تھیلی سیمیا روک تھام، تما م سٹیک ہولڈرز کردار اد اکریں: سید قاسم علی شاہ
پشاور(سٹاف رپورٹر) تھیلی سیمیا جیسی موذی اور لاعلاج مرض کے روک تھام کے لئے حکومت سیاسی جماعتوں علمائے کرام میڈیا اور معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر اپنا مثبت اور تعمیری کردار اداکرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے علاوہ اس موذی مرض کا تاحال کو?ی علاج موجود نہیں ہے لہٰذا تھیلی سیمیاء کے مزید پھیلاو پر قابو پانے کاواحد حل احتیاطی تدابیر پر عمل ہی ہے اور دنیا کے اہم ممالک اٹلی،یونان،مصراور بنگلہ دیش سمیت یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک نے اختیاطی تدابیر پر عمل کے نتیجے میں تھیلی سیمیاء کے مرض پر قابوپایاھے یہ وہ ممالک ہیں جن کاشمار آج سے 15اور 20 سال قبل دنیا بھر میں تھیلی سیمیاء سے متاثرہ ٹاپ ممالک میں ہوتا تھا۔ان خیالات کا اظہار پیدائشی طور پر خون کی کمی کے موذی مرض تھیلی سیمیاء میں مبتلا بچوں کی حالت زار اور اس کے روک تھام کے حوالے سے الخدمت ہسپتال کے زیراہتمام تھیلی سیمیاء کے عالمی دن کی مناسبت سے الخدمت ہسپتال نشترآباد میں منعقدہ سیمینار سے صوبائی وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار سے جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالواسیع،الخدمت فاونڈیشن کے صوبائی صدر خالدوقاص، ڈاکٹر نوید شریف اور ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اقتدار احمد روغانی نے خطاب کیا جبکہ تقریب میں الخدمت کے صوبائی ڈائریکٹر تھیلی سیمیاء فدامحمد خان،صوبائی میڈیا منیجر نورالواحدجدون،ڈپٹی ہیلتھ منیجر زاہد علی،تھیلی سیمیاء کوآرڈینیٹرنثار علی اور دیگر ذمہ داران بھی تقریب میں شریک تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اسوقت خیبرپختونخوا میں ایک مختاط اندازے کے مطابق تھیلی سیمیاء میں مبتلا مریضوں کی تعداد بیس سے پچیس ہزار ہیں اور ہرسال ان میں پانچ ہزار مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے۔مقررین نے کہا کہ شادی سے پہلے میاں بیوی کے لئے ٹسٹ لازمی قراردینے کا قانون ایم ایم اے دور میں بنا تھا انہوں نے کہا کہ قانون کا اصل فائدہ تب ہوتا ہے جب اس قانون کو عملی بنایا جائے اور تھیلی سیمیاء سے متعلق اب بھی عوام میں شعور بیدار کرنا ہی وقت کی اولین ضرورت ہے کیونکہ تاحال اس مرض کا علاج نہیں ہے اور جب تک کسی مرض کا علاج نہ ہو تو اختیاط ہی اس مرض کا بہترین علاج ہوتا ہے۔تھیلی سیمیاء کے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ خاندان میں کزن میرج بھی اس موذی مرض کے پھیلاو کا ایک زریعہ ہے جس کے روک تھام کیلئے شادی سے قبل ٹسٹ کے قانون پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔مقررین نے الخدمت ہسپتال نشترآباد کے ساتھ رجسٹرڈتھیلیسیمیا مریضوں کی دیکھ بھال، علاج اوراس مرض کی پیچیدگیوں سے شرکاء کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کیساتھ 600سے زائد تھیلی سیمیا کے مریض رجسٹرڈ ہیں جن کو باقاعدگی کے ساتھ مفت خون اور دیگر طبی ریلیف کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ رجسٹرڈ مریضوں کا تعلق خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہیں اور الخدمت انہیں بلامعاوضہ خون اور دیگر طبی امداد فراہم کررہا ہے۔اس موقع پر ہسپتال کے ڈائریکٹر نے معززمہمانان گرامی کو یادگاری شیلڈز پیش کئے جبکہ سیمینار کے اختتام پر الخدمت ہسپتال نشترآباد کے سامنیتھیلی سیمیاء سے آگاہی کے سلسلے میں واک کا اہتمام بھی کیا گیا۔