صرف بیان بازی یا حقیقت؟ ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا، گرین لینڈ اور پاناما کینال پر ’قبضے‘ کی دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں؟
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )وائٹ ہاوس میں واپسی سے صرف چند ہفتے قبل امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈنمارک کے زیر کنٹرول جزیرے گرین لینڈ اور پاناما کینال کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے فوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں بات کر کے بہت سے لوگوں کو بے چین کر دیا ہے۔
بی بی سی اردو سروس کے مطابق ٹرمپ نے ان دونوں علاقوں کو امریکا کی اقتصادی سلامتی کے لئے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ کینیڈا کو امریکا میں شامل کرنے کے لئے معاشی دباو¿ استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
پاناما، گرین لینڈ، ڈنمارک اور کینیڈا نے ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے لیکن یہ سب علاقے امریکا کے لئے اتنے اہم کیوں ہیں اور اِن کا کنٹرول سنبھالنے سے ٹرمپ انتظامیہ کو کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟
پاناما کینال:20ویں صدی میں پاناما کینال کی تعمیر کا کام سنبھالنے اور کئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد سنہ 1999 میں امریکا نے اس نہرکا مکمل کنٹرول پاناما کے حوالے کر دیا تھا لیکن اب سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’پاناما کینال ہمارے ملک کے لئے اہم ہے۔ اس کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کا کنٹرول پاناما کو دیا تھا، ہم نے اسے چین کو نہیں دیا تھا۔ انھوں نے (پاناماحکام) نے اس تحفے کا غلط استعمال کیا۔‘تاہم سرکاری اعداد و شمار ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ پاناما کینال اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق اس نہر سے گزرنے والی ٹریفک میں امریکی کارگو کا حصہ 72 فیصد ہے جبکہ 22 فیصد حصے کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے۔واضح رہے کہ چین نے بھی ماضی میں پاناما میں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاناما کینال نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کے لئے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکاکے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے پاناما اتھارٹی پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ اس بحری گزرگاہ کو استعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے نسبتاً زیادہ پیسے وصول کر رہے ہیں۔
پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناما کے وزیر داخلہ نے ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعد کہا ہے کہ پاناما کینال کی خودمختاری پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔
انھوں نے کہا کہ ’پاناما کا کنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی رہے گا۔‘
گرین لینڈ: ڈنمارک کا ایک خود مختار خطہ اور دنیا کے سب سے کم آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت کے دوران سنہ 2019 میں گرین لینڈ کو خریدنے کی بات کی تھی۔ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹ فریڈریکسن نے اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار تو کیا ہے تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گرین لینڈ پر صرف اس کے لوگوں کا حق ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’گرین لینڈ یہاں کے لوگوں کے لئے ہے۔ یہ خود پر فخر محسوس کرنے والے لوگ ہیں، جن کی اپنی زبان اور ثقافت ہے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے۔‘
گرین لینڈ معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنے دو تہائی مالی اخراجات پورے کرنے کے لئے
ڈنمارک پر انحصار کرتا ہے۔ ان معدنیات میں کوئلہ، تانبا اور زنک وغیرہ شامل ہیں۔
سنہ 2019 میں امریکا میں گرین لینڈ کی خریداری کے بارے میں اعلیٰ سطح کی مشاورت میں شامل دو افراد نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ گرین لینڈ کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے بھی اس اہم جزیرے کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یورپ اور شمالی امریکا کے راستے میں واقع گرین لینڈ پر امریکا کی اس جزیرے کے اہم دفاعی محل وقوع کی وجہ سے نظر تھی۔
امریکانے سرد جنگ کے آغاز پر اس جزیرے پر ایک فضائی اور ریڈار اڈہ قائم کیا تھا جو اب خلا پر نظر رکھنے کے لئے اور اس کے علاوہ امریکا کے انتہائی شمالی حصوں پر ممکنہ بلاسٹک میزائلوں کے بارے میں خبردار کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسی دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی حدت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کا منجمد سمندر جہاز رانی کے قابل ہوتا جا رہا ہے اور یہ سمندری راستہ بھی ک±ھل رہا ہے۔
نایاب دھاتوں کی موجودگی گرین لینڈ کو خاصا اہم بناتی ہے۔ ورلڈ بینک کی پیشگوئی کے مطابق عالمی طلب کو پورا کرنے کے لئے سنہ 2050 تک ان معدنیات کو نکالنے میں پانچ گنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہو گی اور صرف امریکا ہی نہیں بلکہ چین بھی ان دھاتوں کی تلاش میں ہے۔روس بھی اس خطے کو اپنے اور امریکا کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے سٹرٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم سمجھتا ہے۔
گرین لینڈ کی قیادت خود مختار وزیر اعظم میوٹ ایگیڈ کر رہے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ یہ جزیرہ فروخت کے لئے نہیں اور تجویز پیش کی ہے کہ اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے ساتھ آزادی کے لئے ریفرنڈم ہو سکتا ہے۔
کینیڈا:حالیہ چند ہفتوں میں امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کی سرحد کو ’مصنوعی‘ قرار دیتے
ہوئے کئی بار اس بات کا ذکر کیا کہ کینیڈا امریکاکی 51ویں ریاست بن سکتا ہے۔
ٹرمپ نے تنقید کی کہ کینیڈا کی حفاظت کے لئے امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں جبکہ کینیڈا کی کاروں، لکڑی اور دودھ کی مصنوعات کی درآمد کا مسئلہ بھی حل کیا۔
میکسیکو کی طرح کینیڈا کو بھی ٹرمپ کے آئندہ دور صدارت میں امریکا برآمد کی جانے والی اپنی اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف عائد ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
اپنی ایک طویل پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے ان خدشات کا بھی اظہار کیا کہ میکسیکو اور کینیڈا کی سرحدوں سے منشیات امریکا میں داخل ہو رہی ہیںتاہم امریکی اعدادوشمار کے مطابق امریکی اور کینیڈا کی سرحد پر پکڑی گئی فینٹینیل کی مقدار امریکا کی جنوبی سرحد کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
کینیڈا نے امریکاکے ساتھ اپنی سرحد پر سکیورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ منظم جرائم کو کم کیا جا سکے۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کو امریکامیں ضم کرنے کے لئے ٹرمپ کی جانب سے ’معاشی طاقت‘ کے استعمال کی دھمکی پر جواب دیتے ہوئے اسے ناممکن قرار دیا۔
بیان بازی یا حقیقت؟امریکا کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جیمز جیفری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اور ملک میں اپنے حامیوں کو سگنل دے رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’امریکا میں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ امیر یورپی اتحادی بین الاقوامی سکیورٹی کے تحفظ کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہے ہیںتاہم جیمز جیفری نے امریکا کی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کارروائی یا مداخلت کے امکان کو مسترد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم گرین لینڈ میں مارچ نہیں کریں گے، ہم کینیڈا میں مارچ نہیں کریں گے، ہم پاناما کینال پر قبضہ نہیں کریں گے لیکن اس سے کتنا ہنگامہ ہو گا یہ ایک اور سوال ہے۔‘
جیمز جیفری نے کہا کہ ’بین الاقوامی نظام کو خطرہ ڈونلڈ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اور چین سے ہے۔‘
برطانوی اخبار ’دا انڈیپینڈنٹ‘ کے مدیر برائے سیاسی امور ڈیوڈ میڈوکس محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی باتوں کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ٹرمپ کا سامراجی رویہ ہے۔ وہ دنیا بھر میں امریکا کے قدم جمانا چاہتے ہیں۔ یہ سنگین خطرہ ہے۔‘’ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کو ان کے پہلے دور حکومت سے بہت مختلف انداز میں دیکھنے جا رہے ہیں اور یہ باقی دنیا کے لئے بہت غیر مستحکم ہو گا۔‘