑھ کے ڈپٹی کمشنر عثمان جپہ نے تو ٹک ٹاکر کارکردگی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے،اپنی لہراتی ہوئی ٹائی،نازک سے سن گلاسز اور پینٹ کوٹ کے ساتھ ان کی آنیاں جانیاں کمال ہیں، کسی سیلاب زدہ کا پرانا ٹرنک اٹھانا، بھینسوں کو پانی سے نکالنے کی قیادت کرنا اور پھر ایک خاتون کو وزیراعلیٰ مریم نواز کا فوڈ باکس دینا اور اس باکس کی روٹیوں تک کی تفصیل بتانے کی ان کی ویڈیوز نے احمد محی الدین نامی ایک ڈی پی او کو پیچھے نہیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے،میانوالی کے ڈی سی اسد عباس مگسی کی سیلاب زدگان کی مدد کرتے ایسی تصویر سامنے آئی جس میں ان کی افسرانہ اکڑ کھل کر سامنے آ رہی تھی، اللہ کی پناہ، ہماری کچھ خواتین پولیس افسروں کے میں نام نہیں لکھنا چاہتا، مگر وہ بھی فلمی ہیرؤینوں سے کم نہیں ہیں، انہیں اپنی صنف اور سروس کا کچھ تو خیال کرنا چاہئے، حکومتی سرگرمیوں کی پروموشن ایک سیاسی وزیراعلیٰ کا تو حق ہے مگر ان کے وزیر،مشیر اور افسر اب انہیں پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
ایک طرف چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان، بڑے سلجھے ہوئے مدبرانہ انداز میں وزیراعلیٰ کے ساتھ کسی ٹائی اور سوٹ بوٹ سے بے نیاز سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف چند ٹک ٹاکر افسر سیلاب میں بابو بنے بیو رو کریسی کا نام ڈبونے کی پوری کوشش کر رہے ہیں،اس وقت پنجاب میں 13کے قریب ڈپٹی کمشنرز اپنی ان حرکات یا ڈلیور نہ کرنے کی وجہ سے ریڈ لائن ہو چکے ہیں،جنہیں سیلاب کی صورتحال میں بہتری کے بعد ضلعوں سے فارغ کر دیا جائے گا،اسی طرح اچھے افسروں کو شاباش بھی مل رہی ہے،کمشنر لاہورمریم خان نے لاہور کا چارج لینے کے بعد سیلاب کی صورتحال میں اضلاع کے دوروں کے ساتھ ساتھ لاہور کی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے،جس کی وجہ سے مختلف محکموں میں پریشانی دیکھی جا سکتی ہے،سیلابی صورتحال میں ریلیف کے بعد کمشنر لاہور کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لئے کام ہونا چاہئے، لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے بارشوں اور سیلابی صورتحال میں مثالی کام کیا ہے اس کے سی ای او،بابر صاحب دین گڈ بکس میں ہیں،کمشنر فیصل آباد راجہ جہانگیر، کمشنر ملتان عامر کریم خان،کمشنر ساہیوال ڈاکٹر آصف طفیل کی کارکردگی کو بھی سراہا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت ریلیف سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ابھی تک سیلاب اور بارشوں سے نمٹنے میں بھی مصروف ہے، ہمارے جیسے ملکوں میں حکومتوں کے پاس وزراء اور مشیروں کے اعزازیے اور تنخواہیں بڑھانے کے لئے وافر رقم ہوتی ہے، مگر مشکلوں میں گھرے عوام کی بحالی کے لئے وسائل محدود ہو جاتے ہیں،ان سب سے بڑھ کر اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ہمارے ٹک ٹاکر افسر اس ڈھٹائی سے فلمیں اپ لوڈ کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر شرم آتی ہے۔
سیلاب نے لاکھوں لوگوں کے خواب، روزگار، رہائش اور بنیادی سہولیات سب کچھ پانی میں بہا دیئے ہیں، قدرتی آفات ہمیشہ انسانی معاشروں پر گہرا اثر ڈالتی ہیں، لیکن جب آفات کے ساتھ انتظامی بے حسی بھی شامل ہو جائے تو یہ زخم گہرے اور تکلیف دہ بن جاتے ہیں۔ اس بار بھی پنجاب کے عوام ایک ایسی ہی کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں،گاؤں کے گاؤں پانی میں ڈوب گئے ہیں، مویشی بہہ گئے، کھیت اور فصلیں تباہ ہو گئیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر خیموں میں پڑے ہیں، ان میں بچے، عورتیں، بوڑھے ہیں جو رونا چاہتے ہیں مگر رو نہیں سکتے،کیونکہ ان کے آنسوؤں کی قیمت لگانے والا کوئی نہیں،جن افسروں نے ان کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے، وہ عوامی خدمت میں نہیں،بلکہ کسی ڈرامائی فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہیں، ان مناظر کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خدمت ہے یا محض نمائش؟ عوامی خدمت کا اصل مقصد دکھاوا نہیں،بلکہ عملی اقدامات ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارے کچھ سرکاری افسروں کے لئے یہ آفت بھی اپنی سوشل میڈیا شہرت بڑھانے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔
سیلاب زدگان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی لاشیں پانی سے نکال رہے ہیں، بیمار بچے دوائی کے بغیر تڑپ رہے ہیں، حاملہ خواتین سڑکوں پر علاج کو ترس رہی ہیں، اور معمر افراد بھوک اور پیاس کے عالم میں بے بس بیٹھے ہیں،ایسے میں جن سرکاری افسروں کو فوری امداد پہنچانی چاہئے،وہ صرف دو کلو آٹا یا کچھ پانی کی بوتلیں لے کر ویڈیو بناتے ہیں اور پھر روانہ ہو جاتے ہیں، ان کا اصل مقصد مدد نہیں بلکہ اپنا“امیج“ بہتر کرنا ہوتا ہے، یہ رویہ نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ ریاستی مشینری کے اخلاقی دیوالیہ پن کی کھلی علامت بھی ہے۔جب عوام دیکھتے ہیں کہ جن پر انہوں نے اپنے ٹیکسوں کی کمائی اور اپنے مستقبل کی حفاظت کا اعتماد کیا تھا، وہ محض تماشہ بناتے ہیں، تو ان کے دِلوں میں نفرت اور بیزاری پیدا ہونا فطری ہے، پنجاب کی بیوروکریسی کو ہمیشہ ایک منظم اور بااختیار قوت سمجھا جاتا رہا ہے، مگر ان ”ٹک ٹاکر افسروں“ نے یہ تاثر بھی مجروح کر دیا ہے، عوام اب یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں کہ اگر یہ افسر صرف ویڈیوز بنانے کیلئے ہیں، تو پھر ریلیف کا حقیقی کام کون کرے گا؟
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ لوگ ان ”ٹک ٹاکر افسروں“ کو پسند کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز کو پھیلاتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ رویہ معاشرتی زوال کی ایک بڑی نشانی ہے، یہ صورتحال صرف چند افسروں کی بدسلوکی کا معاملہ نہیں،بلکہ یہ ہمارے قومی ضمیر کے لئے بھی سوال ہے، کیا ہم نے اپنی ریاستی مشینری کو اس لئے طاقتور بنایا تھا کہ وہ عوامی خدمت کے بجائے نمائش کرے؟ پنجاب کے موجودہ سیلاب نے جہاں عوام کو بے حد نقصان پہنچایا ہے،وہاں اس نے سرکاری مشینری کے اصل چہرے کو بھی بے نقاب کر دیا ہے، یہ وقت ہے کہ حکومت ان ”ٹک ٹاکر افسروں“ کے رویے کا سخت نوٹس لے۔
٭٭٭٭٭
.