ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 61
ایڈیلیڈ :سمندر سے پہاڑ تک
فرخ صاحب کو ائیر پورٹ چھوڑ کر پہلے ہم مرکز شہر کے قریب واقع گلینگ نامی ساحل سمندر پر گئے ۔یہاں ٹھنڈی تیز ہوا کی وجہ سے عین دوپہر میں بھی سخت ٹھنڈ محسوس ہورہی تھی۔ ہوا کی یہ کیفیت تھی کہ انسانوں کو گویا اڑ ائے دے رہی تھی۔یہاں ہوٹل اوربازار بھی تھا۔ یہ ٹورسٹ کا علاقہ تھا اس لیے اس ٹھنڈ کے باوجود لوگ گھومتے پھرتے نظر آئے ۔ساحل اتنا خوبصورت نظر نہیں آ رہا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پانی چڑ ھا ہوا تھا اور ساحل کی مٹی سے ملنے کے بعد پانی پر مٹیالا رنگ غالب تھا۔اس تیز ہوا میں لوگ دور ہی سے پانی کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوپہر کے کھانے کے لیے عامر ایک جگہ افغان ریسٹورنٹ لے گئے جہاں کی خاص بات افغان کباب اور افغان نمکین لسی تھی۔اس کے بعد طاہر صاحب کو ان کے گھر چھوڑ ا۔ میرا اصرار یہ تھا کہ یہاں کے پہاڑ ی علاقے کو دیکھا جائے ۔ چنانچہ عامر مجھے لے کر ایڈیلیڈ کے پہاڑ ی علاقے کی طرف روانہ ہوئے ۔
یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ میرا اصرار کرنا درست تھا۔ یہ اتنا خوبصورت اور حسین پہاڑ ی سلسلہ تھا کہ الفاظ میں اس کی خوبصورتی کو بیان کرنا مشکل ہے ۔ ہر منظر قدرت کی صناعی کی ایک تصویر لگ رہا تھا۔ بعض جگہ پر پہاڑ ی جھیلیں موجود تھیں جنھوں نے سبزے اور درختوں کے منظر کو اور دلکش بنادیا تھا۔ یہ راستہ بڑ ی حد تک خالی پڑ ا ہوا تھا۔ اکادکا گاڑ یاں یہاں کے ان مکینوں کی تھیں جن کے کھیت اور مویشیوں اور بھیڑ وں کے فارم یہاں موجود تھے ۔
یہاں کی ایک اور خصوصیت دور دور تک پہاڑ وں پر لگی ہوئی انگور کی بیلیں تھیں جنھیں ڈنڈوں کے سہارے ایک کھیت کی شکل میں اگایا گیا تھا۔ عامر نے مجھے بتایا کہ یہ شراب بنانے کی غرض سے لگائی گئی ہیں اور یہاں کی وائنریز (wineries)میں بنائی جانے والی شراب دنیا بھر میں مشہور ہے ۔
اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
اس طرح کے مناظر اتنے حسین ہوتے ہیں کہ ان کو بیان کرنے کی ہر کوشش ان کے حسن کو کچھ کم ہی کر دیتی ہے ۔ خدا جیسی اعلیٰ ہستی جس نے انسان کو بولنے کا وصف دیا، اس نے بھی انسانی عجز کا لحاظ کر کے یہ کہہ کر بات ختم کر دی ہے کہ وہ باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا نے اِس فانی اور عارضی دنیا میں اپنے جمال و کمال کے یہ کم تر جلوے اس لیے بکھیرے ہیں کہ انسان اس برتر جنت کا تصور کرے جس سے انسان کبھی باہر نہیں نکلنا چاہے گا۔ مگر اس دل کا کیا کیجیے کہ دنیا کے ہزار آزار اس کو لگے ہوئے ہیں ۔ اسے خدا پر اعتبار ہی نہیں آتا۔اسے جنت پر یقین ہی نہیں ہوتا۔ اسے موت کے بعد زندگی کا ماننا مشکل ہوجاتا ہے ۔ دماغ مان بھی لے تو دل نہیں مانتا۔ دنیا کے پھندوں سے نکلتا ہی نہیں ۔ اس کے فریب سے آزاد نہیں ہوپاتا۔
انسان اسی دنیا کو پانے کی سعی و جہد میں لگا رہتا ہے ۔مگر اول تو یہاں سب کو سب کچھ نہیں ملتا۔ انسان اپنی جتنی بھی جنت بنالے ، امتحان کی دنیا میں محرومی کے جہنم سے وہ دامن نہیں چھڑ ا سکتا۔ پھر جتنی کچھ جنت وہ بنالے اس میں بوریت، بیماری، غربت، بڑ ھاپاجیسی چیزیں ہمیشہ رہتی ہیں ۔ پھر ایک روز یہ انسان اُس دنیا کی طرف لوٹ جاتا ہے جہاں حقیقی جنت موجود ہے ۔ مگر وہاں جا کر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اِ س جنت کو خریدنے کے لیے جس مال کی ضرورت تھی وہ تو انسان نے پچھلی دنیا میں کمایا ہی نہیں ۔
ہر انسان کا یہی مسئلہ ہے ۔ سوائے اس کے جو خدا کو اپنا مسئلہ بنالے ۔ جو خدا کی جنت کو اپنا مسئلہ بنالے ۔ ایسا انسان کچھ اور نہ کرسکے تڑ پ کر اپنے آپ کو خدا کے قدموں میں لاڈالتا ہے ۔ اس فریاد کے ساتھ کہ جنت کی محرومی برداشت نہیں ہو سکتی۔اب آپ ہی کچھ کیجیے ۔ خدا مردوں کو زندہ کرسکتا ہے ۔ وہ مردہ دل کو زندہ کیوں نہیں کرسکتا۔ وہ کرہی دیتا ہے ۔ اس سے مانگنے والے کبھی محروم نہیں ہوتے ۔ جو شخص اپنے تعصبات اور خواہشات سے بلند ہوکر خدا کے سامنے پیش ہوجائے ، یہ طے ہے کہ چاہے وہ جنت کا اعلیٰ ترین درجہ بھی مانگ لے ، اس کومل جائے گا۔
اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
تم نے تو چلتے پھرتے مردے جِلادیے ہیں
پاک چین دوستی زندہ باد
ایڈیلیڈ کے اس سفرمیں عامر کا بہت ساتھ رہا۔ ان سے بہت سی باتیں ہوئیں ۔ ان کی ذاتی زندگی کے کئی دلچسپ پہلو سامنے آئے ۔وہ میٹرک کر کے کراچی سے اس وقت یہاں آئے تھے جب کراچی نیا نیا مقتل بنا تھا۔والدین کے لیے سات سمندر پار اولاد کو بھیجنا آسان تھا بہ نسبت اس کے کہ کسی روز اخبار میں کسی ایک مقتول کی خبر شایع ہوجائے ۔ اس وقت آسٹریلیا شاید ہی کسی کا انتخاب ہو۔ اس کے انتخاب کی وجہ ان کا کرکٹ سے عشق تھا۔خیر یہاں وہ پڑ ھنے آئے تھے ، مگر اجنبی ماحول، زبان پر عبور نہ ہونا اور تنہائی جیسی چیزیں ان کی راہ کی مشکلات بن گئیں ۔ اللہ نے مدد کی کہ لوٹنے کے بجائے کمر ہمت کسے رہے ۔ پڑ ھائی چھوڑ کر ایک جاننے والے کے کہنے پر ملبورن چلے گئے ۔ ملازمت کی۔ انگریزی بہتر بنائی۔ واپس آ کر تعلیم شروع کی۔مگر تعلیم بہت مہنگی تھی۔
اس کا حل اللہ نے عجیب خوشگوار طریقے سے نکال دیا۔ ان کی ملاقات سنکیانگ سے تعلق رکھنے والی اپنی ہونے والی بیگم سے ہوئی۔ وہ چینی مہاجر تھیں جو اپنے والدین کے ساتھ یہاں آئی تھیں ۔ اور اب ان کو آسٹریلوی شہریت مل چکی تھی۔ ان سے شادی کرنے کے بعد عامر کی تعلیم بھی مفت ہوگئی کیونکہ اس زمانے میں فوراً شہریت مل جایا کرتی تھی اور مقامی لوگوں کے لیے تعلیم مفت تھی۔ملازمت کے معاملے میں بھی اللہ نے ان کی مدد کی۔ انھوں نے ابتدا ہی میں کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کی فیلڈ اختیار کر لی اور اس کے نتیجے میں اب ایک اچھی سرکاری ملازمت کر رہے تھے ۔
شہری آبشار اور گاڑ ی کی دھلائی
پہاڑ یوں سے واپسی پر عامر مجھے اپنی زمین دکھانے لے گئے جو انھوں نے گھر بنانے کے لیے لی تھی۔ چھ سو گز کا یہ ایک بڑ ا پلاٹ تھا۔اس کے برابر میں ایک گھر بنا ہوا تھا اور ایسا ہی ان کا گھر بننا تھا۔ اسے دیکھ کر خیال ہواکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے معاشی، سماجی اور دعوتی پہلو سے کتنے زیادہ مواقع کھول دیے ہیں ۔کاش مسلمان ان مواقع کو دیکھنے والے بن جائیں ۔ اس کے بعد وہ مجھے شہر ہی میں موجود ایک آبشار پرلے گئے ۔یہ ایک بہت پرسکون جگہ تھی جہاں واک کرنے کا ٹریک بھی تھا، مگر شام ہونے کی بنا پریہ بند ہو چکا تھا۔
یہاں سے نکل کر ہم ایک جگہ گئے جہاں عامر نے اپنی گاڑ ی کو واش کرایا ۔16ڈالر اور دو چار منٹ میں کسی ورکر کے بغیر آٹومیٹک طریقے پر گاڑ ی مکمل طور پر صاف ستھری ہوگئی اور اوپر نیچے ہرجگہ سے بالکل صاف اور چمکدار ہوگئی۔جبکہ ہم گاڑ ی کے اندر ہی بیٹھے رہے ۔
میں نے سوچا کہ یہاں زندگی کتنی آسان کر دی گئی ہے ۔ بنیادی ضروریات یعنی تعلیم، صحت، تفریح اور روزگار وغیرہ کے علاوہ زندگی کی تمام آسانیاں لوگوں کی دسترس میں ہیں ۔ جن میں حوصلہ یا صلاحیت ہے ان کے لیے تمام آسائشیں بھی دستیاب ہیں ۔جبکہ ہمارے ہاں تو جینا بھی ایک امتحان بن چکا ہے ۔
سماجی انقلاب یا سائنسی انقلاب
مغربی ترقی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ سائنسی انقلاب کا نتیجہ ہے ۔ مگر میرے نزدیک ایسا نہیں ہے ۔مغرب کی اصل تبدیلی سیاسی نہیں سماجی انقلاب کی تبدیلی تھی۔ مغرب میں قرون وسطیٰ میں مسلمانوں ہی کے اثر سے ایک سماجی انقلاب آیا ہے جس نے صدیوں سے قائم تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ یہ سماجی تصور ایک بنیادی نکتے کے اردگرد گھومتا تھا۔یعنی انسان کی آزادی۔ مغربی مفکرین نے دیکھا کہ انسان سیاسی پہلو سے غلام ہے ۔ انسانوں پر انسان حکومت کرتے تھے جو قانون سے بالا تر تھے ۔ یعنی بادشاہ اور ان کی آمریت۔ مغربی مفکرین نے نعرہ لگایا کہ عوام پر وہی لوگ حکومت کریں گے جن کو عوام کا اعتماد حاصل ہو گا۔اور جیسے ہی عوام کا اعتماد ختم ہو گا ان کی حکومت ختم ہوجائے گی۔
آزادی کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ مذہب کے نام پر انسان انسانوں پر حکومت کرتے تھے ۔ یہ توہمات کی غلامی تھی جو چرچ کے نام پر مغرب میں عام تھی۔ چنانچہ چرچ کے اس مذہبی اقتدار کے خلاف بغاوت ہوئی اور اب مذہب کے نام پر کسی ادارے یا فرد کی حکومت موجود نہیں رہی۔ لوگ اپنی مرضی سے جو چاہیں مذہب اختیار کر لیں ۔ آزادی کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ اپنی جاگیر کے بل بوتے پر کچھ جاگیرداروں نے تمام معاشی وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا۔ چنانچہ اس نظام پر ضرب لگائی گئی اور آزادمارکیٹ کا وہ تصور دیا گیا جس میں ہر شخص جدوجہد کر کے ترقی کرسکتا ہے ۔
چنانچہ مغرب میں آزادی سب سے بڑ ی قدر قرار پائی۔ انسان آزاد ہوکر سوچنے ، جینے اور کمانے کے قابل ہوگئے ۔اس سماجی عمل کے غیر معمولی نتائج نکلے جس نے آنے والے دنوں میں مغرب کو بدل کر رکھ دیا۔مغرب کی ساری تبدیلیاں انھی بنیادی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں ۔
تاہم وحی کی رہنمائی سے محروم اس سماجی انقلاب کے منفی نتائج بھی نکلے اور افراط و تفریط کی صورتحال بھی پیدا ہوئی۔زندگی سے مذہب کا نکلنا، مادیت اور کمیونزم کا فروغ، سرمایہ دارانہ نظام کا ظلم اور فساد، خاندانی نظام کی تباہی جیسے مسائل مغرب کے بڑ ے مسائل بن گئے ۔ ان میں سے بہت سے مسائل میں انھوں نے معاملات درست کر لیے ۔ مگر دو چیزیں ایسی ہیں جو ابھی بھی تباہ کن ہیں اور ان کے معاشرے کو کھا رہی ہیں ۔ ایک حقیقی روحانیت کا خلا اور دوسرے جنسی آزادی کے بعد خاندانی نظام کی شکست و ریخت ۔مگر ان پر بات آگے ہو گی۔
(جاری ہے)