مسلح اور غیر مسلح ڈرون
کل دورانِ گفتگو ایک دوست نے سوال کیا کہ مستقبل کا سب سے بڑا اور مہلک ہتھیار کون سا ہے تو میں نے جواب دیا کہ مسلح ڈرون کو مستقبل کا سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہی ہتھیار اگر غیر مسلح کر دیا جائے تو مستقبل کا ا یک بڑا معلوماتی اور انسان دوست بھی یہی ہتھیار ہے۔
ملٹری ہتھیاروں کی ابتداء اور ان کے ارتقاء کی بات چلی تو میں نے عرض کیا کہ یہ مقولہ اگرچہ گِھسا پٹا ہے کہ ضرورت، ایجاد کی ماں ہوتی ہے لیکن اس مقولے کی صداقت پر آج بھی دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ ضرورت انسان کے دماغ سے نکلتی ہے۔ یہی انسان ایک دوسرے کا سب سے بڑا دوست بھی ہے اور دشمن بھی۔ کبھی کسی نے سوچا کہ لڑائی میں ایک انسان، دوسرے انسان کو موت کے گھاٹ کیوں اتار دیتا ہے؟ اس سوال کا جواب حضرتِ آدم کے فرزندوں کے دماغوں میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ہابیل اور قابیل نے ایک دوسرے سے دشمنی کیوں مول لی، اس کا جواب البتہ ابھی تک تشنہء اظہار ہے۔
دوستی اور خونریزی انسان کے دماغ کے دو بڑے ”اوصاف“ ہیں۔ جس طرح انسان دوستی ایک انسانی وصف ہے، اس طرح انسان دشمنی بھی ایک انسانی وصف ہے۔
جنگی ہتھیاروں کی ایجاد اور ان کے ارتقاء پر غور کیجئے۔ ان کی ایجاد کا عمل، انسان دوستی سے شروع ہوا تھا۔ تیرکمان، اول اول پرندوں کے شکار کا سبب بنے جوبعد میں خود انسانوں کے شکار کا سبب ہو گئے۔
بارود کی ایجاد کا سہرا چینیوں کے سرباندھا جاتا ہے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک ایسا سفوف تیار کیاجو آگ لگانے سے بھڑک اٹھتا تھا۔ یہ گویا دنیا کے سب سے اولین، آتشیں کھلونے تھے جو آج بھی ہم شب برات منانے کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ انار، پھلجھڑی، پٹاخے اور شُوکنیاں وغیرہ سب بارود کے بے ضرر تماشے تھے جو بعد میں رائفل اور توپ کے ضرر رساں تماشے بن گئے۔ آج بھی ہم شادی بیاہ پر رائفلوں سے گولیاں چلا کر اظہارِمسرت کیا کرتے ہیں۔یہی گولیاں انسانوں کے جسم میں پیوست ہو کر اظہارِ مرگ کا سبب بن جاتی ہیں۔ جس طرح توپ کی ایجاد، تقریباتی نمائشوں سے وجود میں آئی، اسی طرح ٹینک اور ہوائی جہاز بھی تقریباً نمائشوں ہی کا تسلسل تھے۔ ٹینک تو گھوڑے کا بدل تھا۔ اس کا استعمال سب سے پہلے پہلی عالمی جنگ میں 1917ء میں کیمبرائی کے مقام پر ہوا۔ یہ ایک برٹش ایجاد تھی جس نے بعد میں جرمن ایجاد کا روپ دھارا۔ اس کا جرمن خالق، جنرل گڈیرین اور جرمن چانسلر اوڈلف ہٹلر تھا جس نے گھوڑوں کی افواج کی جگہ ٹینکوں کی افواج (پیترر ڈویژن) تشکیل دیں اور بلز کریگ کے خالق کہلائے۔ آج بھی روائتی جنگ و جدل میں ٹینک افواج ہر حملے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ ان ٹینکوں کی بربادی کا توڑ ہوائی جہازوں میں ڈھونڈا گیا۔ بمبار طیارے، نہ صرف ٹینکوں بلکہ دوسرے جنگی زمینی ہتھیاروں کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ ڈوہٹ (Dohit) نے بالکل درست کہا تھا کہ ہوائی جہاز مستقبل کا سب سے مہلک ہتھیار ہوگا۔ لیکن اس وقت ”ڈرون“ کی ایجاد کی سُن گُن کسی کو بھی نہ تھی۔
یہ ڈرون (Drone) تو عصرِ حاضر کی ایک ایسی ایجاد ہے جس نے بارود کی ایجاد کی طرح خوشی اور غم اور شادمانی و بربادی کے بہت سے دَر وا کر دیئے ہیں۔
ایک طرف وہ ڈرون کہ جس میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا، شادی بیاہ کی تقریبات اور جلسے جلوسوں کی کوریج کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈرون کا ایک اور پُرامن استعمال، دوست اور دشمن کی سراغ رسانی اور ریکی (Recce) ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھ کر ایک انسان اس بغیر پائلٹ گاڑی (Vehicle) کو ہوا میں بلند کرتا ہے اور اسے کئی ہزار فٹ کی بلندی تک لے جاتا ہے۔ پھر اس میں میزائل نصب کر دیتا ہے جو اس کی صفتِ سراغ رسانی سے مل کر صفتِ بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔ انسان نے اپنے سب سے مہلک اور تباہ کن ہتھیار یعنی جوہری بم کا ایک بیٹل فیلڈ ورشن بھی بنا رکھا ہے جسے عام لڑائی کے دوران استعمال کرکے ہیروشیما اور ناگاساکی کے تتبع میں بہت چھوٹے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے اور آج بھی روس۔ یوکرین جنگ میں یہی ورشن استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ طرفین نے اس کے استعمال کی خبریں عام نہیں کیں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ پوٹن اور زیلنسکی دونوں اسی راہ پر گامزن ہیں۔ فرق ہے تو اتنا ہے کہ پوٹن اپنے ہاں بنائے ہوئے درشنوں (Versions) کو استعمال کرتا ہے جبکہ زیلنسکی، ناٹو ممالک سے دیئے گئے ورشنوں کا سہارا لیتا ہے۔ اس جنگ کا انجام کیا ہوگا اس پر مغربی میڈیاپر بہت کچھ لکھا اور کہاجا رہا ہے۔ رہا پاکستان تو ہمارے ہاں بھی اس طریقِ جنگ کے ”گھریلو ورشن“ بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ان میں مسلح ڈرونوں کا استعمال ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یہ تو ابھی تک صیغہء راز میں ہے لیکن جو ڈرون کسی جلسے کی کوریج کر سکتا ہے وہی ڈرون اس جلسے پر اپنے پروں کے نیچے نصب بموں اور میزائلوں کا استعمال کیوں نہیں کر سکتا؟
میرے خیال میں ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ڈرون ابھی تک ”درّے“ میں نہیں بنائے جاتے۔ درّے کی رائفلیں، مشین گنیں اور دستی بم تو عام بن رہے ہیں لیکن کسی نے اِن قدیم ہتھیاروں سے آگے نکل کر کسی جدید ہتھیاروں کی ایجاد کی طرف کوئی توجہ نہیں دی وگرنہ امریکہ جس طرح 20برس تک افغانستان میں آکر بیٹھا رہا اور تباہ کاریاں کرتا رہا تھا، ان میں کوئی تو حصہ اس درّے کے ”جدید ہتھیاروں“ کا بھی ہوتا……نجانے احمد شاہ ابدالی کی ”زمزمہ گن“ کی ایجاد کے بعد افغانوں کی قوتِ ایجاد و اختراع کہاں چلی گئی تھی؟
ہماری گفتگو ڈرونوں کے غیر مسلح اور مسلح استعمال سے آگے نکل رہی تھی۔ آج جو ممالک ڈرون بنا رہے ہیں، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہم پاکستانیوں کی قوت ِ تقلید سے کس کافر کو انکار ہے؟…… ہم نے تو نہایت کم عرصے میں جوہری بم بھی بنالئے اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بلاسٹک میزائل (IRBM) بھی بنالئے۔ اس لئے ہمیں مسلح ڈرونوں کے وہ ورشن بنانے میں کوئی زیادہ مدت درکار نہیں ہوگی جو جدید ترقی یافتہ ممالک میں عام بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا مقابلہ رو س اور امریکہ سے نہیں ہوگا، اپنے ہمسایہ ممالک سے ہوگا اور ان ممالک سے نمٹنے کے لئے ہم نے اور بھی کئی بندوبست کر رکھے ہیں!
پاکستان، مسلح ڈرون بھی بنا رہا ہے۔ اس کی نظر انڈیا کی ڈرون سازی کی صنعت پر بھی مرکوز ہے۔ انڈیا کو آج اگر کسی ورلڈپاور کی تکنیکی اور اسلحی امداد حاصل ہے تو اس کی خبریں بھی ہم سے پوشیدہ نہیں۔ ان ڈرونوں کے استعمالات کی تفاصیل بھی GHQ کے متعلقہ شعبوں کی نظر میں ہیں۔ ہم نے روس، امریکہ اور چین کو نہیں بلکہ انڈیا، ایران اور افغانستان کو دیکھنا ہے جو ہمارے زمینی ہمسائے ہیں۔آج شاید انڈیاکے ریکی ڈرون، پاکستانی علاقوں پر پروازیں کرکے مطلوبہ ”ڈاٹا“اکٹھا کررہے ہوں گے لیکن پاکستان اگرچہ انڈیا سے چھ گنا چھوٹا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہم اس سے جنگی اعتبارات کے حوالوں سے چھ گنا چھوٹے نہیں۔ہمارے ریکی ڈرون بھی بھارتی علاقوں پر پروازیں کرکے وہ معلومات حاصل کررہے ہیں جو ہمیں درکار ہیں یا آئندہ ہوں گی۔