الحاج میاں محمد شریف:ایک عہد ساز شخصیت!
شرافت کے پیکر الحاج میاں محمد شریف (مرحوم) کی سوانح حیات پر نظر ڈالیں تو اس میں نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد کے لئے کئی اسباق پوشیدہ ہیں،کسے معلوم تھا کہ 1920ء کے عشرے میں جاتی عمرہ (امرتسر) میں پیدا ہونے والا بچہ مستقبل میں پاکستان کی صنعت اور سیاست میں منفرد مقام حاصل کرے گا اور پاکستان کی سیاست پر زیادہ اثر انداز ہونے والا فرد بن جائے گا لیکن یہ سب کاتب تقدیر نے الحاج میاں محمد شریف کے مقدر میں لکھا تھا جنہوں نے اپنے مستقبل اور تقدیرکو تدبیر محنت، عزم، ہمت، جفاکشی اور جدوجہد سے سنوارا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر کے جاتی عمرہ سے 4کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں نیویں سرلی سے حاصل کی بعدازاں ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی اور لاہور کے مسلم ہائی سکول رام گلی میں داخلہ لیا میٹرک کے بعد مزید تعلیم اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے حاصل کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں ملک میں صنعتوں کیلئے ماحول سازگارتھاتو الحاج میاں محمد شریف نے بھی ایک چھوٹا ساصنعتی یونٹ لگایا 70ء کی دہائی تک حالت یہ ہوگئی تھی کہ ان کے صنعتی ادارے میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد پاکستان کے کسی بھی ادارے سے زیادہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ جس کو دیتا ہے انہیں آزمائش میں بھی ڈالتا اور آزماتا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں الحاج میاں محمد شریف کی فیکٹریوں کو قومیانہ بھی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش تھی لیکن الحاج میاں محمد شریف خداوند کریم کی طرف سے اس آزمائش پر پورے اترے، صبر و استقامت کیساتھ حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کیا1979 ء کو اتفاق فاؤنڈریز تباہ شدہ حالت میں واپس کی گئی محنت کی عظمت پر یقین رکھنے والے الحاج میاں شریف نے دن رات محنت سے چند برس میں اس ادارے کو دوبارہ منافع بخش بنایا اور ہزاروں خاندانوں کو دوبارہ روزگار ملا الحاج میاں محمد شریف نے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن ان کے بیٹوں کی عملی سیاست کے پیچھے انہی کے فیصلوں کا دخل تھا۔الحاج میاں محمد شریف نے نہ صرف اپنے بیٹوں کو سیاست سکھائی بلکہ اپنی بہوبیگم کلثوم نواز کو سیاست میں لانے کا فیصلہ بھی انہی کا تھا وہ پاکستان میں صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور قانون کی حکمرانی کو نافذ ہوتادیکھنا چاہتے تھے۔ آپ کی مذہبی،سماجی، تجارتی اور سب سے بڑھ کر انسانی ہمدردی کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں ان کو ایک عظیم صاحب کردار، انسان دوست اور ماہر تجارت کے طور پر شہرت حاصل ہوئی۔
ایک شفیق باپ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی اولاد اور کنبے کے جملہ افراد کی سرپرستی فرماتے ہوئے اسلائی شعائر کے مطابق پرورش اور تربیت فرمائی۔ یہ انہی کی نگہداشت کا کرشمہ ہے کہ محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف پرقوم بجا طور پر فخر کرتی ہے جنہوں نے ملک و قوم اور ملت اسلامی کی بے پناہ خدمات انجام دیکرعظیم باپ کے لائق بیٹے ہونے کا ثبوت دیا۔ الحاج میاں عمر شریف بنیادی طور پر صنعت کار تھے لیکن اپنے سیاسی تجربہ اور بصیرت کی بدولت اپنے صاحبزادوں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کوانہوں نے سیاست کے میدان میں ایسا بلند مقام دلوایا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔پاکستانی سیاست میں ان کا کردار کسی صورت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا وہ ہمیشہ اس بات پرفخر کرتے رہے ایک چھوٹی سی ورکشاپ سے تن تنہا آغاز کیا اور صنعت کاروں کے لئے ایسی مثال قائم کی کہ آج بھی سب کے لئے باعث رشک ہے۔ آپ با جماعت نماز کی ادائیگی رات کے وقت گھر میں قرآن پاک اور احادیث نبویؐ کے حوالے سے تعلیمات دیتے تھے۔ رات کے3 بجے اُٹھ جاتے اور تہجدکی نماز پڑھتے۔نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اشراق کے نوافل ادا فرماتے اور اس کے بعد ناشتہ کرتے۔آپ داتا دربار لاہور میں متواتر 14سال تک نماز کی اقامت فرماتے رہے۔ چار سالہ ملک بدری کے طویل ایام حرمین شریفین ان کا مسکن رہا نماز، روزہ، حج عمرہ، زکوٰتہ، خیرات، صدقات، شفقت محبت، شرافت، قناعت، سخاوت تحمل اور برداشت زندگی کے قیمتی اثاثے تھے۔ الحاج میاں محمد شریف ہر سال مزدوروں اور کارکنوں کو عید کا جوڑا سلوا کر تحفتاً دیتے تھے۔ جدہ میں سرور پیلس میں رہتے ہوئے بھی رائیونڈ میں اپنے فارم ہاؤس جاتی عمرہ کے بے شمار حاجت مندوں کی معاونت کرتے رہے۔آپ کی طبیعت میں سادگی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہر سال دوستوں اور لوگوں کوعید گفٹ دیتے۔سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ سیدھے سادھے لباس جو عموماً سفید شلوارقمیض، واسکٹ یا شیروانی پرمشتمل ہوتا تھا اپنے فیکٹری آفس میں چلے جاتے۔
حکومتی یا غیر حکومتی شخصیات ان کے ہاں جب آتیں تو انہیں بھی اسی سادہ لباس میں ہی ملتے تواضع اور کسرنفسی بھی آپ میں نمایاں تھی بڑے بڑے نمایاں کام کرنے کے باوجوداپنے آپ کو کچھ نہ سمجھتے تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی جب آپ سے ملاقات کرتا تو اسے بھی عزت دیتے اور بڑے بے تکلفا نہ اور خلوصانہ ماحول میں بات چیت کرتے جس سے وہ یوں محسوس کرنے لگتا کہ میری بھی بڑی حیثیت اور مقام ہے۔ یہی صفات بلا شبہ شریف خاندان کے ہر فرد میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کے باوجود بیماری کا مقابلہ انتہائی جوانمردی سے کیا اور آخری ایام تک نماز پنجگانہ کے پابند رہے اور وہیل چیئر پر موجود ہونے کے باوجودان کی شدید خواہش تھی کہ وہ نماز مسجد الحرام میں ادا کریں فرمانبردار صاحبزادے محمد نواز شریف دن رات اپنے والد الحاج میاں محمد شریف کے ساتھ رہتے اور ان کی خدمت کرتے اور فلاحی کاموں میں بھی مصروف رہتے تھے انہوں نے لاہور میں 1986ء میں اتفاق ہسپتال، 1997ء کو جاتی عمرہ رائیونڈ میں شریف میڈیکل سٹی اور شریف تعلیمی کمپلیکس قائم کیا شریف میڈیکل سٹی میں غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج ہوتا اور خود جا کر بیواؤں، معذوروں اور ناداروں کی مدد کرتے تھے اور ان کے سروں پر دست شفقت رکھتے ان کے قائم کردہ فلاحی ادارہ شریف میڈیکل سٹی اور اتفاق ہسپتال میں آج بھی ناداروں، بیواؤں، معذوروں کا مفت علاج ہوتا ہے اور یہ صد قہ جاریہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیشہ کے لئے قائم رہے گا۔12اکتوبر1999ء کو منتخب جمہوری حکومت پرڈکٹیٹر نے شب خون مارا اور یوں الحاج میاں محمد شریف کو اپنے بیٹوں اور معصوم نواسوں کیساتھ قید و بند کی صعوبتیں سختیاں اور مشکلات برداشت کرنا پڑیں اورآپ کو گھر میں نظر بند کیا گیا لیکن صبر واستقامت کے ساتھ مشکل ترین حالات کا جرأت مندی کیساتھ مقابلہ کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے خادم الحرمین شریفین شہزادہ عبداللہ نے مشکل حالات میں ان کی بھر پور مدد کی اور انہیں بحفاظت خاندان سمیت سعودی عرب منتقل کرایا،بالآخر وہ ماہ رمضان المبارک کی مقدس رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کے مہینے پندرہ رمضان شریف 29 اکتوبر 2004ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔آپ کی نماز جنازہ خانہ کعبہ میں ادا کی گئی بعدازاں جسد خاکی کو سعودی عرب سے لاہور لاکر جاتی عمرہ رائیونڈ میں ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے سپردخاک کر دیا گیا۔