اظہار رائے کی آزادی بے لگام نہیں (1)

اظہار رائے کی آزادی بے لگام نہیں (1)
اظہار رائے کی آزادی بے لگام نہیں (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ان کے لئے کھلتی ہے اگر اُسے کاٹانہ جائے اور جو قلم آپ کی ناموس کی بے حرمتی کے لئے اٹھتا ہے اگر اُسے توڑانہ جائے تو اسلامی معاشرہ فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لئے شاتم رسول کا جرم نا قابل معافی ہے اوروہ توبہ کے باوجود سزائے موت سے نہیں بچ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان فرمایا، مگر شاتمین رسول کا خون رائیگاں قرار دیا۔ انہیں معاف نہیں کیا۔
امریکی صدر نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران بجا طور پر یہ کہا کہ یہ گستاخانہ فلم امریکہ کی بھی بے عزتی ہے۔ اس سے لاکھوں امریکی مسلمانوں کی بھی دل آزاری ہوئی ہے۔ ہم اُن سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ نے عزت کا راستہ کب اختیار کیا ہے، اور دل آزاری کا کون سا موقع گنوایا ہے۔ اپنی استعماری پالیسیوں، احساس بر تری اور نامنصفانہ رویوں کے سب آج وہ دنیا بھر میں نفرت کی علامت بنا ہوا ہے۔ وہ ایک محدود شر پسند صہیونی اقلیت کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے جس طرح اسلام اور اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہے، کیا اُس سے دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں اور دنیا بھر کے منصف مزاج انسانوں کے دل و دماغ میں اس کے لئے عزت و احترام کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں؟ کیااس رویہ سے دنیا کے دل جیتے جا سکتے ہیں؟
امریکی صدر کا یہ تجزیہ بہت خوب ہے کہ مسلمانوں کو عیسائیوں، یہودیوں اور ہندوﺅں سے لڑانے کی سیاست دنیا کو آزادی نہیں دلا سکتی۔ مگرکیا وہ اِس بات کا جواب دیں گے کہ وہ اقلیت جو دنیا کوآگ کے شعلوں میں جھونکنے کی پلاننگ امریکہ کے ذریعے آگے بڑھا رہی ہے، اُس کو روکنے اور اس کے آگے بند باندھنے کے لئے انہوں نے کیا کیا ہے۔ ان کے پیش رو صدر بش نے نائن الیون کی تیار کردہ صہیونی سازش کے تحت امارت اسلامی افغانستان پر حملہ کیا، محض اس جھوٹے الزام کی بنیاد پر کہ یہ سازش اسامہ بن لادن نے تیار کی تھی۔ اوباما تبدیلی کے نعرے کے تحت بر سر اقتدار آئے تھے۔ انہوں نے اسلام کے خلاف شروع کی گئی اس صلیبی (در حقیقت صہیونی) جنگ کی پالیسی تبدیل کیوں نہ کی۔
کون باشعور شخص نہیں جانتا کہ نام نہا ددہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے لڑی جانے والی یہ جنگ سراسر اسلام کے خلاف جنگ ہے، جس کا اظہار اُس وقت کے امریکی صدر بش نے crusade( صلیبی جنگ) کا لفظ استعمال کر کے کر دیا تھا۔ امریکہ کی قیادت میں عالم کفر کے متحدہ لشکر کی یہ یلغار تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز تھی، اور افغانستان کو اصل ہدف اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں سے خلافت اور اسلامی جہادی تحریک (جنرل مرزا اسلم بیگ کے الفاظ میں اسلام کی مزاحمتی قوت)کا احیاءہو رہا تھا، جو مستقبل میں امریکہ کے سر پرستوں کے لئے خطرہ بننے والی تھی۔ چنانچہ اِسی بات کا اظہار صہیونی اور صہیونی مسیحی کر رہے تھے۔ بہت عرصہ پہلے یہودی ربیوں اور عیسائی پادریوں نے امریکہ انتظامیہ کو یہ یقین دلایا تھا کہ ہمیں اصل خطرہ حراسان سے ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں حیران کن طور پر انہوں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ مسلمانوں کے پیغمبر نے 1400 سال پہلے یہ بات فرمائی تھی کہ جب تم خراسان کی جانب سے سیاہ جھنڈے آتے ہوئے دیکھو تو ان میں شامل ہو جاﺅ کیونکہ اس میں خلیفة اللہ امام مہدی ہوں گے۔اور یہ (بھی فرمایا تھا ) کہ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے۔ انہیں کوئی نہیں روک سکے گا یہاں تک کہ بیت المقدس میں نصب ہوں گے۔یہودی ربیوں کے مطابق سیاہ جھنڈے والا یہ لشکر طالبان ہیں ان کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ امریکی صدر سینئر بش کے دوست مائیک ریونس نے بھی یہی بات کہی تھی۔ بقول اُس کے ”امریکہ کی بقا کے لئے اسرائیل کا ہونا ضروری ہے اور خود اسرائیل کی بقا کو دنیا بھر میں اگر کہیں سے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے تو وہ” خراساں“ کے مسلمان ہیں۔“ تھامس فرائیڈ مین نے تو بڑی وضاحت سے کہاتھا کہ یہ جنگ انسداد دہشت گردی کے لیے نہیں‘ اسلامی نظریے کے خاتمہ کے لیے ہے۔ اس نے لکھا تھا: ”اگر نائن الیون کا سانحہ فی الواقع تیسری عالمی جنگ کا آغاز تھا تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جنگ کس کے لیے ہے؟ ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے نہیں لڑ رہے۔ دہشت گردی تو محض ایک ذریعہ ہے۔ ہم ایک نظریے کو شکست دینے کے لیے برسرپیکار ہیں۔ دوسری عالمی جنگ اور سرد جنگ سیکولر مطلق العنانیت‘ نازی ازم اور کمیونزم کی شکست و ریخت کے لیے لڑی گئی تھی۔ اب تیسری عالمی جنگ مذہبی مطلق العنانیت کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ یہ دنیا کے بارے میں ایک ایسا نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ صرف میرے ہی دین کو سب پر بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔ اور ایسا اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب دنیا کے دیگر تمام مذاہب کے بطلان کا اعلان ہو جائے۔ یہی بن لادن ازم ہے۔ لیکن نازی ازم کے برعکس مذہبی مطلق العنانیت کے خلاف جنگ صرف فوجیں ہی نہیں لڑ سکتیں ۔ یہ جنگ سکولوں‘ مسجدوں‘ گرجوں اور صومعوں میںلڑی جائے گی۔ اور اِس نظر یے کو شکست دینے کے لئے اماموں، پادریوں اور یہودی سکالروں سے بھی مدد لینی پڑے گی۔“ (بحوالہ نیویارک ٹائمز 27 نومبر 2001 ء) اوباما نے اپنے دور اقتدار میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کھلی ناانصافی کی جنگ سے امریکہ کو کیوں نہ نکالا۔ عسکری محاذ پر لڑی جانے والی اِس جنگ کو میڈیا کی بھرپور معاونت حاصل رہی۔ کنٹرولڈ مغربی میڈیا نے گوئبلز کے فلسفے کی پیروی کرتے ہوئے جس طرح اصل حقائق کو دنیا کے سامنے آنے سے روکے رکھا‘ یہ جھوٹ، دھاندلی اور بے ایمانی کی بد ترین مثال ہے۔ اب یہی میڈیا اس جنگ کو اپنے ہاں زیادہ شدت کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے ۔ توہین رسالت پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کے بعد گستاخانہ فلم "The Innocence of Muslims" نے شیطنت اور ابلیسیت کی تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ اوباما کی عین ناک تلے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ عیسائیت اور اسلام کو لڑانے والے ”سیاست کار“ اپنے مذموم مقاصد،اپنی عالمی بالادستی‘ گریٹر اسرائیل کے قیام کے ایجنڈے اور مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے تھرڈ ٹمپل بنانے کے منصوبے کے تحت یہ سب کچھ کر رہے ہیں، مگر وہ ان کا راستہ روکنے کی بجائے اُن سے پوری طرح مفاہمت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکی سیاست کی تشکیل اور پالیسی سازی کے پس پردہ مسیحی صہیونی عناصراور تحریکوں کا بنیادی کردار ہے، جن کاعقیدہ ہے کہ” یہودی اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہیں“لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی مدد کرنا محض ایک سیاسی عمل نہیں بلکہ ایک مذہبی فرض ہے۔
تہذیبی تصادم کے شعلوں کو ہوا دینے کے لیے ”عالمی راہزن “اور ان کے صلیبی گماشتے گستاخانہ فلم پر اپنی حکومت کی خاموشی (بلکہ حمایت) سے شہ پا کر اب پوری مغربی دنیا میں نہایت جارحانہ انداز سے اسلام مخالف مہم شروع کر چکے ہیں۔ میڈیا ان کی پشت پر ہے۔ امریکی و مغربی میڈیا کا ایک سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ ایک منظم اور مربوط انداز میں ان تمام اسلام مخالف اور گستاخ رسول افراد کو مغربی میڈیا کے ذریعے سامنے لایا جا رہا ہے جو حال و ماضی میں گستاخانہ حرکات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ شاتمین اسلام امریکی پادری ٹیری جونز‘ ڈچ رکن پارلیمان گیرٹ ویلڈر‘ پامیلا گیلر‘ ولیسٹر گارٹ اور سلمان رشدی سے رابطے کر کے ان کے انٹرویو شائع کیے جا رہے ہیں۔ نیویارک کے اسٹیشنوں اور شہر بھر کی ٹیکسیوں پر اسلام اور جہاد مخالف اشتہار لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز دراز ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اسلام اور جہاد مخالف مہم میں امریکی یہودیوں کی تنظیم جیوش کانگریس اور دوسری انتہا پسند تنظیمیں پیش پیش ہیں۔ نیویارک کی عدالت نے بھی ایسے اشتہارات ہٹانے کی درخواست رد کر دی ہے۔ اوباما کہتے ہیں کہ ہم تحمل‘ برداشت اور مفاہمت کے رویوں کے حامی ہیں اور مذہبی تحفظ پر یقین رکھتے ہیں، مگر ان کا طرزِ عمل تو ان کے کہے کی نفی کرتا ہے ۔ کیا ان کے تحمل‘ برداشت اور مذہبی تحفظ کے دائرے میں اسلام اور پیروانِ اسلام نہیں آتے؟ یہ کیسا تحمل اور برداشت ہے کہ اوباما کے خطاب کے دوسرے دن جنرل اسمبلی میں ایران کے صدر احمدی نژاد کا خطاب ہوا تو ان کی تقریر کا امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا کہ ایرانی صدر کا خطاب سننا بھی ایک جرم ہے۔ اوباما کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین کرنے والوں کی مستقبل میں کوئی جگہ نہیں۔ پھر ایسے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بجائے پروموٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اوباما نہیں جانتے کہ دنیا کو تباہی و بربادی ‘ جنگ و جدل اور دہشت گردی و فساد کے راستے پر کون ڈال رہا ہے؟
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں گستاخانہ فلم کی جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل مجروح کیے ہیں صرف ایک جملے میںرسمی سی مذمت کی ہے۔باقی ان کا سارازور اس کے خلاف پرتشدد احتجاج اور مظاہروں کی مذمت پر تھا۔ انہوں نے بار بار کہا کہ کوئی فلم پرتشدد مظاہروں کا جواز نہیں بن سکتی اور اس طرح کے مظاہرے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔نام لیے بغیر انہوں نے مسلمان ملکوں کو دھمکی دی کہ صرف سفارت خانوں کے گرد پہرہ سخت کر دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا مکمل استیصال اور ”غیر ضروری“ مظاہروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ امریکی ادیب ایڈورڈ بال ہمیشہ امریکی سفارتی حکام سے اس حوالے سے شاکی رہے کہ وہ دنیا کی دیگر قوموں کے مزاج آشنا نہیں بن سکے۔ یہ بات صدر اوباما پر بھی پورے طو رپر صادق آتی ہے۔ کیا امریکی صدر یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایمان پر حملے کی جسارتیں ہوں تو وہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں اور حرفِ شکایت بھی زبان پر نہ لائیں۔ وہ اس کی بجائے اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کی طرح اس انتہا پسندانہ سوچ اور ایسی ابلیسی جسارتوں کو روکنے والے قانون کیوں نہیں بناتے‘ جو مظلوم اور پسے ہوئے مسلمانوں کو اشتعال دلاتی اور ردعمل پر مجبور کرتی ہیں۔
امریکی صدر مردان کے ایک چرچ پر ہونے والے حملے پر تو چراغ پا ہیں جو ممکنہ طور پر غصہ سے بھرے مخلص مسلمانوں یا پھر امریکی ایجنٹوںکی کارروائی ہو سکتی ہے اورپھر تمام ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ ”انتہا پسندی“ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ مگر انہیں امریکہ و یورپ میں اسلام کی بے حرمتی‘ مذہبی حقوق کی پامالی‘ اسلامی شعائر کی بے حرمتی‘ حجاب پر پابندی‘ میناروں کی تعمیر کی مخالفت‘ جہاد کے خلاف مہم ‘ اسلام کے نظام زندگی اور اس کی درخشاں تہذیب کے خلاف ریاستی اقدامات اور میڈیا وار نظر نہیں آتی۔ کیا کبھی اس پر بھی ان کے جذبات بھڑکیں گے؟
میں اس صورتحال پر غور کرتا ہوں تو مجھے "The Clash of Civilization" کے مصنف پروفیسر ہنٹنگٹن کے سچائی سے مملو یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ ”مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی (دہشت گردی) نہیں خود اسلام ہے۔“ لیکن معاً میرا ذہن اللہ تعالیٰ کے ان الفاظ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو قرآن میں آئے ہیں:
﴾یُرِی±دُو±نَ لِیُط±فِئُو±ا نُو±رَ اللّٰہِ بِاَف±وَاھِھِم± وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُو±رِہ وَلَو± کَرِہَ ال±کٰفِرُو±نَ0﴿(الصف: 8 )
”پیروان باطل چاہتے ہیں کہ حق و صداقت کا جو نور الٰہی روشن کیا گیا ہے اسے اپنی مخالفت کی پھونک مار کر بجھا دیں‘ مگر وہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے اس  نور( صداقت کی روشنی) کو درجہ¿ کمال تک پہنچا کر چھوڑے گا، اگرچہ کافروں (باطل پرستوں) کو برُا لگے۔“
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے :
﴾فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذ±ھَبُ جُفَائً وَّاَمَّا مَا یَن±فَعُ النَّاسَ فَیَم±کُثُ فِی ال±اَر±ضِ ﴿ (الرعد:17)
”جو جھاگ ہے وہ بے مصرف سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے اور جو (پانی) انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔“
جناب اوباما!اسلام سچائی ہے اور سچائی روشنی۔ روشنی تیز تر ہوتی رہے گی ‘ اسے جبر کی قوت سے بجھایا نہیں جا سکتاکہ اس روشنی کا محافظ خود خدا ہے، محمد مصطفےٰ ﷺ ہیں اور خدا و رسولﷺ کے وفادار وہ عالمی شمشیرزن ہیں، جن کی شاندار مزاحمت اور حیران کن استقامت سے نہ صرف واشنگٹن اور دیگر نیٹو دارا لحکومتوں میں کرسی ہائے اقتدار پر براجمان کٹھ پتلیوں پر لرزہ طاری ہے بلکہ اسلام کے خلاف گیم کے اصل منصوبہ ساز عالمی رہزن بھی سکتے میں ہیں۔ بلاشبہ :
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھ دی
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دو گے
ہم یہ بھی واضح کئے دیتے ہیں کہ
چلاﺅ گولیاں سینے کشادہ رکھتے ہیں
کہ حق پہ مر مٹنے کا ہم ارادہ رکھتے ہیں
تمہیں غرور ہے کہ ہے زور و زر ہمارے پاس
ہمیں ہے ناز کہ ہمت زیادہ رکھتے ہیں
اقوام متحدہ کے67 ویں سالانہ اجلاس میں امریکی صدر باراک اوباما نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ (توہین رسالت پر مبنی) گستاخانہ فلم نے مسلم دنیا میں بے چینی پیدا کی۔ ہم گستاخانہ فلم جیسے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔ توہین آمیز فلم سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں۔ فلم امریکہ کی بھی بے عزتی ہے۔ یہ لاکھوں امریکی مسلمانوں کے لئے بھی اشتعال کا باعث ہے۔ مسلمانوں کو عیسائیوں ،یہودیوں اور ہندوﺅں سے لڑانے کی سیاست دنیا کو آزادی نہیں دلا سکتی۔ لیکن یہ فلم پر تشدّد مظاہروں کا جواز نہیں بن سکتی۔ گستاخانہ فلم کی مذمت کرنے والے چرچ جلانے کی بھی مذمت کریں۔ امریکی سفارتخانوں پر حملوں اور پاکستان میں ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں۔ ہم مذہبی آزادی اور مذہبی تحفظ پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تحمل، برداشت اور مفاہمت کے رویوں کے حامی ہیں۔ دنیا میں تشدد اور عدم برداشت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ تمام ممالک انتہا پسندی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین کرنے والوں کے لئے مستقبل میں کوئی جگہ نہیں، تاہم امریکی آئین کی پہلی ترمیم یا آزادی رائے کی وجہ سے ہم گستاخانہ فلم پر پابندی نہیں لگا سکتے۔
امریکی صدر کی طرف سے توہین رسالت مآب پر مبنی گستاخانہ فلم کی مذمت قابل تحسین ہے۔ ایسا کر کے انہوں نے دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد فرزندان توحید کے شدید غم و غصہ اور اشتعال و اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کی ہے جو اسرائیلی نژاد ابلیس صفت نکولا باسل نے اپنی شر مناک فلم کے ذریعے اُن میں پیدا کیا ہے، تاہم یہ مذمت یکسر نا کافی ہے۔ یہ مذمت تو امریکہ کی طرف سے پہلے ہی کر دی گئی تھی۔ مسلمانوں نے اوباما سے یہ مطالبہ تو کیا ہی نہیں تھا کہ امریکی صدر اس شیطانی فعل کی مذمت کر لیں تو ہم مطمئن ہو جائیں گے بلکہ اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ نہ صرف گستاخانہ اور بے ہودہ فلم پر پابندی لگائی جائے بلکہ اس کے بنانے والوں کوکیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس کی رو سے پیغمبر اسلام اور دوسرے مذاہب کے پیغمبروں کی توہین کو جرم قرار دیا جائے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنی تقریر میں امریکہ اور عالمی برادری سے یہی  پرُ زور مطالبہ کیا کہ اسلام مخالف فلم جیسے عمل کو مجرمانہ فعل قرار دے جس سے دنیا کا امن تباہ ہو اور آزادی اظہار کے غلط استعمال سے دنیا کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے۔ یہ ایک جائز اور معقول مطالبہ تھا مگر امریکی صدر نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گستاخانہ فلم پر پابندی لگانے سے بھی انکار کر دیا اور عصمت انبیاءکے بارے میں قانون سازی کا بھی ذکر نہیں کیا۔ نیو یارک ٹائمز کے اداریہ نگار کے بقول اوباما نے اسلام مخالف فلم کے حوالے سے آزادی تقریر کا مو¿ثر دفاع کیا۔
اظہار رائے کی آزادی انسان کا حق ہے۔ کوئی بھی معقول انسان اور مہذب معاشرہ اس کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ اسلام نے اس حق کی جس قدر حفاظت کی ہے دنیا کا کوئی بہترین خیال کیاجانے والا نظام یا ازم بھی اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ دنیا کے شاید عمدہ سے عمدہ جمہوری ماڈل میں بھی یہ آزادی کسی کو حاصل نہ ہو گی کہ آدمی بھری محفل میں اپنے حکمران سے اُس کے لباس کے بارے میں سوال کر سکے کہ یہ کہاں سے آیا۔ مگر اسلام کے دور خلافت راشدہ میں ایک عام آدمی اُٹھ کر خلیفہ سے یہ سوال کرتا ہے کہ میری طرح آپ کو بھی بیت المال سے ایک چادر ملی تھی، جس سے آپ کا لباس نہیں بن سکتا تھا، پھر یہ کیسے بن گیا۔ اور خلیفہ اُس کو ٹوکنے یا خاموش کرانے کی بجائے بیٹے کے توسط سے اطمینان بخش جواب دیتے ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہےں، اس طرح کی کئی مثالیں اسلامی تاریخ سے پیش کی جا سکتی ہیں۔
آزادی رائے کی اہمیت اپنی جگہ، تاہم امریکی صدر، مغربی بقراطوں اور مسلم دنیا کے اُن نام نہاد دانشوروں کو جو آزادی اظہار کی من مانی تعبیر کر کے اُس کا دفاع کرتے ہیں یہ بات ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ نہ صرف اسلام بلکہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یافتہ سوسائٹی اظہار رائے کی مطلق آزادی کی روا دار نہیں ہو سکتی۔ آزادی اظہار رائے کے لئے ہر نظام فکر حدود و ضوابط کاتعین کرتا ہے۔ آزادی اُسی حدتک ہوتی ہے جہاں تک دوسروں کی آزادی متاثر نہ ہو۔ یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ خیالات کا اظہار کس حد تک کیا جائے کہ اخلاقی قیود پا مال نہ ہوں، ریاستی مفادات کو زک نہ پہنچے، معاشرے میں انتشار نہ پھیلے، دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ انسا ئیکلوپیڈیا برٹا نیکا میں جہاں آزادی اظہار رائے کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اپنے خیالات، معلومات اور آراءکا گورنمنٹ کی پابندیوں سے آزاد ہو کر اظہار کرنا اظہار رائے کہلائے گا۔“وہاں ساتھ ہی ہر اُس گفتگو یا رائے پر پابندی کی بات کی گئی ہے جو واضح اور حقیقی خطرے کی موجب ہو یعنی (1)کسی پر بہتان لگایا گیا ہو(2 ) فحاشی کی موجب ہو(3)کسی پر دباﺅ ڈال کر مجبور کرنے کی کوشش ہو۔
 اقوام متحدہ جو بظاہر قیام امن کے لئے معرض وجود میں لائی گئی ہے کے ”اعلامیہ برائے سیاسی وسماجی حقوق “ جو جنرل اسمبلی نے 1966 میں منظور کیا تھا کے آرٹیکل60 میں تشدد کے فروغ، نسلی تعصب، مذہبی منافرت اور کسی بھی قسم کے امتیازی رویے پر مبنی تقریر و تحریر پر پابندی کی بات کی گئی ہے۔ 2010ءاور2011ءمیںبھی اقوام متحدہ کی ”حقوق انسانی کونسل“نے مذاہب،مذہبی علامات، محترم شخصیات حتیٰ کہ اسلام یا مسلمانوں کی توہین کو روکنے یا انہیں بد نام کرنے کے حوالے سے دو قرار دادیں منظور کی تھیں۔ اول الذکر قرار داد کا عنوان ”توہین مذاہب کے خلاف جنگ“ تھا۔ اس قرار داد میں خاص طور پر اس بات پر شدیدتشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ”اسلام کو اکثر و بیشتر اور غلط انداز سے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اور مسلم اقلیتی بر ادری کی نگرانی کے لئے جو قوانین بنائے اور انتظامی اقدامات کئے جاتے ہیں، اُن کی مدد سے انہیں (مسلمانوںکو) نشانہ بنایا جاتا ہے۔“قرار داد میں ا لیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے متعصبانہ اقدامات پر اظہار افسوس کیا گیا اور مذہبی منافرت پھیلانے کی مذمت کی گئی۔ مزید کہا گیا کہ ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، لیکن یہ کام خصوصی ذمہ داری اور احتیاط سے کرنا چاہئے۔ اس میں دوسروں کی عزت، قومی سلامتی، امن عامہ اور اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ثانی الذکر قرار داد کا عنوان”عدم برداشت، مذہب کے متعلق د قیا نوسیت، مذہب یا عقائد کی بنیاد پر تشدد کے لئے اُکسانے یا پھر توہین کرنے کے خلاف جنگ“ تھا۔ اس قرار داد میں مذاہب کو بد نام کرنے، انتہا پسند تنظیموں کے اقدامات اور میڈیا کے رویے، اقدامات اور ایسے پروگراموں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جو مذاہب یا عقائد کے خلاف ہوتے تھے۔
مغربی جمہوری ممالک آزادی رائے کے سب سے بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں اشتراکیت کے زیر اثر ممالک اور عرب ممالک میں آزادی اظہار پر سخت بندشیں عائد کر کے اُس کا گلا گھونٹا گیا۔ اس کے مقابلے میں مغربی دنیا نے انفرادی آزادیوں کا تحفظ کیا۔ اظہار رائے کی آزادی دی، یہاں تک کہ فرد کی آزادی کے دائرے کو اس قدر بڑھایا گیا کہ فرد اور اجتماعیت کا فطری توازن بھی قائم نہ رہ سکا، جس نے مغربی سماج میں خوفناک نتائج پیدا کئے۔ خاندانی نظام تباہ ہو گیا، اورسماجی اقدار ملیامیٹ ہو گئیں۔ تاہم اس سب کے باوجود مغربی معاشروں اور مملکتوں میں اظہار رائے کی آزادی کوکلیتاً بے لگام نہیں چھوڑا گیا، بلکہ مقامی ماحول اور حالات کے مطابق اس کی حددد مقرر کی گئیں اور اس پرقد غنیں لگائی گئیں۔ اس لئے کہ رائے کے اظہار کی بے محار آزادی دینے کا مطلب نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی مناقشت اور جنگ وجدل کا بازار گرم کرنا اور معاشرہ کو انتشار، لا قانونیت اورانارکی کی آگ میں جھونکناہے۔
یورپ اور امریکہ میں ان کے دستور، اقتدار اعلیٰ اور خارجہ پالیسیوں پر کوئی کھل کر بات نہیں کر سکتا۔ دستور یا اقتدار اعلیٰ کے متعلق با غیانہ اظہار رائے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ مقدس مقامات، مقدس ہستیوں اور مقدس اشیاءکی توہین پر سزا اکثر ممالک میں موجود ہے۔ مغربی دنیا بے حیائی اور فحاشی و عریانی کی دلدل میں غرق ہے، مگر وہاں بچوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی  فحش نگاری پر پابندی ہے۔ قانونی طور پر مذہبی و نسلی منافرت پھیلانے والی تحریر و تقریر جرم ہے۔ جرمنی، آسٹریا،سپین سمیت کئی ممالک میں گستاخانہ کلمات پر سزا اور اُس کی حوصلہ شکنی کے لئے قوانین موجود ہیں۔کینیڈا میں عیسائیت کی تنقیص و تضحیک اور آئرلینڈ میں مذہب کے خلاف نفرت پھیلانا جرم ہے۔ برطانیہ میں ایونجلیکل مسیحی فرقہ کی توہین جرم ہے۔ اِسی طرح توہین مسیح یا کتاب مقدس کی سچائی سے انکار” Blasphemy“ (توہین مذہب) ہے، جس کی سزا تحت و تاج برطانیہ یا حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم کے مطابق عمر قید تک دی جا سکتی ہے۔ یورپ و امریکہ کے علاوہ پوری دنیا میںہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میںBlasphemy کا قانون پایا جاتا ہے۔ چین میں جو لا مذہب ریاست ہے، مہاتمابدھ کے مجسمے کی توہین فوجداری جرم ہے۔ یہودیوں کے ہاں خدا، رسول ؑاور یوم سبت کی توہین جرم ہے۔ ہندومت میں ویدوں کی توہین کرنے والا ”ناستک“ (مذہب بیزار) ہوتا ہے اور اسے تباہ و برباد کرنے، قتل کرنے اور جلا دینے کا حکم ہے۔ دنیا کی کئی ریاستوں میں ریاست سے غداری کی سزا موت ہے۔ کہیں سر براہ مملکت کی توہین اور آئین کی توہین پربھی سزائے موت رکھی گئی ہے۔
اظہار رائے کی آزادی اگر مطلق اور بے لگام ہوتی تو متذکرہ قواعد اور بندشیں کبھی نہ لگائی جاتیں۔اِس لئے کہ پھر ان قوانین کا بنانا آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہوتا۔ اگر آزادی اظہار ہر قسم کی قیود سے آزادی کا نام ہے تو پھر ان قوانین کو ختم کر دینا چاہئے، تاکہ جو جس کے جی میں آئے بکتا جائے اور اُسے کسی قانونی پابندی کا خوف نہ ہو۔ آزادی اظہار رائے کے وکیل کیا اس کی حمایت کریں گے؟
ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اظہار خیال کی آزادی اگر ہر قسم کی قید اور ضابطے سے آزادی ہے تو پھر حال ہی آئرلینڈ کی ایک عدالت نے پرنس ہیری کی متنازعہ تصاویر کی اشاعت پر اخبار ”The sun “کے ایڈیٹر کو کیوں معطل کیا؟ اخبار کو جرمانہ کیوں کیا؟ پھر1993 ءمیں ایک عراقی خاتون کو محض اس لئے سزا کیوں دی گئی کہ اُس نے ہوٹل کے فرش پر اُس وقت کے امریکی صدر بش سینئر کا توہین آمیز کارٹون بنایا تھا۔ جس پر سے گزر کر لوگ ہوٹل کے اندر جاتے تھے۔ آزادی اظہار رائے اگر اتنی ہی مقدس تھی تو پھر محمد علی(کلے) سے امریکہ کی ویت نام پالیسی پر تنقید کی وجہ سے عالمی چمپئن کا اعزاز کیوں چھین لیا گیا۔ کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مسلمان طلبہ کو جنہوں نے امریکہ میں اسرائیلی سفیر مائیکل ارون کے خطاب پر احتجاج کیا تھا، ایک سال کے لئے یونیورسٹی سے کیوں نکال دیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی طرف سے 6امریکی فوجیوں کی لاشیں دکھانے پر احتجاج کیوں کیا گیا۔ اور پھر کیوں اس کی پاداش میں اُس کے آفس پر حملہ کر کے عملے کے لوگوں کو شہید کیا گیا۔
جنرل اسمبلی کے جس اجلاس میں اوباما نے نام نہاداظہاررائے کی آزادی کا دفاع کیا۔ وہیںامریکی صدر کے خطاب کے فوری بعد وکی لیکس کے بانی جو لین اسانج نے بھی ٹیلیفونک خطاب کیا۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی کئی حکومتوں نے امریکی حکومت ، اس کے سفارتی نمائندوں، فوجی جرنیلوں اور سی آئی اے کے گھٹیا منصوبوں اوراُن کے پاکستانی سیاستدانوں سے خفیہ تعلقات کے بارے میں انکشافات کے بعد اسانج کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔ اس سال جون میں اسانج لندن پولیس کو چکمہ دے کر ایکواڈور کے سفارتخانے میں داخل ہو گئے اور سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ تب سے وہ اسی سفارتخانے کے کمپاﺅنڈ میں محصورہیں۔ اسانج نے اپنے خطاب میں اوباما کے آزادی اظہار کے دعوو¿ں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ” امریکی صدر نے آزادی اظہار رائے پرمجرمانہ قدغن لگائی ہے، جس کا جیتا جاگتا ثبوت میرا یہ خطاب ہے جو میں اس پنجرے سے کر رہا ہوں۔“انہوں نے مزید کہا کہ” اگر اوباما آزادی اظہار کے ایسے ہی حامی ہیں تو اُن کے خصوصی حکم پر وکی لیکس کی ویب سائٹ کیوں بند کی گئی۔“  ( جاری ہے)    

مزید :

کالم -