معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چونتیسویں قسط
سعودی عرب میں پاکستانی
سعودی عرب کا ذکر مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ وہاں موجود پاکستانیو ں کا تذکرہ نہ ہوجائے ۔ سعودی عرب، حرمین کی بنا پر، یوں تو ایک زمانے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے سفر کی منزل رہا ہے مگر تیل کی دولت نکلنے کے بعد جب تعمیر و ترقی کا عمل شروع ہوا تو غیرملکی کارکنوں کا عظیم ریلہ یہاں آنا شروع ہوگیا۔ ان میں بہت بڑی تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ اسّی کی دہائی میں جب تعمیری عمل مکمل ہوا تو کارکنوں کی ایک بڑی تعداد واپس چلی گئی۔ تاہم اس وقت بھی بہت سے لوگ یہاں موجود ہیں۔ تقریباً نولاکھ پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ جن کی اکثریت جدہ اور ریاض میں مقیم ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی جوانی یہاں گزر گئی اور پاکستان سے زیادہ یہ ان کا وطن بن چکا ہے۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔تینتیسویں قسط پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں
ان پاکستانیوں نے نہ صرف یہاں کی تعمیر و ترقی میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے بلکہ بیرونِ ملک سے پاکستان بھیجے جانے والے زرِ مبادلہ کی سب سے بڑی مقدار یہیں سے بھیجی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے متعدد مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ وہی ہے جو پاکستانیوں کو ہر جگہ درپیش ہوتا ہے۔ یعنی سفارت خانے کے اہلکاروں کارویہ۔ مجھے وہ سلوک یاد آتا ہے جو کینیڈین سفارتکار نے مجھ سے کیا تھا جبکہ میں ابھی اس کے ملک کا شہری بھی نہیں بنا تھا۔ دوسری طرف یہاں ایسے تکلیف دہ واقعات پیش آتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے نہیں بھارت کے سفارت خانے میں آگئے ہیں۔ کم و بیش یہی حال ایمبسی اسکول کا ہے۔ جس میں دی جانے والی تعلیم کا معیار بالکل پست ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے انتہائی مہنگے پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ سفارش اور رشوت کی بنیاد پر آنے والے کبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارے ہر قومی ادارے کا المیہ ہے۔
رفیق، صدیق اور خواجہ
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے مقابلے میں پاکستانیوں کو ، دیگر غیر ملکی کارکنان کی طرح، ہر جگہ امتیاز کا نشانہ بننا پڑتاہے۔ بدقسمتی سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی دوسروں کو الزام دینے کی روش یہاں کے مقامی اخبارات کا بھی معمول ہے۔ چنانچہ وہ غیر ملکیوں کوجرائم کا سبب بھی قرار دیتے ہیں اور مقامی لوگوں کی بیروزگاری کی وجہ بھی۔ کچھ پاکستانیوں کا بھی یہ مسئلہ ہے کہ ان کے غیر تعلیم یافتہ طبقات ایسا رویہ اور حلیہ اختیار کرتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ میں خود کو ذلیل کرانے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ مقامی لوگ شلوار قمیص پہننے والوں کو بالعموم بہت حقیر سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے وہ ایک مخصوص لفظ بولتے ہیں۔ یعنی رفیق۔ کسی کو عزت سے مخاطب کرنے کے لیے یہاں صدیق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ بہت عزت دینے کے لیے خوا جہ کا لفظ بولتے ہیں۔ آخرالذکر لفظ یہ لوگ گوروں کے لیے استعمال کرتے ہیں جن سے یہ آخری حد تک ذہناً مرعوب ہیں۔
پاکستانیوں کی کثرت کے باوجود یہاں پاکستانی کمیونٹی نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ پاکستانیوں کا المیہ ہے کہ وہ ملک میں ایک قوم ہیں نہ ملک سے باہر۔ لوگوں کے ذاتی ملنے والوں کا ایک محدود حلقہ ہوتا ہے۔ یہاں سماجی روابط بہت زیادہ نہیں۔ تفریح کی سب سے بڑی جگہ ساحل ہے مگر سال بھر یہاں ایسی گرمی پڑتی ہے کہ کھلی جگہ پر بیٹھنا آسان نہیں ہوتا۔لے دے کر ایک ہی تفریح بچتی ہے یعنی شاپنگ۔ یہاں کے شاپنگ سنٹرز بہت بڑے، خوبصورت اور آرام دہ ہیں۔ لوگ سب سے زیادہ عام خریداری کے سپر اسٹورز کا رخ کرتے ہیں جو حجم میں امریکا اور کینیڈا کے اسٹورز سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ دس جگہ گھوم کر خریداری کرنے سے چیزیں بھی اچھی مل جاتی ہیں اور تفریح بھی ہوجاتی ہے۔جب سے ڈش اور ڈی کوڈر (Decoder)آیا ہے لوگوں کو ایک اضافی تفریح میسر آگئی ہے۔ البتہ اس کی قیمت بہت بھاری ہے۔ان کی اولاد جس کی پہلے ہی کوئی اچھی تربیت نہیں ہوتی اس کے بگاڑ کا پورا مسالہ ان پر دستیاب ہے۔
حال ہی میں ایک دفع پھر پاکستانیوں کا، بغرضِ ملازمت، یہاںآنے کا رجحان ہوا ہے۔ لیکن اس دفعہ یاتو ہنر مند آرہے ہیں یا پھر آئی ٹی پروفیشنلز۔ ہر چند کہ حکومت باہر سے آنے والوں کو روکنا چاہتی ہے مگر مقامی سرمایہ دار جانتے ہیں کہ جتنی سستی نفری انہیں باہر سے مل سکتی ہے وہ یہاں نہیں ملے گی۔ تنخواہ زیادہ مانگنے کے علاوہ سعودی کام بھی نہیں کرتے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کام کرنے والوں کے سر پر ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ کسی وقت بھی انہیں ملازمت اورنتیجے کے طور پرملک سے نکالا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر بہت سے کینیڈا چلے گئے۔ جو باقی ہیں وہ بے یقینی کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
شہرِ خوباں کا راستہ
ایک ہفتہ گھر میں آرام کے باوجود تھکن نہیں اتری۔لیکن خواہش تھی کہ جمعہ مدینے میں پڑھوں۔ اسی دوران بھاگ دوڑ کرکے ایجنٹ سے دو ہفتے مزید قیام کا لیٹر لے لیا۔ جمعرات کی صبح ہم مدینے کے لیے روانہ ہوئے۔ صبح کے نوبجے تھے مگر درجۂ حرارت 43ڈگری پر پہنچ چکا تھا۔ جدہ سے مدینے کا راستہ تقریباً 400کلومیٹر ہے جوگاڑی کے ذریعے چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ مدینہ جانے کا دوسرا معروف طریقہ جہاز کا ہے جس میں صرف 45منٹ لگتے ہیں۔
جدہ اور مکہ سے مدینہ جانے والی شاہراہ کا نام طریق الھجرہ ہے۔ یہ سڑک اسی راستے پر بنائی گئی ہے جس کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی۔ یہ راستہ اس زمانے کی معروف گزرگاہ سے ہٹ کر واقع تھا اور ساحل کے قریب سے گزرتا تھا۔طریق الھجرہ بہت عمدہ سڑک ہے جو آنے جانے والے دو الگ الگ راستوں پر مشتمل ہے جن کے بیچ میں ایک چوڑا آئی لینڈ ہے۔ ہر راستے پر تین ٹریک ہیں جن پر مختلف رفتار سے گاڑیاں چلتی ہیں۔آئی لینڈ اور سڑک کے اطراف میں باڑھ لگی ہوئی ہے۔ یہ سڑک بہت ہموار ہے جس پر ڈیڑھ دو سو کی رفتار پر بھی پتا نہیں چلتا کہ ہم کس قدر تیز رفتاری سے سفر کررہے ہیں۔ یہ راستہ زیادہ تر لق ودق صحرا اور پہاڑی علاقوں سے گزرتا ہے۔ تاہم سڑک ان پہاڑی سلسلوں سے اس طرح گزرتی ہے کہ محسوس نہیں ہوپاتا کہ ہم پہاڑ پر چڑھ چکے ہیں۔ راستے میں وقفے وقفے سے پٹرول پمپ آتے ہیں۔ جن کے ساتھ مسجد ، بیت الخلا اور کھانے پینے کی دکانیں موجود ہوتی ہیں۔ تاہم چند ہی پٹرول پمپ پر صاف ستھرے واش رومز ہیں۔
میں نے اس راستے پر نجانے کتنی دفعہ سفر کیا تھا۔دن کے وقت صحرا میں کوئی ایسا منظر دکھائی نہیں دیتا جو مسافر کی نگاہوں کو متوجہ کرے البتہ رات میں تاروں بھرے آسمان کا نظارہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ رات کے وقت صحرا کے آسمان کی خوبصورتی بے مثل ہوتی ہے۔ بالخصوص اگر چاند کی تاریخیں اور بادل نہ ہوں تو لگتا ہے کہ سیاہ چادر پر ہیرے جڑے ہوئے ہیں جن کی جگمگاہٹ نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ میں اکثر اس منظر کو گاڑی سے دیکھا کرتا اور سوچتا کہ موجودہ دور میں سائنس نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے مگر حسنِ فطرت سے بہت دور کردیا ہے۔ راستے کی ایک نمایاں خصوصیت جگہ جگہ لگے وہ بورڈ ہیں جن پر مختلف اذکار مثلاً اللہ کے ذکر، اس کی حمد، تسبیح، تکبیر اور درود کی بار بار یاددہانی کرائی جاتی ہے۔
صحرا کے سفر میں کچھ اور تجربات بھی پیش آتے ہیں جو اتفاق سے واپسی کے سفر میں ہمیں پیش آئے۔ جاتے وقت تو بے پناہ گرمی تھی مگر واپسی میں مدینے سے نکلتے ہی بارش نے ہمیں گھیرلیا۔صحرا کے تمام موسموں کی طرح بارش بھی بہت شدیدہوتی ہے۔ بارش کے ساتھ اولے بھی برس رہے تھے۔کچھ دیر بعد یہ ژالہ باری توتھم گئی لیکن آدھے راستے میں ایک دفعہ پھر طوفانِ باد و باراں نے ہمیں آلیا۔ بجلی کی چمک، بادلوں کی کڑک، طوفانی بارش، اولے اور سیاہ بادلوں نے عجیب ڈراؤنا اور ہیبت ناک سماں پیدا کردیا تھا۔ ہمیں یہ بھی ڈر تھا کہ خدا نخواستہ گاڑی خراب ہوگئی تو اور مسئلہ کھڑا ہوجائے گا مگر الحمدللہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ بادلوں کا یہ سلسلہ جدہ کے قریب پہنچ کر منقطع ہوا۔ مگر جیسے ہی جدہ کی حدود میں داخل ہوئے تیز آندھی نے ہمیں گھیرلیا۔ ہوا کے ساتھ گرد و غبار کا ایسا طوفان اٹھ رہا تھا کہ چند گز دورکی چیز بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اللہ نے اس سے بھی ساتھ خیریت کے نکال دیا۔
مدینے کی سرزمین
وہ سرزمین جسے خدا نے روزِ ازل سے اسلام کی نصرت و سربلندی کے لیے چن لیا۔ وہ سرزمین جس نے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس وقت اپنے دروازے کھولے جب دوسرا ہر دروازہ بند ہوگیا تھا۔وہ سرزمین جہاں نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا فیصلہ کن باب رقم ہوا۔وہ سرزمین جس سے طلوع ہونے والے خورشیدِ ہدایت نے کل عالم سے باطل کی ظلمتوں کو دور کردیا۔ وہ سرزمین جہاں ایثار و قربانی، وفاو محبت ، سمع و طاعت اور شجاعت و استقامت کی لافانی داستانوں نے جنم لیا۔ وہ سرزمین جو آج بھی اہلِ شوق و محبت کے دل کا سرور اورآنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ وہ سرزمین خدا نے آج اپنے لطف و کرم سے ایک دفعہ پھر دکھلادی۔ فالحمدللہ رب العالمین۔
مدینے کی حدود میں داخل ہوتے ہی دور سے مسجد نبوی الشریف علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بلند وبالا مینار نگاہوں کو تراوٹ اور قلب کو سکون دینا شروع کردیتے ہیں۔یہ شہر، مکہ کی طرح، مجھے کبھی اجنبی نہیں لگا۔ بلکہ مدینہ تو ہمیشہ ماں کی آغوش کی طرح فراخ اور پرسکون لگا ہے۔ یہاں خدا کبھی خدا ئے ذوالجلال نہیں لگا، ہمیشہ خدائے کریم محسوس ہوا ہے۔ یہاں اس کی رحمت اس کے غضب پر حاوی نظر آتی ہے۔ اس شہر پر ستر ماؤں سے بڑھ کر چاہنے والے رب کی ٹھنڈی چھاؤں ہمہ وقت سایہ فگن رہتی ہے۔ خدانے اس دھرتی پر جس ہستی کو اپنی سب سے بڑی عنایت بناکر بھیجا، جسے رحمت اللعالمین قراردیا، اس کی یہاں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے بندوں پر اب بھی مہربان ہے۔ اور اس وقت تک رہے گا جب تک مدینہ موجود ہے۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
اقبال کے اس مصرعے سے نظری طور پر کس کو اختلاف ہوگا۔ مگر دل کی زمین پر اس کا اطلاق میں نے بہت کم دیکھا ہے۔اللہ کو ماننے والے تو بہت ہیں مگر صرف اللہ کو کارساز، مشکل کشا اور تنہا مددگار ماننے والے بندے آج بھی کم ہیں۔ خداجب قانونی حکمران سے بڑھ کر ایک محبوب بن جائے، جب اس کے ذکر سے وجود پر سرشاری کا عالم طاری ہوجائے، جب اس کی یاد سے آنکھیں پر نم اور دامن تر ہوجائے، جب اس کا نام لیتے ہوئے زبان میں شیرینی گھل جائے، جب اسے پکارتے ہوئے انسان کی ہچکیاں بندھ جائیں، جب اس کے شوق میں طائرِروح پنجرۂخاکی میں تڑپنے لگے،جب اس کی نشانیاں دیکھ کر دل دہل جائے،جب اس کی کتاب پڑھ کر عقل بے اختیار سجدہ ریزہوجائے، جب اس کے لطف و عنایات دیکھ کروجود سر تاسر نیاز بن جائے،جب اس کی عظمت کے مظاہر دیکھ کر زبان گنگ رہ جائے اور جب انسان خدا کو پاکر سراپا حمد، سراپاتسبیح ، سراپا تقدیس بن جائے تب کہیں جاکر انسان بندگی کی کوئی خوبو لیتا ہے۔
ایسا نہیں کہ انسانوں میں یہ احساسات نہیں۔ ہیں اور بہت ہیں۔ خود مسلمانوں میں بہت سے ہیں جو ایسے جذبات سے سرشار ہیں۔ لیکن یہ جذبات اگر ہیں تو غیر خدا کے لیے ہیں۔ اللہ الرحمن کے لیے نہیں۔غیرِ خدا کی فہرست تو بہت طویل ہے۔ کس کس کا نام لکھوں۔ انسانیت تو ابتدا سے ہی ابلیس کے پھندے میں ایسی پھنسی کہ اس کی ہر چاہت، ہر محبت اور ہر مرعوبیت کا رخ خدا کے غیر کی طرف پھر گیا۔ مملکت و قانون کی سطح پر شرک مرگیا مگر افرادکی سطح پر ابلیس آج بھی اسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
جاری ہے. پینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں