ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 60
دعوت کی ڈی جیورو اور ڈی فیکٹو حیثیت
پروگرام سے نکل کر ہم ڈاکٹر احمد صاحب کے ہاں روانہ ہوئے ۔فرخ صاحب کے علاوہ اس نشست میں ڈاکٹر ہارون، ڈاکٹر قیوم، طاہر صاحب، آصف صاحب اور عامر کے ساتھ ان کے بھائی شاہد بھی موجود تھے ۔
اس نشست میں احباب سے بہت سے امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جو ایک اہم بات میں نے احباب کے سامنے رکھی وہ یہ تھی کہ ہمارا کام لوگوں کو دین کی دعوت پہنچانا ہے ۔ لوگ مانیں نہ مانیں ، سنیں نہ سنیں ، بدلیں نہ بدلیں یہ سب ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔ہماری توجہ اصلاً صرف اس طرف رہنا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اور جتنے لوگوں تک ممکن ہو سکے ہم حق کا پیغام پہنچادیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ ہمارے کام کی ڈی جیورویعنی قانونی حیثیت ہے ۔ تاہم ڈی فیکٹو یا حقیقی معاملہ یہ پیش آتا ہے کہ دعوت کا کام کبھی بے فائدہ نہیں جاتا۔ کچھ نہ کچھ لوگ ضرور بدلتے ہیں ۔ ضرور اثر لیتے ہیں ۔ یہ وہ سلیم الفطرت لوگ ہوتے ہیں جو پہلے ہی سے حق کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں یا ناحق سے غیر مطمئن ہوتے ہیں ۔ ان کو جیسے ہی صحیح بات نظر آتی ہے یہ اس کی طرف ایسے لپکتے ہیں جیسے کوئی پیاسا صحرا میں کسی کنویں کو دیکھ کر اس کی طرف دوڑ تا ہے ۔
دعوت کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری اپنی شخصیت ہمیشہ بہتری کی طرف گامزن رہتی ہے ۔ دوسرے بدلیں نہ بدلیں ہم ضرور بدل جاتے ہیں ۔ یہی سب سے بڑ ا فائدہ ہے ۔
ریڈ بیک اسپائڈر
آسٹریلیا میں جب سے آیا تھا اس مکڑ ی کا بہت ذکر سنا تھا۔ یہ مکڑ ی صرف یہیں پائی جاتی ہے اور آسٹریلیا کی سب سے زہریلی مخلوق ہے ۔ یہاں بھی طاہر صاحب نے اس کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا۔یہ مکڑ ی عام گھروں میں پائی جاتی ہے اور کاٹ لے تو فوراًموت واقع ہوجاتی ہے ۔میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ لوگوں سے سیکھتا رہوں ۔ میرے ذہن میں ایک بنیادی سوال یہ تھا کہ اتنی خطرناک چیز اگر گھروں میں پائی جاتی ہے تو شرح اموات تو بہت زیادہ ہونا چاہئیں ۔اس سوال نے مجھے بے چین کر رکھا تھا۔ چنانچہ اس نشست میں جہاں تین ڈاکٹر موجود تھے یعنی ڈاکٹر احمد، ڈاکٹر قیوم اور ڈاکٹر ہارون، میں نے ان سے اس حوالے سے معلومات لیں ۔
ڈاکٹر ہارون نے مجھے بتایا کہ اس مکڑ ی کا زہر تکلیف دہ تو بہت ہے ، مگر نہ فوری موت واقع ہوتی ہے اور نہ یہ ناقابل علاج ہے ۔ بلکہ ڈاکٹر باآسانی علاج کر دیتے ہیں ۔ بعد میں خود میں نے انٹرنیٹ پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کاٹنے کا یہ کام مادہ مکڑ ی ہی کرتی ہے اور یہ اپنے جالے سے عام طور پر باہر نہیں نکلتی۔ اس لیے وہی لوگ زد میں آتے ہیں جو کسی وجہ سے اس کے جالے کے قریب جائیں ۔ یوں نہیں ہے کہ رات سوتے ہوئے یہ کسی کے اوپر چڑ ھ کر اسے کاٹ لے ۔ مزید یہ کہ سن 1956میں اس کے زہر کا تریاق دریافت ہو گیا تھا جس کے بعد سے آج تک براہ راست کسی شخص کی آسٹریلیا میں اس کے کاٹنے سے موت واقع نہیں ہوئی۔گرچہ اس کے کاٹنے کے ہر برس ہزاروں کیس سامنے آتے ہیں اور یہ ایک بہت تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے ۔ بالکل ایسے ہی جس طرح ہمارے ہاں بچھو کا کاٹنا تکلیف دہ سمجھا جاتا ہے ۔
توہمات اور تحقیق
اس ایک مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان اگر تحقیق کرے تو اکثر صورتحال اس پر واضح ہوجاتی ہے ۔تحقیق نہ کریں اور سنی سنائی باتوں پر آراء قائم کریں تو غلط تصورات کی ایک دنیا آباد ہوجاتی ہے ۔بدقسمتی سے لوگ سب سے بڑ ھ کر یہ معاملہ مذہب میں کرتے ہیں ۔ اس وقت دنیا بھر میں دینداری اور روحانیت کا کاروبار عروج پر ہے ۔ کہیں بت پرستی کے نام پر، کہیں انسان پرستی کے نام پر، کہیں مذہبی پیشواؤں کی تقدیس و تقلید کے نام پر۔ کہیں قوم پرستی کے نام پر۔
لوگ ذرا تحقیق کرنے کی عادت ڈالیں ، ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کو کچلنے کے بجائے ، ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں تو وہ سیدھادین حنیف اور قرآن مجید کی طرف آئیں گے ۔ ان کی منزل رسول خدا کی ہستی ہو گی۔ خدا کی ہستی ، تنہا ویکتا ہستی ان کی زندگی کا مرکز و محور بن جائے گی۔ مگر غیر مسلموں سے کیا شکایت کریں ، جب مسلمان اپنے تعصبات اور توہمات سے اٹھنے کے لیے تیار نہیں ۔ جب تحقیق کے بجائے توہمات کا چلن عام ہو، جب قرآن کی موجودگی میں اپنی خواہشات کو دین بنادیا گیا ہوتو ایسے میں کیا ہو سکتا ہے ۔ مگر جو شخص یہ ہمت کر لے گا جنت کی بہترین نعمتیں اس کی منتظر ہیں ۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
ایڈیلیڈ او ول
خیر احباب کے ساتھ یہ نشست دیر تک چلی۔یہاں حسب معمول ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام تھا۔ڈاکٹر احمد کی اہلیہ نے اسی روایت کو قائم رکھا جوملبورن سے شروع ہوئی اور ابھی تک جاری تھی۔ یعنی پانچ سات انتہائی پرتکلف کھانوں سے کم اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ ڈنر کے بعد یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی اور ہم اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے ۔میں طاہر صاحب کے ساتھ تھا۔ راستے بھر وہ دلچسپ اور معلوماتی باتیں بتاتے رہے ۔ فرخ صاحب عامر کے ساتھ تھے ۔ جبکہ ڈاکٹر احمد خاص طور پر الگ سے آئے تھے ۔ میری ڈسٹرب نیند کو درست کرنے کے لیے کچھ میڈیسن انھوں نے خود جا کر خریدیں تھیں اور اب مجھے دینے آئے تھے ۔
اگلے دن فرخ صاحب کو سڈنی لوٹنا تھا۔ جبکہ میری فلائٹ اگلے دن سہ پہر کے وقت تھی۔ یہ گویا ڈیڑ ھ دن کار سیاحت کے لیے ہی وقف تھا۔فرخ صاحب چونکہ کرکٹ کے شیدائی تھے ، اس لیے ان کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ ایڈلیڈ او ول کا کرکٹ اسٹیڈیم دیکھتے ہوئے انھیں ائیر پورٹ چھوڑ ا جائے ۔راستے میں عامر نے طاہر صاحب کو بھی ساتھ لے لیا۔ چنانچہ ہم سیدھا اس کرکٹ اسٹیڈیم پہنچے ۔ اندر جانے کا وقت نہیں تھا۔ اس لیے باہر ہی سے اس کے سامنے کھڑ ے ہوکر تصویریں بنوائیں ۔ عامر نے اگلے دن مجھے ایڈیلیڈ او ول دکھانے کے لیے ایک پورا ٹور بک کرارکھا تھا۔ مگر مجھے کرکٹ اسٹیڈیم کے بجائے فطرت سے دلچسپی تھی۔ اس لیے میں نے بھی بس اسے باہر ہی سے دیکھا۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں