زچگی کے دوران اموات
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے بین الاقوامی اور قومی شراکت داروں سے پاکستان میں زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کو کم کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی اپیل کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صحت کے عالمی دن کے موقع پر عالمی ادارہ صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان میں ہر روز 27 مائیں اور ایک ماہ سے کم عمر کے 675 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر سال قریباً 10 ہزار مائیں اور ڈھائی لاکھ نوزائیدہ بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے کا کہنا تھا کہ زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کا خاتمہ ممکن بنانے کے لئے کوششوں کو تقویت دی جائے تو اِس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت اِس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے،ایک ماں یا نوزائیدہ بچے کی موت بہت بڑا نقصان ہے، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت پر خرچ کرنا لاگت نہیں بلکہ انسانی اثاثہ جات میں سرمایہ کاری ہے جس سے معاشی ترقی، خوشحال اور صحت مند معاشرے پیدا ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی اداروں نے صحت کے عالمی دن کے موقع پر”زچگی کی شرح اموات میں رجحانات“ کے عنوان سے ایک مشترکہ رپورٹ بھی جاری کی جس میں متنبہ کیا گیا کہ زچہ اور بچہ کے لئے دی جانے والی امداد میں کٹوتی سے زچگی کے دوران ہونے والی اموات کے خاتمے میں اب تک کی جانے والی پیشرفت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ فوری اقدامات کے بغیر متعدد ممالک میں حاملہ خواتین کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یونیسیف، یو این ایف پی اے، ورلڈ بینک گروپ، ڈبلیو ایچ او اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے اِس مشترکہ رپورٹ میں مزید کہا کہ اب تک کی کوششوں سے خواتین کے حمل اور زچگی سے بچنے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں تاہم دنیا بھر میں اِس سے متعلق امداد میں غیر معمولی کٹوتی بڑے پیمانے پر مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔اِس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اب تک کی کوششوں سے 2000ء سے 2023ء کے درمیان زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں 40 فیصد کمی آئی ہے جس کی بڑی وجہ ضروری صحت کی خدمات تک بہتر رسائی ہے تاہم کٹوتی کی وجہ سے 2016ء کے بعد سے بہتری کی رفتار نمایاں طور پر سست ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انسانی امداد میں کٹوتی سے دنیا کے بہت سے حصوں میں ضروری صحت کی دیکھ بھال پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اِن کٹوتیوں کی وجہ سے صحت کی سہولیات بند ہو گئی ہیں اور ہیلتھ ورکرز کو نقصان ہو رہا ہے جبکہ زندگی بچانے والی اشیاء اور خون بہنے، پری ایکلیمپسیا اور ملیریا کے علاج جیسی ادویات کی سپلائی چین میں بھی خلل پڑا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار خاصے تشویش ناک ہیں، ہر روز اتنی ماؤں اور بچوں کا موت کے منہ میں چلے جانا کوئی عام بات نہیں ہے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بہت سی وجوہات ہیں جن کی طرف خاص توجہ نہیں دی جاتی،جب کوئی بھی لڑکی ماں بننے والی ہوتی ہے تو اسے معیاری خوراک اور ادویات کی ضرورت ہوتی ہے جسے یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، غربت تو ایک مسئلہ ہے ہی لیکن بہت سے سماجی و ثقافتی عوامل ایک رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ کم عمری کی شادی اور زچگی ہے، چھوٹی عمر میں ہی بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے، ان کا بچپن پوری طرح رخصت نہیں ہوتا کہ ان پر گھر کی ذمہ داریاں لاد دی جاتی ہیں، بعض اوقات اپنے سے کئی سال بڑے شوہر ان کی قسمت میں لکھ دیئے جاتے ہیں، شادی ہوتے ہی بچہ پیدا کرنے کا دباؤ شروع ہو جاتا ہے جس سے اُس کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔قابل ِ فکر بات یہ ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اُن ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں کم عمری کی شادیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستان میں سندھ کے جیکب آباد اور کشمور وہ اضلاع ہیں جہاں سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں ریکارڈ کی گئیں جبکہ جیکب آباد میں تو 15 سال کی عمر سے پہلے ہی سے شادی کر دینے کا رواج عام ہے۔قانون تو موجود ہے لیکن اِس کی پاسداری کہیں دکھائی نہیں دیتی،پاکستان کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929ء کے مطابق لڑکوں کے لئے شادی کی قانونی عمر 18 سال اور لڑکیوں کے لئے 16 سال ہے،یہ وفاقی قانون ہے لیکن 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی موضوع بن چکا ہے۔ اپریل 2014ء میں سندھ اسمبلی نے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ منظور کیا، جس میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے کم از کم عمر 18سال کر دی گئی تھی۔پنجاب حکومت نے 2015ء میں اِس ایکٹ میں ترمیم کی، شادی کی عمر میں تبدیلی نہیں کی لیکن اِس قانون کی خلاف ورزی صورت میں چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کی سزا مقرر کر دی، مزید یہ کہ جو شخص بچیوں کی شادی میں مدد فراہم کرے حتیٰ کہ والدین، سرپرست، نکاح خواں اور نکاح رجسٹرار بھی اِس جرم میں معاونت کرنے والے ہوں تواُنہیں بھی یہی سزا دی جائے گی۔ حکومت ِ پنجاب نے گزشتہ ماہ آغوش پروگرام شروع کیا جس کے تحت نومولود بچوں کی ماؤں اور حاملہ خواتین کو 23 ہزار دیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا میں 2012ء میں عوامی نیشنل پارٹی نے اِس حوالے سے پہلی بارایک پرائیویٹ بل پیش کیا تھا، مختلف ادوار میں اِس حوالے سے کئی بار کوشش کی گئی لیکن ابھی تک خاص کامیابی نہیں ہوئی۔بلوچستان میں کم عمری کی شادی کو کالعدم قرار دینے کے لئے بلوچستان چائلڈ میرج پروہیبیشن ایکٹ کے نام سے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا گیا تھا تاہم وہ بھی تاحال زیرِ التواء ہے۔
ماں بننا عورت کی زندگی کا سب سے مشکل دور ہوتا ہے،کہا جاتا ہے کہ ایک طرح سے اُسے نئی زندگی ملتی ہے،ایسے میں اُس کو معیاری خوراک اور ضروری ادویات کی فراہمی اُس کے گھر والوں اور خاندان کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس کہ اب بھی بہت سے علاقوں اور جگہوں پر عورت کو اس کا جائز مقام دینے پر یقین نہیں ہے،اُسے باور کرایا جاتا ہے کہ بچہ پیدا کرنا کون سا بہت بڑا کام ہے، یہ تو ہر عورت کرتی ہے، اُسے کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی جاتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے اور ماں دونوں کی ہی جان داؤ پر لگ جاتی ہے، بہت سی جگہوں پرخواتین کو ہسپتالوں کے بجائے گھروں میں دائیوں کے ہاتھوں بچے کو جنم دینا پڑتا ہے اور اِس کے بسا اوقات سنگین نتائج بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔اِس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے، گھٹن پیدا کرنے والی سماجی روایات بدلنے کی ضرورت ہے۔حکومت بھی اِس حوالے سے فوری اقدامات کرے، لڑکی اور لڑکے دونوں کے لئے شادی کی عمر18سال مقرر ہونی چاہئے اور اِس قانون پر سختی سے عملدرآمد بھی کرانا چاہئے۔ یہ سمجھنا لازم ہے کہ یہ صرف ماں اور بچے کی زندگی اور موت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اِن سے جڑے ہر فرد کا مسئلہ ہے یعنی پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔