خاندانِ خلجی۔۔۔۔۔۔(1290ءسے 1320ءتک)

خاندانِ خلجی۔۔۔۔۔۔(1290ءسے 1320ءتک)
خاندانِ خلجی۔۔۔۔۔۔(1290ءسے 1320ءتک)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : ای مارسڈن 
30برس کے عرصے میں خلجی خاندان کے4 بادشاہ تخت پر بیٹھے۔ یہ نسل کے افغان تھے مگر چونکہ ترکستان سے آئے تھے، ترکی زبان بولتے تھے۔ ان کے عہد میں مسلمان دکن میں بھی پہنچ گئے۔ اس خاندان کا پہلا بادشاہ جلال الدین تھا۔ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر 70 سال کی تھی۔ یہ دوست دشمن سب کے ساتھ نرمی سے پیش آتا تھا۔ جلال الدین اپنے بھتیجے علاﺅالدین پر بڑا اعتماد کرتا تھا اور اس کو بیٹوں کی طرح چاہتا تھا۔ علاﺅالدین فوج لے کر دکن میں پہنچا جہاں اب تک کوئی افغان نہیں گیا تھا۔ یہ بندھیا چل پہاڑ میں 700 میل کا سفر طے کر کے 8 ہزار کی جمعیت کے ساتھ دیوگری میں پہنچا، جسے اب دولت آباد کہتے ہیں اور جو مرہٹہ دیس کے راجہ رام دیو کا پایہ تخت تھا۔ علاﺅ الدین سب سے کہتا تھا کہ میرا چچا مجھے مارنے کے درپے ہے۔ میں اس سے جان بچا کر ادھر بھاگ آیا ہوں۔ اس لیے کسی راجپوت راجہ نے اس پر حملہ نہ کیا اور بے خبری میں اس نے دیوگری کو آن دبایا۔ راجہ نے اس کو بہت سا زر و جواہر دیا اور کچھ حصہ ملک کا بھی اس کی نذر کیا۔ اب علاﺅ الدین دہلی واپس چلا گیا۔ بڈھے چچا نے جب اس مہم کا حال سنا تو بڑا خوش ہوا اور تن تنہا علاﺅالدین کے استقبال کےلئے آیا۔ چچا علاﺅ الدین کو چھاتی سے لگاتا تھا کہ بھتیجے نے خنجر سے قتل کیا اور اس کا سر کاٹ کر اور برچھی پر چڑھا کر تمام لشکر میں پھرایا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ جلال الدین مر گیا۔ اس کرتوت کے بعد علاﺅ الدین دہلی میں داخل ہوا۔ یہاں جلال الدین کے 2 بیٹوں کو قتل کیا اور خود بادشاہ بن گیا۔ جس وقت جلال الدین علاﺅالدین کے ہاتھ سے مارا گیا اس وقت اس کو سلطنت کرتے ہوئے 7 سال ہوئے تھے۔
 علاﺅ الدین نے 1295ءسے 1315ءتک سلطنت کی۔ یہ بے رحم تھا۔ ارادے کا پکا اور دل کا سخت تھا۔ خلجی بادشاہوں میں سب سے زبردست یہی تھا۔ جتنا مال و دولت دکن سے لایا تھا۔ وہ سب اوروں کو دے دلا دیا تاکہ وہ جلال الدین کے قتل کا ماجرا بھول جائیں اور یہ اپنی سلطنت کو مستحکم کرے۔ گجرات کے لوگوں نے جن کو غوری بادشاہوں نے مطیع کیا تھا۔ علاﺅالدین کے عہد سے بہت پہلے پٹھان بادشاہوں کو نکال باہر کیا تھا اور ایک راجپوت کو اپنا راجہ بنا لیا تھا۔ علاﺅالدین نے اپنے بھائی الف خاں کو بہت سی فوج دے کر اس طرف روانہ کیا اور الف خاں نے دوبارہ اس ملک کو مسلمانوں کی قلمرو میں شامل کیا۔ راجہ کی رانی کملا دیوی جو حسن و جمال اور عقل و فراست میں شہرہ¿ آفاق تھی۔ نظر بند ہو کر دہلی گئی اور یہاں علاﺅ الدین نے اسے نکاح میں لا کر اپنے حرم میں داخل کیا۔ اس کے بعد علاﺅ الدین کو مغلوں کا سامنا ہوا۔ 5مرتبہ مغل پنجاب میں آئے اور ایک دفعہ دہلی تک بھی جا پہنچے۔ آخر کار مغل پسپا ہوئے۔ ان میں سے جو پیچھے رہے وہ مسلمان ہو گئے اور یہیں رہنے سہنے لگے۔
 اس کے بعد علاﺅالدین نے شمالی ہند کے راجپوت راجاﺅں کو زیر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے بہت سے گڑھ اور قلعے لے لیے۔ اس وقت بھیم سنگھ چتوڑ میں راج کرتا تھا۔ اس کی رانی پدمنی حسن کی مجسم تصویر تھی۔ علاﺅالدین نے جب اس کی شہرت سنی تو فوراً اس کو اپنے نکاح میں لانے کی جی میں ٹھان لی۔ ایک بڑے بھاری لشکر کے ساتھ چتوڑ پر حملہ کیا۔ کئی مہینے علاﺅالدین قلعے کے سامنے پڑا رہا مگر اسے لے نہ سکا۔ اب اس نے بھیم سنگھ سے کہا کہ میں ایک نظر پدمنی کو دیکھنا چاہتا ہوں اگر ایک بار اس کا منہ دکھا دو تو مع لشکر یہاں سے چلا جاﺅں گا۔ اول اول تو بھیم سنگھ نے اس بات کو منظور نہ کیا مگر آخرکار یہ بات قرار پائی کہ رانی اپنے محل میں پردے کے پیچھے بیٹھ جائے، سامنے ایک آئینہ رکھ دیا جائے اور بادشاہ آئینے میں اس کا عکس دیکھ لے۔ چنانچہ علاﺅالدین چتوڑ گڑھ میں گیا اور آئینے میں رانی کا عکس ملاحظہ کیا۔ واپسی کے وقت بھیم سنگھ اسے چھوڑنے کےلئے اس کے ڈیروں تک چلا گیا۔ اس وقت علاﺅ الدین نے بھیم سنگھ کو گرفتار کر لیا اور کہا کہ جب تک پدمنی مجھ سے شادی نہ کرے گی۔ تمہاری رہائی نہ ہوگی۔ رانی نے دیکھا کہ راجہ کی رہائی کی کوئی صورت نہیں، سوائے اس کے کہ حیلے سے کام لے اور بادشاہ سے کہلا بھیجے کہ مجھے کچھ عذر نہیں ہے اور میں آتی ہوں۔ ایک ڈولے میں آپ سوار ہوئی اور 700 ڈولے اور ساتھ ہوئے اور سب شاہی خیموں کی طرف چلے۔ بیان تو یہ کیا گیا کہ ان 700 ڈولوں میں رانی کی 700 سہیلیاں ہیں مگر دراصل ہر ڈولے میں ایک ایک راجپوت سورما ہتھیار بند سوار تھا بلکہ جو لوگ کہاروں کی طرح ڈولوں کو اٹھائے لیے جا رہے تھے۔ وہ بھی لڑاکا سپاہی تھے۔ جب ڈولے بادشاہ کے ڈیروں میں پہنچے تو علاﺅالدین نے چاہا کہ بھیم سنگھ اور پدمنی دونوں کو نہ جانے دے۔ اتنے میں راجپوت سورما تلواریںسونت کر اپنے اپنے ڈولوں سے باہر کود پڑے اور بھیم سنگھ اور پدمنی کو گھوڑے پر سوار کرا کر لڑتے بھڑتے تلواروں کی چھاﺅں میں چتوڑ گڑھ میں لے گھسے۔ بادشاہ منہ تکتا رہ گیا۔ اس دفعہ تو اسے ناکام واپس جانا پڑا، مگر برس دو برس بعد پہلے سے بھی بھاری اور جرار لشکر لے کر پھر آیا اس دفعہ راجپوت اس کے مقابلے پر ٹھہر نہ سکے۔ جب بہت سے راجپوت کٹ کٹ کر مر چکے اور کوئی صورت قلعے کے بچاﺅ کی نہ رہی تو پدمنی 13 ہزار باحیا راجپوتنیوں کے ساتھ زندہ جل کر خاک ہوئی۔ مرد جو بچے، تلواریں پکڑ کر قلعے سے نکلے اور داد مردانگی دے کر ایک ایک کر کے غنیم کے ہاتھ سے کٹ مرے۔ یہ کل واقعہ 1303ءکا ہے۔
اس کے بعد علاﺅ الدین جیسلمیر پہنچا اور8 مہینے کے محاصرے کے بعد جیسلمیر کا قلعہ بھی فتح ہوا۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہوا جو پہلے چتوڑ گڑھ پر ہو چکا تھا۔ یعنی 4 ہزار راجپوتنیاں زیور اور لباس پہن کر آگ میں کود پڑیں اور جل کر خاک سیاہ ہوگئیں اور مردوں نے بڑھ بڑھ کر تلوار کے ہاتھ مارے اور دشمنوں کے ہاتھ سے کٹ کٹ کر مرے۔ راجپوتوں کی اصطلاح میں اس طرح پر جان دینے کو جوہر کہتے ہیں۔جب علاﺅالدین راجپوتوں پر غالب آ گیا اور گجرات اور راجپوتانے کے اچھے اچھے شہر لے چکا تو دکن کی فتح کےلئے چلا۔(جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -