علامہ اقبال ، شاعر ، فلسفی اور انقلابی رہنما
شاعر اور ادیب کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ عوام الناس کی نسبت ان کی سوچ کا دائرہ نسبتا وسیع ہوتا ہے ۔ ادیب کے تخلیق کردہ ادب اور ایک شاعر کی تخلیقی کاوش معاشرے کے ایک بڑے طبقے کی ترجمانی کرتی اور اسکی عکاس ہوتی ہے ۔
جہاں بات شاعری کی آتی ہے تو وہاں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ مذکورہ شاعر کا کلام اب تک زندہ ہے یا نہیں ـ؟ اس میں مقصدیت اور معنویت ہے یا نہیں اور وہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرسکا ہے یا نہیں؟ علامہ اقبال کی شاعری میں یہ تینوں خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ ان کی شاعری میں مقصدیت ہے وہ کہیں نوجوانوں کو’’ شاہین ‘‘ قرار دیتے ہیں تو کبھی انسان کو ’’ خودی ‘‘ پر آمادہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کا کلام آج بھی اپنی زندگی اور تازگی لئے ہوئے ہے ، زمانے کے گذرنے اور شعری تغیر و تبدل نے ان کی شاعری کو گہنایا نہیں بلکہ اسے بھی اور بھی نکھار بخشا ہے ۔ جہاں تک بات رہی علامہ اقبال کے ایک وسیع تر حلقے کو متاثر کرنے کی تو آج ہر قوم انھیں اپنا شاعر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ وہ شاعر مشرق تو ہیں ہی لیکن فارس بھی ان کی شاعری پر جھوم اٹھتے ہوئے انھیں اپنا قرار دیتا ہے ۔
ان کی شاعری کو مقبولیت کی سند تو تب ہی حاصل ہو گئی تھی جب انھوں نے لاہور کے بازار حکیماں میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر تھا ۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
علامہ اقبال جدید دور کے صوفی ہیں ، گویا فلسفہ اور منطق کے امام ہیں ، ان کا کلام بیک وقت مشکل اور سہل نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسکے بحال کرنے کی شدید خواہش پر مبنی ہے ۔ وہ مسلمانوں کی امت کو دنیا کی تمام تر اقوام سے اعلی اور ارفع سمجھتے ہیں ۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ۔
یعنی مسلمانوں کی تہذیب اپنے آپ میں ایک حیثیت ایک توانائی رکھتی ہے ، نوجوانوں کو مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہونے کی بجائے اپنی ملت اور اپنے مذہب سے وابستہ رہنا ہوگا اور یہی مرد مومن کی بقا کا ذریعہ ہے ۔
اگرچہ کہ انھیں فلسفے سے بہت دلچسپی تھی ، وہ انیس سو سات میں ہائیڈلبرگ اور میونخ بھی گئے وہ نطشے کی تعلیمات سے بہت متاثر تھے ۔ ، پی ایچ ڈی مقالے کے لئے جرمنی گئے تو وہاں چھ ماہ جرمنی سیکھنے کے لئے ہائیڈلبرگ جرمنی میں پرانی عمارت میں قیام کیا جس کی تختی پر آج بھی ان کے بارے میں تحریر ہے ۔
Dr. Iqbal, National Philosopher, Poet and Spiritual Father of Pakistan lived here in 1907
ان کے نام سے ایک گلی بھی منسوب ہے جسے ’’ اقبال اوفر ‘‘
کہا جاتا ہے
Iqbal Ufer
اگرچہ وہ جرمن فلاسفرز سے متاثر ضرور تھے
لیکن ان کے اندر کا درویش مولانا جلال الدین رومی کو ہی اپنا راہ نما تسلیم کرتا تھا ۔ ایران میں قیام کے دوران روحانی ترقی کے موضوع پر انھوں نے مقالہ لکھا ، فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھاتے بھی رہے ۔ لیکن ان کی بے چین فطرت نے انھیں ہمیشہ حرکت و عمل پر اکسائے رکھا ۔
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
علامہ اقبال روایت شکن شاعر ہیں ان کا کلام دنیا کے کسی بھی عظیم شاعر کے کلام سے کم نہیں ۔ ان سے پہلے غزل اور نظم کے موضوعات میں ساقی ، گل و بلبل ، مے خانہ اور غزال کا زکر ملتا تھا لیکن انھوں نے مرد مومن ، شاہین ، خودی ، لالہ و جگنو ، فطرت ، ابلیس ، خودی جیسے موضوعات کو بھی متعارف کروایا ۔ علامہ اقبال کو انقلابی راہ نما اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلم امہ خصوصا نوجوانوں میں انقلابی روح پھونک دی ۔ انھوں نے نوجوانوں کو شاہین قرار دیا ، شاہین کی تمام تر خصوصیات کا احاطہ کیا کہ وہ کبھی کسی کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا ، غیرت مند ہوتا ہے ، بے تعلق ہوتا کیونکہ آشیانہ نہیں بناتا ۔
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو مری یہی ہے
کہ مرا نور بصیرت عام کر دے ۔
اسی طرح ایک جگہ ارشاد فرمایا
نہیں تیرا نشمین قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
بابائے اردو مولوی عبدالحق ایک جگہ لکھتے ہیں
’’اقبال برصغیر ہی کے نہیں ، بنی نوع انسان کی لازوال تہذیب کے ایک برگزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے ۔ ‘‘
علامہ اقبال نے خودی کو خودشناسی ، معرفت نفس اور عزت نفس کے معنوں میں لیا ہے ، خودی انسان کی انفرادی زندگی کی اعلی ترین صورت کا نام ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ان کے ہاں خودی سے مراد اپنی صلاحیتوں کو پہنچانتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنا ہے ، خودی ذات کی پہچان ہے اسی طرح ایک جگہ فرماتے ہیں ۔
خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار و پرنیاں و حریر
علامہ اقبال شاعری میں برہنہ گفتاری کے قائل نہیں ، وہ اپنے الفاظ کے انتخاب میں بھی بہت محتاط ہیں ، وہ عظمت آدم کے علمبردار ہیں مغرب کو روحانی طور پر بیمار تصور کرتے ہیں ۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگہ دو
کاخ امرا کے درودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر شوخہ گندم کو جلا دو ۔
علامہ اقبال نسل اور ذات پرستی کے بہت مخالف تھے ،
وہ اسلام اور مسلمانوں کو ان کے عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں اور ان کی ثقافت ، تہذیب و تمدن اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے انیس سو تیس میں خطبہ الہ آباد پیش کرتے ہیں گویا دو قومی نظریہ اور پھر بتدریج قیام پاکستان کی راہ میں کامیابی کا پہلا سہرا خطبہ الہ آباد کو ہی جاتا ہے جس میں خاص طور پر مسلماناں ہند کی جداگانہ حیثیت کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
ان کی شاعری کا محور نوجوان ہیں ، وہ نوجوانوں کے طرز تغافل کی شکایت تو کرتے ہیں لیکن ان کے مستقبل سے مایوس بھی نہیں کہ ان کے نزدیک یہ جوان باصلاحیت تو ہیں لیکن فی الوقت خوب غفلت میں ہونے کے باعث شاہین نہیں ہیں ۔ علامہ اقبال اجتماعیت کے حامی تو ہیں لیکن ان کے نزدیک ہر فرد کی اپنی اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اقبال نے جب شکوہ نظم کہی تو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن پھر انھوں نے جواب شکوہ لکھ کر متعرضین کو لاجواب کر دیا
شکوہ
کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
بالے بلبل کے سنون اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جواب شکوہ میں گویا اپنے ہی اشعارسے پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
ایک اور مثال ملاحظہ ہو
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ و منزل ہی نہیں ۔
علامہ اقبال کے افکار میں ’’مرد مومن ‘‘ یا ’’ انسان کامل ‘‘ کا ذکر جا بجا ملتا ہے ۔ اس کے لئے وہ ’’مرد حق ، بندہ آفاقی ، بندہ مومن ، مرد خدا اور اس قسم کی بہت سی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ایک ہی ہستی کے مخلتف نام ہیں جو اقبال کے تصور خودی کا مثالی پیکر ہیں ۔
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے ۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کارکشا ، کار ساز
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ۔
فقیر سید وحید الدین کا شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے گہرا تعلق رہا ، ان سے وابستہ مختلف واقعات کو فقیر سید وحید الدین نے ’’ روزگار فقیر ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع بھی کیا ۔
ایک واقعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں علامہ اقبال سے زمانے کی ناقدری کا گلہ کر رہا تھا تو وہ کہنے لگے کہ بالکل تم غور کرو تو معلوم ہو گا کہ جب شاعر کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں تو دنیا سو رہی ہوتی ہے اور جب شاعر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو دنیا ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور دنیا صدیوں اسکی تعریف و توصیف کے گن گاتی رہتی ہے ۔
فقیر وحید الدین کے ایک ساتھی سید واجد علی شاہ ان کے ہمراہ موٹر کار میں علامہ سے ملنے آئے ، واجد علی شاہ صاحب کو کتے پالنے کا بہت شوق تھا ، علامہ کے گھر پہنچتے ہی فقیر صاحب اور واجد علی شاہ ملاقات کے لئے گئے تو کتوں کو گاڑی میں ہی چھوڑ دیا ، اتنی دیر میں علامہ کی چھوٹی بیٹی منیرہ بھاگی بھاگی آئی اور کہنے لگی ’’ابا جان موٹر میں کتے آئے ہیں ۔ ‘‘ علامہ اقبال نے ان دونوں اشخاص کی جانب اشارہ کیا اور کہا نہیں بیٹا یہ تو آدمی ہیں ۔ یعنی علامہ اقبال کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کے لئے یہ دو واقعات ہی کافی ہیں ۔
علامہ اقبال کی شاعری آفاقی ہونے کیساتھ ساتھ ہمہ گیریت پر مبنی ہے ۔ ان کا کلام لازوال اور بے مثال ہے اور آج دنیا ان کے افکار کی روشنی میں کامیابی کی منازل طے کر رہی ہے ۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔