میرا دورۂ سندھ
گزشتہ ہفتے میں سندھ بھر میں واقع کاروباری برادری کے چیمبروں کے دورے پر تھا جس کا سبب ان چیمبروں میں سالانہ انتخابات کے نتیجے میں منعقد ہونے والے سالانہ جلسہ عام (اے جی ایم)تھے جن میں نئی منتخب قیادتوں نے حلف اٹھانا تھا۔ ان چیمبروں کی قیادت کے اصرار پر میں نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی اعلیٰ قیادت بشمول صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ، سنیئر وائس چیئرمین ثاقب فیاض مگوں اور یو بی جی کی مرکزی عہدیداروں کے ہمراہ ان اے جی ایمز میں شرکت کی۔ میرا دورٗہ سندھ سکھر چیمبر آف کامرس سے شروع ہوا جس کے بعد یہ سلسلہ خیر پور، لاڑکانہ، شکارپور، دادو، میر پورخاص، شہید بے نظیر آباد اور حیدرآباد چیمبر آف کامرس تک پھیل گیا۔ اس دوران مجھے گڑھی خدا بخش میں بھٹو فیملی کے آبائی قبرستان پر فاتحہ خوانی کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
میں سندھ بھر کے چیمبروں کی قیادت کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اور میرے وفد میں شامل قیادت کی بھرپور پذیرائی کی۔ خاص طور پر سندھ بھر کی بزنس کمیونٹی میں اپنے والد گرامی اور سب کے بھائی جان یعنی ایس ایم منیر کے لئے پائی جانے والی محبت اور تکریم کو دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں اور اپنی تقاریر میں سندھ کی کاروباری قیادت نے مرحوم والد صاحب سے پیار اور محبت کے اظہار کے لئے جن جذبات کو اپنے ہونٹوں پر سجائے رکھا اس پر میں پورے صوبہ سندھ کی کاروباری برادری کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ بلاشبہ اس سے مجھے اپنے والد گرامی کے پاکستان بھر کی کاروباری برادری کی خدمت کے سفر کو جاری رکھنے کے لئے روشنی ملتی رہے گی کیونکہ والد گرامی نے کاروباری برادری سے اس قدر محبت کی تھی کہ ہر کوئی انہیں بھائی جان کہہ کر بلاتا تھا اور پورے سال کے ہر مہینے ان کی سالگرہ کی تاریخ پر کبھی ایک چیمبر تو کبھی دوسرے چیمبر میں کیک کٹتا رہتا تھا۔ ان کا بیٹا ہونے کے ناتے اگر میں کہوں کہ مجھے سندھ کے کاروباری دوستوں نے اپنے ہاتھوں پر اٹھائے رکھا اور میرے راستے میں پلکیں بچھائے رہے، تو بے جا نہ ہوگا۔
ہمارے وفد نے سندھ کے چیمبروں میں نئی قیادتوں کی حلف برداریوں میں شرکت کی۔اس موقع پر مقامی عہدیداروں اور قائدین کی جانب سے درپیش مسائل کا تذکرہ شروع ہوا تو ہمیں اندازہ ہوا کہ بزنس کمیونٹی کے لئے پاکستان میں بالعموم اور سندھ بھر کے چیمبروں کے لئے بالخصوص بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ سندھ بھر کے چیمبروں کے دورے کے دوران مجھے فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے شروع کی جانے آئی پی پیز کے حوالے سے اپنی مہم پر مبارکبادیں دی جاتی رہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی مہنگی بجلی کے ہاتھوں اس قدر ستائی ہوئی ہے کہ فیڈریشن سے ایک آواز آئی پی پیز کے جبر کے حوالے سے کیا بلند ہوئی، ہر خاص و عام میں اس کاشہرہ ہو گیا۔ سندھ بھر کی کاروباری قیادت کو یقین تھا کہ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے شروع کی جانے والی آئی پی پیز کے خلاف مہم ضرور منطقی انجام کو پہنچے گی اور اس ظلم و زیادتی سے پاکستان کی جان چھوٹے گی۔ میں نے بھی اپنی تقاریر میں بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا کہ آئی پی پیز کے چنگل سے ان کی جان چھڑوانے کے لئے کیا حکومت، کیا ایس آئی ایف سی، یہاں تک کہ اعلی سیاسی و عسکری قیادت بھی بھرپور فوکس کئے ہوئے ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب بجلی کے مہنگے بلوں سے ان کی جان چھوٹ جائے گی اور وہ آسانی کے ساتھ اپنے کاروبار چلاسکیں گے۔
اسی طرح میں نے سندھ بھر کے کاروباری دوستوں کو یہ مژدہ جانفزا بھی سنایا کہ فیڈریشن نے آئی پی پیز کے ساتھ ساتھ بینکوں کی شرح سود کے خلاف بھی آواز بلند کی ہوئی ہے اور اب جبکہ آئی ایم ایف کا پیکج منظور ہو چکا ہے اور حکومت اور ایس آئی ایف سی کی کاوشوں کے نتیجے میں میکرواکنامک انڈیکیٹرز میں بہتری کے ساتھ ساتھ مہنگائی کی شرح میں بھی قابل قدر کمی ہوئی ہے جو38فیصد سے گھٹ کر 6.9فیصد پر آ گئی ہے اس لئے مجھے قوی امید ہے کہ اگلے سال کے شروع تک بینکوں کی شرح سود بھی گھٹ کر 8فیصد ہو جائے گی۔
اس میں شک نہیں ہے کہ بھاری شرح سود اور مہنگے بجلی کے بلوں نے پاکستان کے اندر کاروباری سرگرمیوں کو گہنا دیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ بڑی انڈسٹری بند ہوتی جا رہی ہے بلکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹریڈرز کلاس بھی بری طرح تنگ آچکی ہے۔ مقام شکر ہے کہ حکومت کو بھی اس کا مکمل احساس ہے اور وہ اس حوالے سے کاروباری برادری کو مایوس نہیں کرے گی۔
البتہ دورۂ سندھ کے دوران مجھے شدت سے احساس ہوا کہ نہ صر ف سندھ حکومت بلکہ وفاقی حکومت کو بھی صوبہ سندھ میں کاروباری برادری کو منظم ہونے میں بھرپور مدد دینی چاہئے۔ مثال کے طور پر کئی ایک جگہوں پر چیمبروں کی اپنی عمارت نہیں ہے اور کاروباری برادری کو اپنے اجلاس منعقد کرنے کیلئے ہوٹلوں یا دیگر کمیونٹی سینٹروں کا سہار ا لینا پڑتا ہے۔ اگر سندھ حکومت بالخصوص اور وفاقی حکومت بالعموم اور صوبہ سندھ کے کاروباری دوستوں کے اس مسئلے کے حل کے لئے انہیں سرکاری زمینیں فراہم کرنے پر راضی ہو جائیں تو یقینا اس سے صوبہ سندھ میں کاروباری برادری کو منظم ہو کر کاروباری سرگرمیوں کے فروغ میں آسانی رہے گی۔ اس سلسلے میں حکومت کو فیڈریشن کی بھرپور معاونت کی یقین دہانی میں ابھی سے کروائے دیتا ہوں۔
اس کے علاوہ اپنی تقاریر میں بعض ایک بزنس لیڈروں نے ٹیکس کے نظام پر بھی گفتگو کی۔ خاص طور پر جام شورو چیمبر کے نو منتخب صدر توقیر طارق نے میری توجہ اس جانب دلوائی کہ مقامی انتظامیہ کے پاس جو بھی کام لے کر جایا جاتا ہے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ اسے کاروباری سماجی ذمہ داری یعنی کارپوریٹ سوشل ریسپانسبیلیٹی (سی ایس آر)کے تحت پورا کرلیں۔ توقیر طارق نے خوبصورت بات کہی کہ اگر سب کچھ سی ایس آر کے تحت ہم نے ہی کرنا ہے تو حکومت بزنس کمیونٹی سے ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے۔ امید ہے کہ اس حوالے سے بھی نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت مطلوبہ اقدامات کرے گی اور اضلاع کی مقامی انتظامیہ کو ایسے بے جا دباؤ سے باز رہنے کی ہدایات جاری کریں گی۔
مجھے سندھ کے کاروباری مراکز کے دورے سے یقین ہو چلا ہے کہ صوبہ سندھ کی بزنس کمیونٹی حکومتی سپورٹ نہ ہونے کے باوجود جس تندہی اور محنت سے کام کرکے وسائل کی کمی کے باوجودسندھ میں کاورباری سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے سندھی عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں جتی ہوئی ہے، اگر اسے تھوڑی سی بھی حکومتی سرپرستی حاصل ہو جائے تو سندھ میں کاروباری برادری معجزے رونما کر سکتی ہے۔ صوبہ سندھ زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!