اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 141

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 141

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے کام پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک چھوٹا بھائی کئی ماہ سے بیمار ہے۔ اسے کوئی ایسی بیماری ہوگئی ہے کہ ٹانگیں سن ہوگئی ہیں اور وہ چل پھر نہیں سکتا۔ میں نے کہا کہ مجھے اس کے پاس لے چلنا۔ دیکھ کر بتاؤں گا کہ اس کا علاج ہوسکتا ہے کہ نہیں۔ رات کو وہ مجھے شہر سے باہر ایک پرانے باغ کے کنارے بنی ہوئی کچی کوٹھڑی میں لے گئی۔ کوٹھڑی میں چراغ دان میں شمع جل رہی تھی۔ ایک بھری بھری مونچھوں والا لمبا ٹرنگا آدمی سر پر رومال باندھے چارپائی پر لیٹا تھا۔ جس پر اسرار آدمی کو میں نے پہلی بار سرائے میں دیکھا تھا۔ وہ بھی سر پر رومال باندھے چارپائی کے قریب ہی بیٹھا، موچھوں والے آدمی کی ٹانگوں پر مالش کررہا تھا۔ میں نے مریض کو دیکھا۔ ٹانگوں کی رگیں سکڑی نہیں تھیں۔ میں نے بھٹیارن کو الگ لے جاکر کہا کہ تمہارے بھائی کا علاج ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے مجھے جنگل میں جاکر جڑی بوٹیاں لانی ہوں گی۔ وہ میری منتیں کرنے لگی۔ میرے دل میں اس عورت کے لئے بڑی ہمدردی پیدا ہوگئی تھی۔ میں دوسرے دن ہی دریا کے کنارے جنگل میں نکل گیا۔ آج سے سات آٹھ سو برس پہلے جنگل قدرت کی پیدا کی ہوئی انمول جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوتے تھے۔ صرف دیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہوتی تھی۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 140 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں جنگل سے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرکے لایا اور اس کی دوائی تیار کی اور بھٹیارن کے بھائی کا علاج شروع کردیا۔میں دن میں ایک بار اس کے پاس جاکر اس کی ٹانگوں پر مالش کرتا اور اسے اپنے ہاتھ سے پندرہ پندرہمنٹ کے بعد دوائی پلاتا۔ اس مونچھوں والے مریض کا نام میرن تھا اور شکل سے مجھے کوئی ڈاکو لگتا تھا۔ مگر مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ وہ کون ہے۔ میں تو اسے بھٹیارن کا بھائی سمجھ کر علاج کررہا تھا۔ اب وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور چار پائی سے اٹھ کر چلنے پھرنے لگا تھا۔
میں آخری دن اسے دیکھنے گیا تو شام کا وقت تھا۔ میں دالان میں ہی تھا کہ مجھے میرن کے کسی سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا۔
’’اگر وہ مالدار ہے تو تم اسے باتوں میں لگا کر کل دوپہر کے بعد جنگل میں لال برجی کی طرف لے آؤ۔ باقی کام میں خود سنبھال لوں گا۔‘‘
دوسرے آدمی نے جواب میں کہا ’’میران! وہ بہت مالدار ہے۔ باپ بیٹا ہیں۔ بڑی حویلی میں اترے ہوئے ہیں۔ سوداگر ہیں۔ باپ اور بیٹا دونوں سونے کی ڈلیاں اپنی کمر کے ساتھ باندھ رکھتے ہیں۔ میں نے سب کچھ معلوم کرلیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تم کل دوپہر کے بعد پہلے باپ کو اور پھر اس کے بیٹے کو کسی بہانے حولی سے نکال کر لال برجی کے پیچھے لے آنا۔ میرا رومال دونوں کا کام تمام کردے گا۔‘‘
میں دالان میں ستون کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔ رومال کا لفظ سن کر میں سب کچھ سمجھ گیا۔ یہ آدمی جس کو میں نے دوبارہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا کیا تھا۔ وہ ایک ٹھگ تھا۔ ہندوستان کے ٹھگوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انہیں عروج اور شہرت آگے چل کر ملی۔ مگر اس سے پہلے بھی ان کی ہلاکت خیزیاں جاری تھیں۔ یہ لوگ اکا دکا مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار کر انہیں لوٹ لیتے تھے۔ ان کے ہلاک کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک ٹھگ بدنصیب شکار کو باتوں میں لگائے رکھتا تھا اور دوسرا ٹھگ پیچھے سے پلک جھپکنے میں اس کی گردن کے گرد رومال ڈال کر ایک ہی جھٹکے سے گردن کا منکا توڑ دیتا تھا۔ پھر یہ ٹھگ لاش کو زمین کھود کر دفن کردیتے تے۔ ان ٹھگوں کی اپنی زبان اور اپنے اشارے ہوتے تھے۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ یہ لوگ واردات کرنے سے پہلے کالی دیوی کے مندرمیں جاکر مورتی کے آگے ناریل توڑتے اور نذرانہ چڑھاتے اور دعا مانگتے تھے کہ وہ اپنی واردات میں کامیاب و کامران ہوں۔
میں کوٹھری کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ اندر میرا مریض یعنی بدمعاش ٹھگ میرن چارپائی پر نیم دراز تھا اور اس کی پائنتی کی طرف وہی رومال والا پراسرار آدمی بیٹھا اس سے باتیں کررہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چپ ہوگیا۔ میرن نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا
’’شاہ جی! آپ ویسے تو نوجوان ہیں مگر بڑے تجربہ کار طبیب ہیں۔ دیکھئے آپ کے علاج سے میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔ یہی بات میں اپنے دوست کو بتارہا تھا۔‘‘
پھر اس نے اپنے دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’بشیر سے کہو میرے لئے روٹی پکا کر رکھے۔‘‘
اب اس کی تصدیق ہوگئی کہ یہ لوگ واقعی بڑے سفاک ٹھگ ہیں کیونکہ ’’بشیر اور روٹیاں پکانا‘‘ ان ٹھگوں کے کوڈ ورڈ تھے۔ میں نے میرن ٹھگ کو دوائی پلائی۔ اس کی ٹ انگوں کو دبا کر دیکھا اور کہا کہ اب وہ بالکل درست ہے۔ اور اب اسے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ میرن ٹھگ نے میرا بہت شکریہ ادا کیا اور سرہانے کے نیچے سے پندرہ اشرفیاں نکال کر مجھے پیش کیں۔ میں اشرفیاں تھیلی میں رکھ کر خاموشی سے وہاں سے چلا آیا۔ دل میں یہ عہد کرچکا تھا کہ سوداگر اور اس کے بیٹے کو ان سفاک ٹھگوں کے ہتھے نہیں چڑھنے دوں گا۔
دوسرے روز دن کی روشنی میں مَیں نے شہر کی ساری حویلی کو دیکھ لیا مگر مجھے وہاں کوئی سوداگر باپ بیٹا نظر نہ آئے۔ دوپہر کے وقت میں لال برجی کا کھوج لگا کر وہاں درختوں کے پیچھے جاکر چھپ گیا۔ مجھے اپنی جان کا بھی خطرہ تھا۔ اگرچہ میرن ٹھگ کی میں نے جان بچائی تھی مگر یہ لوگ اپنے پیشے کے بارے میں بڑے سخت تھے اور اپنے راستے میں حائل ہونے والے اپنے محسن کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ میں ان سنگ دل ٹھگوں کی بہت کہانیاں سن چکا تھا۔
لال برجی ایک دو منزلہ چھوٹی سی گول عمارت تھی جس کے عقب میں ایک تالاب تھا۔ میں تالاب کے قریب ہی ایک درخت کے نیچے گھنی جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ میں نے دو آدمیوں کے باتیں کرنے کی آواز سنی۔ لال برجی کی طرف جو درخت تھے ان میں سے دو آدمی باتیں کرتے نکلے۔ ان میں سے ایک تو وہی رومال والا پراسرار ٹھگ اور میرن کا ساتھی ٹھگ تھا اور دوسرا ایک بزرگ صورت درویش نما انسان تھا جس نے سر پر کلاہ پہن رکھا تھا۔ بدن پر لمبا چغہ تھا۔ لمبی شرعی داڑھی تھی اور ہاتھ میں تسبیح تھام رکھی تھی۔ یہ کوئی پرہیز گار اور عبادت گزار مسافر تھا جس کو یہ سفاک ٹھگ ہلاک کرنے والے تھے۔ پہلے اس کی باری تھی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتاراجانے والا تھا۔ عبادت گزار سوداگر درختوں کی طرف نگاہ ڈال کر بولا
’’بھائی صاحب! مجھے تو یہاں کوئی مسجد دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
’’حضرت، ان درختوں میں ہے۔ بڑی قدیم مسجد ہے۔ کہتے ہیں وہاں رات کو اللہ اکبر اللہ اکبر کی آوازیں آتی ہیں۔‘‘
’’اللہ اللہ! اللہ اللہ!‘‘
وہ بزرگ سوداگر بے اختیار پکار اٹھا اور ٹھگ کے ساتھ آگے بڑھا۔ یہاں دوپہر کے بعد بڑی ویرانی تھی۔ دور دور تک کوئی انسان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری آنکھیں میرن ٹھگ کو تلاش کررہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ مجھے باہر نکل کر بزرگ سوداگر کو خطرے سے آگاہ کردینا چاہیے۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک جھاڑی کے پیچھے سے میرن اپنے سر پر رومال باندھے چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ نکل کر بزرگ سوداگر پر جھ]ٹا۔ میں نے روک کر کہا
’’خبردار! خبردار!‘‘
اور میں درختوں میں سے نکل کر ٹھگوں کی طرف بھاگا لیکن عین اس وقت کیا دیکھا کہ اس بزرگ سوداگر نے جسم کو ایک جھٹکا دیا اور میرن ٹھگ ایک چیخ مار کر زمین پر وہیں گرتے ہی ایک فٹ زمین سے اچھلا۔ پھر گرا اور دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ یہی حال اس کے ساتھی کا ہوا۔ دونوں زمین پر بے حس و حرکت پڑے تھے۔ میں بھاگ کر بزرگ سوداگر کے پاس گیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ انہوں نے مسکرا کر کہا
’’بیٹا! میں تو اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوں مگر ظالموں کو ان کی نیت کی سزا مل گئی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تسبیح پھیرتے منہ میں کچھ پڑھتے واپس ہوگئے۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ دونوں ٹھگ اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے اور ان کے جسم نیلے ہوکر سردلاشوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ میں بزرگ سوداگر کے پیچھے پیچھے چلا۔ یہ کوئی کرامت والا خدا دوست بزرگ تھا۔ اس نے اپنی کسی غیبی طاقت سے اپنے قاتلوں کو جہنم رسید کردیا تھا۔ میں بزرگ سوداگر کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ وہ ایک حویلی میں داخل ہوگئے جس کی ڈیوڑھی میں ایک ہاتھی بندھا ہوا تھا۔ ڈیوڑھی کے اندر پائیں باغ کے وسط میں ایک حوض تھا۔ پہلو میں کچھ کوٹھریاں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایک کوٹھری میں داخل ہونے لگے تو میری طرف مڑ کر دیکھا اور ہاتھ سے قریب بلایا
’’بیٹا تم نے میری جان بچانے کی کوشش کی تھی۔ میں اس کے بدلے میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ کوٹھری کے باہر بچھے ہوئے تخت پر بیٹھ گئے۔ میں ان کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ بولے
’’تم نے ابھی ابھی جو کچھ دیکھا اسے بھول جاؤ۔ جو مجھے بے گناہ قتل کرنے کی کوشش کرے گا اس کا یہی انجام ہوگا۔ جب انسان اپنا آپ اللہ کے سپرد کردیتا ہے تو اللہ اس کی حفاظت کے لئے کاص فرشتے مقرر کردیتا ہے جو اس کو ہر آفت سے بچاتے ہیں۔‘‘
میں نے بڑی عقیدت سے کہا
’’میں دہلی سے آیا ہوں۔ میرا نام عبداللہ ہے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔‘‘
’’بیٹے میں جانتا ہوں تم کہاں سے آئے ہو۔ تم بڑی دور سے آئے ہو اور تمہیں بہت دور جانا ہے اور تمہارا اصل نام عبداللہ نہیں ہے۔ تمہاری ایک بڑی انمول چیز کھوگئی ہے۔ اسی سلسلے میں مَیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
مجھ پر یہ بات کھل گئی کہ یہ بزرگ سوداگر میرے سارے احوال سے واقف ہیں۔ میں نے دست بستہ ہوکر عرض کیا۔
’’حضرت جی! اگر آپ پر میرا ظاہر و باطن عیاں ہے تو برائے خدا میری مدد کیجئے۔ میری کھوئی ہوئی شے مجھے واپس دلادیجئے۔‘‘
بزرگ سوداگر گردن جھکا کر گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر چہرہ اوپر اٹھای۔ میری طرف ایک نگاہ ڈالی اور آہستہ سے کہا
’’بیٹا! اگر یہ ہمارے اختیار میں ہوتا تو ہم تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی قوت بحال کرکے یہاں سے رخصت کرتے لیکن تم پر ایسے گندھیرو کے طلسم کا اثر ہوچکا ہے جو زمین کے سفلی علوم کا سب سے بڑا گندھیرو ہے۔ جادو برحق ہے۔ آدمی کی قوت ارادی کمزور ہو تو اس کا اثر ہوجاتا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا ’’حضرت صاحب! کیا میں ناامید ہوجاؤں۔‘‘
انہوں نے کہا’’ناامیدی گناہ ہے۔ دنیا میں کوئی جادو ایسا نہیں جس کا کوئی توڑ نہ ہو تم پر جو جادو کیا گیا ہے۔ اس کا بھی توڑ موجود ہے مگر وہ ہمارے پاس نہیں ہے لیکن تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔ یہاں سے پندرہ یوم کی مسافت پر ملک خاندیس میں برہان پور کے مقام پر ایک دریا بہتا ہے۔ دریا کے پرانے گھاٹ پر اوپر کی طرف چٹانوں میں ایک گپھاہ ہے۔ ہر چاند کی پندرہویں کو ایک جٹادھاری سادھو اس گپھاہ میں آدھی رات کو آتا ہے۔ گپھاہ کے باہر چٹان کے چبوترے پر بیٹھ کر بھگوان کی عبادت کرتا ہے۔ اس کے پاس جب وہ عبادت سے فارغ ہوجائے تو اسے کہو۔ مہاراج! پیر جی نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ اس کے بعد خاموش ہوجانا۔ تم جتنی جلد ہوسکے برہان پور روانہ ہوجاؤ۔‘‘(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 142 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں