پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب!

پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب!
پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”آئی لو پاکستان”یہ وہ الفاظ ہیں جو امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان پر اس وقت آئے جب وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران تنقید کے بعد خطاب میں کہے تھے،میں حیران ہوں کہ پاکستان کے خلاف شعلے اگلنے والی زبان سے پیار اور محبت کے لفظ کیسے نکل آئے؟
اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کو اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ تک لانے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جیتنے کے دو منٹ میں پاکستان سے لانے کا دعویٰ کرنیوالے،پاکستان کو دنیا کیلئے بڑا خطرہ قرار دینے والے شخص کے منہ میں محبت کی زباں کیسے آگئی؟آپ کو یاد ہوکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کب تک 2مئی کے آپریشن پر معافی نہیں مانگے گا،2011ءمیں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان امریکہ کا دوست نہیں ہے،یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف بھارت کو چیک کرنا ہوگا۔
جناب ٹرمپ بھارت کے بیانات کی تائید کرتے رہے ہیں،ان کا ہمیشہ بھارت کی طرف جھکاﺅ رہا ہے،وہ نریندر مودی کی بھی تعریف کرتے نظر آئے ہیں،کراس بارڈر ،اسلامی انتہا پسندی کی باتیں کرتے رہے۔
صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے مسلمانوں کو امریکہ کیلئے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں،ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کئی متنازع اور نسلی امتیاز پر مبنی بیانات دیئے اور خاص طور پر انہوں نے مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جس پر ان کی اپنی جماعت کے ارکان نے اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دیا،یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا کہ صدارت کے ابتدائی 100 روز کے دوران غیرقانونی اور جرائم پیشہ 20 لاکھ غیر ملکیوں کو ملک سے بیدخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور غالب امکان تھا کہ ملک سے بیدخل کئے جانے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ ایسے ممالک جہاں دہشت گردی جڑیں پکڑ چکی ہیں وہاں سے امریکا آنے والوں پر بھی فوری پابندی عائد کردینی چاہیئے اور یہ پابندی اس وقت تک ہونی چاہیئے جب تک کوئی ایسا طریقہ کار وضع نہ کرلیا جائے جس سے دہشت گردوں کو شناخت کیا جاسکے۔
امن، محبت اور جمہوریت کی باتیں کوئی اور کرتا تو مان بھی لیتے، ایک انتہا پسند سوچ رکھنے والے امریکی صدر کی زبان پر ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں،جو جمہوریت کو جمہور کی نہیں اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔
امریکہ نے جب بھی کسی بھی ملک،کسی بھی قوم کیلئے محبت کی بات ہے اس کے نتائج بڑے بھیانک نکلے ہیں،امریکہ نے محبت اور جمہوریت کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی،عوام کے تحفظ کیلئے غلط معلومات پر عراق میں کیمیائی اور ایٹمی ہتھیاروں کے بہانے صدام کی آمریت ختم کی، لاکھوں جمہور کی گردنوں کو تہ تیغ کیا، پھر بھی جمہوریت نصیب نہ ہوئی، معمر قذافی کے ہنستے بستے لیبیا کو قبرستان بنایا،تیونس، مصر، یمن میں ”عرب بہار“ کا ڈرامہ رچایا،مصر میں جب جمہور نے اسرائیل اور امریکہ کی توقعات کے برعکس فیصلہ دیا تو ایک سال بعد ہی منتخب حکومت ختم کروادی۔
شام میں اسی محبت کے نام پر انسانوں کا خون کیا جارہا ہے، داعش تو بہانہ ہے،ایسے ہی جیسے افغانستان کے طالبان،عراق کا صدام تھا۔کل طالبان ظالم تھے،اسامہ دہشتگرد تھا تو آج شام کا بشارالاسد، داعش جو اپنے آپ کو خلافت کے پیروکار کا نام دیتے ہیں۔ستم یہ ہے کہ کل پاکستان اور قطر نے امریکہ کے لیے راستے ہموار کیے تھے تو آج ایران ، سعودی عرب اور عرب امارات یہ سہولت فراہم کررہے ہیں۔
امریکہ جب بھی کسی مسلمان ملک کیلئے ”محبت“ کا اظہار کرتا ہے تو اس کی خیر نہیں ہوتی،امریکہ دنیا میں ایک ایسا دوست ہے جس کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔اس کا برملا اعتراف ایک سابق امریکی صدر کرچکے ہیں،کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی دشمن کو تباہ کرنا ہے تو اسے دوست بنا لو۔معروف امریکی مصنف نوم چومسکی کا خیال کہ امریکہ کا دشمن ہونے سے بدتر اس کا دوست ہونا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر نے جب سے پاکستان کے بارے میں پیار اور محبت کی بات کی  ہے۔  ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہوں،امریکہ کی دشمنی سے اتنا خوف اور ڈر نہیں جتنا اس کی محبت اور پیار سے لگتا ہے،جناب ٹرمپ کے تھپڑ سے نہیں پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -