جنت اور عزتِ نفس
دورِ جدید میں جہاں دیگر علوم و فنون پر بہت غیر معمولی کام ہوا ہے وہیں وجودِ انسانی پر بھی ہر ہر پہلو سے بہت غیر معمولی تحقیقی کام ہوا ہے۔ خاص کر انسانی شخصیت، نفسیات اور رویوں پر ہونے والے کام کے نتیجے میں ہماری معلومات بہت بڑھ چکی ہیں۔ انسانی نفسیات پر ہونے والے کام سے یہ بات نمایاں ہوکر سامنے آئی ہے کہ بنیادی انسانی ضروریات میں جس طرح کھانا اور پانی شامل ہے اسی طرح عزتِ نفس بھی ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دیگر بنیادی ضروریات مثلاً ہوا، پانی، کھانا وغیرہ تو انسان اور دیگر جانوروں میں مشترک ہیں ، لیکن عزتِ نفس وہ ضرورت ہے جو صرف اور صرف انسان کا خاصہ ہے۔
عزتِ نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدر کی جائے۔ اس کی ذات کا اعتراف کیا جائے۔ اس کے کاموں کی قدر کی جائے۔ اس کی تعریف و توصیف کی جائے اور اس کی عزت و وقار کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ جو انسانی نفسیات کو سب سے بڑھ کر جانتے ہیں ، انھوں نے اپنے پاک کلام میں جہاں اہل جنت کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں جگہ جگہ اس چیز کو بیان کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے کہ جنت وہ مقام ہے جہاں نہ صرف انسان کے جسمانی وجود کی ضروریات کا تمام تر خیال رکھا جائے گا بلکہ اس کی منفرد نفسیاتی ضرورت یعنی عزتِ نفس کی تسکین کا بھی مکمل اہتمام کیا جائے گا۔
اللہ سے ملاقات، اس کا دیدار، اس کی رضا کا پروانہ، اس کی طرف سے اعمال کی قبولیت اور قدردانی، اس کے پاس سے شرابِ طہور کا براہ راست عطا کیا جانا، فرشتوں کا سلام اور تعریف کرنا جیسی چیزیں قرآن و حدیث میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر انعامات کے بیان کا مقصد اس بات کی وضاحت ہے کہ جنت صرف جسمانی راحت کی جگہ نہیں بلکہ کامیاب لوگوں کی بھرپور قدردانی اور عزتِ نفس کی تسکین کی بھی آخری جگہ ہو گی۔ یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ جدید نفسیات کی ترقی سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے کہ انسانی ضروریات کیا کیا ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔