ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 59
ایڈیلیڈکا شہر
آسٹریلیاکے تمام اہم اوربڑ ے شہر ساحل سمندر پر ہیں ۔یہی معاملہ ایڈیلیڈ کا ہے ۔یہ آسٹریلیا کے جنوبی ساحل پر واقع ہے اور ریاست جنوبی آسٹریلیا کا مرکزی شہر ہے ۔ اس کی آبادی تقریباً تیرہ لاکھ ہے اور یہ آسٹریلیا کا پانچواں بڑ ا شہر ہے ۔
سڈنی سے یہاں پہنچتے ہوئے ہمیں دو گھنٹے لگے اور اس عرصے میں وقت میں آدھ گھنٹے کا فرق پڑ چکا تھا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے اپنی گھڑ یاں آدھا گھنٹا آگے کر لیں ۔تاہم یہاں موسم سڈنی کے مقابلے میں ٹھنڈا تھا اورہوا کافی تیز تھی۔ ائیرپورٹ پر اترے تو ہمارے میزبان عامراور ان کے ساتھ آصف خان صاحب موجود تھے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
عامر نے ہماری رہائش کا بندوبست ایک ہوٹل میں کر رکھا تھا۔راستے میں گزرتے ہوئے یہاں برسبین جیسا تاثر قائم ہوا۔ یعنی جیسے وہ ایک شہر سے زیادہ قصبہ لگ رہا تھا یہاں بھی یہی معاملہ تھا۔برسبین کی آبادی اس سے دس لاکھ زیادہ یعنی 23لاکھ کے قریب تھی۔وہاں کا انفراسٹرکچر بھی کچھ بہتر تھا۔ جبکہ یہاں قصباتی پہلوکچھ زیادہ لگا۔ لیکن یہ قصبے ہمارے بڑ ے بڑ ے شہروں سے بہت بہتر تھے ۔جس ملک کی اشرافیہ کی ساری توجہ صرف اپنی آل واولاد کی طرف ہو اور اس ملک کی فکری قیادت کی سار ی توجہ اپنے قومی مسائل سے زیادہ ملک سے باہر کے مسائل کی طرف ہو، اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔
حلقہ یاراں
ایڈیلیڈ آسٹریلیا کے حلقہ یاراں کے وسیع تر ہونے کی جگہ ثابت ہوئی۔ یہاں کا مرکز تو ہمارے میزبان عامر صاحب تھے ۔ ان کی محبتوں سے ایڈیلیڈ کا قیام بہت خوشگوار رہا۔ یہاں میرا پروگرام تو اِسی دن یعنی اتوار کو ہو گیا تھا ، تاہم پرتھ روانگی دو دن کے بعد تھی۔انھوں نے میری آمد پر دفتر سے دو دن کی چھٹی لے رکھی تھی اور یہ دو دن میرے لیے ہی وقف کیے رکھے ۔وہ نہ ہوتے تو یہ دودن ہوٹل ہی کی نذر ہوجاتے ۔
ہوٹل میں کچھ دیر آرام کرنے کے بعد عامر دوبارہ آ گئے اور ان کے ساتھ ہم طاہر صاحب کے ہاں دوپہر کے کھانے کے لیے روانہ ہوئے ۔یہاں پہنچے تو ایک بھرپور دعوت ہماری منتظر تھی۔ تاہم اس دعوت کی انفرادیت یہ تھی کہ کھانے پر موجود تما م ڈشیں طاہر صاحب نے خود بنائی تھیں اور بہت خوب بنائی تھیں ۔ان کی اہلیہ ڈاکٹر تھیں اور طاہر صاحب کی اس اضافی خصوصیت کا ان کو بہت فائدہ تھا۔کھانے پر ڈاکٹر احمد صاحب بھی موجود تھے اور شام کو ان کے ہاں ہم سب کی دعوت تھی۔
آج کے پروگرام ہی میں دو مزید دوستوں شریف صاحب اور ڈاکٹر ہارون صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔شریف صاحب کچھ عرصہ قبل اپنی فیملی کے ساتھ کراچی سے یہاں آئے تھے اور ڈاکٹر ہارون عرصے سے ایڈیلیڈ ہی میں مقیم تھے ۔
انذار و بشارت
ایڈیلیڈ میں پروگرام یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے مک گل کیمپس میں ہوا۔ مجھے گفتگو کا جو موضوع دیا گیا وہ انذار وبشارت تھا۔میں نے قرآن مجید کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عالمی حیثیت کو واضح کیا کہ آپ کو تا قیامت تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے ۔اب یہ آپ کی امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو انسانیت تک پہنچائے ۔ اس میں عام آدمی کا کیا کردار اور اہل علم کی کیا ذمہ داری ہے اس کو میں نے قرآن مجید کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی۔پروگرام کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ ہوا ا ور پھر چائے وغیرہ کے بعد محفل اختتام کو پہنچی ۔
میرا تاثر یہ ہے کہ مسلمانوں کو دنیا سے اپنے تعلق کی درست نوعیت کا بالکل شعور نہیں ہے ۔ ختم نبوت کے بعد مسلمان دراصل ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کے قائم مقام ہیں ۔ اب انھی کے ذریعے سے دنیا کو خدا کا پیغام براہ راست ملے گا۔قوم اور نبی کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہوتا ہے ۔ نبی کے پاس اپنی قوم کی امانت یعنی حق کا پیغام ہوتا ہے ۔
کتنی غیر معمولی بات ہے کہ عنقریب اس دنیا کو مٹا کر ایک نئی دنیا بنائی جانے والی ہے ۔ جہاں صرف جنت ہو گی یا پھر جہنم اور تمام انسان ان دومیں سے کسی ایک جگہ موجود ہوں گے ۔ اس انتہائی غیر معمولی واقعے کی پوری اور مکمل اطلاع جن لوگوں کے پاس ہے ان کو اس اطلاع کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ۔کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو جنت سے واقف ہیں لیکن اس کی خوشخبری دوسروں کو نہیں دینا چاہتے ۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو جہنم کو جانتے ہیں ، مگر اس کی آگ سے دوسروں کو خبردار نہیں کرنا چاہتے ۔اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ پانے والوں نے نہ جنت کو پایا ہے نہ جہنم کو۔ جب پایا ہی نہیں تو دوسروں کو کس چیز کی بشارت دیں گے اور دوسروں کو کس چیز سے خبردار کریں گے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں