پیسہ پھینک تماشا دیکھ

پیسہ پھینک تماشا دیکھ
پیسہ پھینک تماشا دیکھ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے ہنسی آ رہی ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں وفاداریاں خریدنے ،پیسے دینے اور لینے یعنی ہارس ٹریڈنگ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔کیا پاکستان کے سینیٹ کے لیے منعقد کیے گئے انتخابات میں پہلی با ر ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے یا پہلی دفعہ پیسے دے کر وفاداریاں خریدی گئی ہیں ؟پیسہ پھینک کر تماشا دیکھا جا رہا ہے ؟ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ گزشتہ چار سالوں سے دھاندلی کا رونا رورو کر ن لیگ کے سربراہ کو نااہل کروانے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئر مین عمران خان اپنی جماعت کے حکمران صوبے کے پی کے میں اپنے ایم پی ایز کے چار چار کروڑ روپے کے عوض بکنے پر آگ بگولہ ہیں مگر وہ پنجاب میں مک مکا کے تحت سیٹ نکالنے والے پی ٹی آئی کے سینیٹر چوہدری سرور کے انتخاب پر بولنے سے کترا رہے ہیں۔کیا کے پی کے میں کسی اور کا سینیٹر جیتنا اگر دھاندلی یا ہارس ٹریڈ نگ ہے تو پنجاب میں ایسا کیوں نہیں ؟ 
سینیٹ کے انتخابات کے لیے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ 1973کے آئین کے تحت سینیٹ کو خصوصاً ملک کی وفاق کا بھرپور نمائندہ بنایاگیا ہے جہاں آبادی کے تناسب کے بغیر تمام صوبوں کو ایک جیسی نمائندگی دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کا قانون سازی کے معاملات میں کلیدی کردار رہا ہے ۔حالیہ ملکی سیاسی حالات دیکھ لیں۔ اگر پی ایم ایل کے پاس قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ میں بھی اکثریت ہوتی تو ملکی سیاسی صورتحال قدرے مختلف ہوتی۔ اس لیے سینیٹ ملک میں ایک ایسا متبادل نظام ہے جہاں قومی اسمبلی کے حوالے سے کی جانے والی کوتاہیوں کی بھی درستگی کی جاسکتی ہے۔لیکن کیا سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی روش ایسے ہی جاری رہے گی اور کیا اس عمل کا اثر آئیندہ انتخابات پر نہیں ہوگا؟سینیٹ میں ہونے والی جوڑتوڑ کے بعد تو اب حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ سینیٹ کی نمائندگی کا انتخاب بھی ڈائریکٹ کیا جائے اور سیاستدانوں سے یہ اختیار بھی لے لیا جائے جس کے بدلے انہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے۔
نتیجہ جو بھی ہو سینیٹ کے انتخابات نے پوری قوم کو ایک سبق سکھا دیا ہے کہ ملک کے انتخابی نظام خصوصاً سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کا عمل درآمد بہت زیادہ ہے۔ سندھ سے لے کر فاٹا کے قبائلی علاقوں تک جس طرح عوام کے منتخب نمائندوں کی بولی لگائی گئی ہے اور ہر جماعت نے ان انتخابات پر ایسے ہی انگلیا ں اٹھائی ہیں جیسے پچھلے عام انتخابات پر اٹھائی گئی تھیں۔جہاں ایم کیوایم اور پی ٹی آئی اور دیگر جماعتیں سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا رونا رو رہی ہیں اور پی پی پی کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے وہیں پی پی پی نے ایک دفعہ پھر کرشنا کماری جیسی ورکر کو سینیٹر بنا کرثابت کردیا ہے کہ ملک میں بغیر پیسے کے بھی سینیٹر بنا جاسکتا ہے۔جبکہ ن لیگ کا مسئلہ سب سے مختلف ہے پاکستان کی حکمران جماعت اپنے سربراہ کی نااہلی کے بعد اور انتخابی نشان چھن جانے کے بعد بھی سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کرسامنے آئی ہے لیکن پھر بھی وہ اس معاملے پر عدلیہ کو رگیدنے سے باز نہیں آرہے۔
سینیٹ کے ان نتائج میں سب سے اہم کردار اس وقت پی ٹی آئی کا ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی نے پی پی پی کے ساتھ اتحاد نہ کیا تو وہ بالواسطہ ن لیگ کے ہاتھ مضبوط کریں گے اس لحاظ سے اس دفعہ عمران خان نے بروقت سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے جس طرح بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو اپنے ووٹوں کا بھی اختیار دے دیا ہے اس سے ملک کی سیاسی جوڑ توڑ میں مزید تیزی آگئی ہے اور زردار ی پارٹی کو اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے بھر پور موقع بھی مل گیا ہے۔جبکہ دوسری طرف سینیٹ انتخابات نے واضع کردیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی اور مخلوط حکومت بننے کے زیادہ امکانات ہیں۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -