اسلامی اتحاد کی ضرورت
ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلامی ممالک کا اتحاد قائم کرنے کی تجویز دے دی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والی ایک ترک نژاد امریکی خاتون کو اسرائیلی فوجیوں نے مار دیا تھا، جس کے بعداستنبول کے قریب اسلامی سکولوں کی ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا کہ اسرائیلی تکبر، ڈاکوؤں اور اس کی ریاستی دہشت گردی روکنے کا واحد راستہ اسلامی ممالک کا اتحاد ہے،فلسطینی اور ترک حکام دونوں ہی اِس اتحاد کے حامی ہیں۔ صدر اردوان نے مزید کہا کہ ترکیہ نے مصر اور شام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے حال ہی میں جو بھی قدم اُٹھائے ہیں اُن کا مقصد توسیع پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف یکجہتی ہے،لبنان کو بھی اسرائیل سے خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیلی فوج نے جمعہ کو خاتون کو گولی مارنے کے واقعہ پر کہا تھا کہ وہ اِس کا جائزہ لے رہے ہیں۔یاد رہے کہ اسرائیلی فوج اب تک 40ہزار سے زائدفلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے جبکہ اِس سے دوگنی تعداد سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں زخمی ہو چکے ہیں، ہزاروں ایسے افراد ہیں جو عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے، خاندان کے خاندان ختم ہو گئے ہیں، بچوں اور خواتین سمیت کئی ایسے افراد ہیں،جو دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں،غزہ اِس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، لوگوں کے پاس کھانا نہیں ہے،سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں ہے، سکول ہسپتال،مساجد اور یہاں تک پناہ گزین کیمپ بھی محفوظ نہیں ہیں، اسرائیل جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے بمباری شروع کر دیتا ہے، چند روز قبل ہی اس نے جبالیہ شہری پناہ گزین کیمپ میں بے گھر افراد کے لئے پناہ گاہ کے طور پر کام کرنے والے حلیمہ السعدیہ سکول کے احاطے پر فضائی حملہ کیا جس میں کم از کم آٹھ افراد شہید اور 15 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔اِس کے علاوہ عمرو ابن العاص سکول پر کیے گئے اسرائیلی حملے میں چار افراد شہید اور 25 دیگر زخمی ہوئے تھے۔گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران غزہ پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملوں میں 60 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی بھی ہوئے۔ یہ کارروائیاں اب معمول بن چکی ہیں، کوئی اسرائیل کو روکنے والا نہیں ہے۔اِس کے برعکس چند روز قبل چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے پر اسرائیل وزیر اعظم اور امریکی صدر نے انتہائی غم و غصے کا اظہار کیا تھا، حالانکہ خدشہ یہی ہے کہ وہ اسرائیل کی اپنی ہی فائرنگ سے مارے گئے تھے۔اِس پر اسرائیل نے فوراً اقوام متحدہ کو آواز دے دی تھی حالانکہ وہ خود اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی ہدایت کو نظر انداز کرتا آیا ہے۔واضح رہے کہ سلامتی کونسل جنگ بندی کی قراردادیں منظور کر چکی ہے، عالمی عدالت ِ انصاف اپنے عبوری فیصلے میں اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دے چکی ہے، یہ بھی کہہ چکی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی مسلسل موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے ’جتنی جلدی ممکن ہو‘ ختم کیا جانا چاہئے۔
فلسطین پر جنگ مسلط ہوئے گیارہ ماہ گزر چکے ہیں لیکن اب تک سفارت کاری کے متعدد دور تنازعات کے خاتمے، غزہ میں قید اسرائیلی اور غیر ملکی قیدیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جیلوں میں بند بہت سے فلسطینیوں کی رہائی کے لئے جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ چند ہفتے قبل امریکہ نے ایک فارمولا پیش کیا تھا جس کے بارے میں خیال تھا کہ یہ تمام فریقین کے لئے قابل ِ قبول ہو گا لیکن اِس دوران مذاکرات میں شامل حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایران میں شہید کر دیا گیا اور معاملات کھٹائی میں پڑ گئے۔ اب ایک بار پھر امریکہ نئی تجویز پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ اگراِس تجویز کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ مذکرات کی کوششیں ختم کر دے گا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین اپنے موقف پر قائم ہیں اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اِس لئے معاہدے کی منظوری کے امکانات کم ہی ہیں۔ یاد رہے کہ ثالثوں میں قطر، مصر اور امریکہ شامل ہیں۔ چیف امریکی مذاکرات کار اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے لندن کی ایک تقریب میں بتایا کہ آئندہ چند روز میں مزید تفصیلی تجویز پیش کی جائے گی، اُمید ہے دونوں اطراف کے رہنماء تسلیم کریں گے کہ آخر وقت آ گیا ہے کہ کچھ مشکل انتخاب اور کچھ مشکل سمجھوتہ کیا جائے،90 فیصد حصے پر اتفاق ہے لیکن بقیہ10فیصد ہمیشہ ہی مشکل ہوتا ہے۔ حماس کے سینئر اہلکار حسام بدران کا کہنا تھا کہ اُن کے گروپ نے کوئی نیا مطالبہ نہیں کیا، وہ تو دو جولائی کو امریکہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز پر کاربند ہیں،اسرائیلی وزیراعظم ہی نئی شرائط رکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے جنگ ختم نہیں ہوگی۔
اسرائیلی وزیراعظم کی شرائط میں غزہ پٹی پر اپنا تسلط قائم رکھنا بھی شامل ہے جو کہ اُس کے توسیع پسندانہ عزائم کا ثبوت ہے۔ اسرائیل کی لبنان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک پر گاہے بگاہے بمباری اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے، وہ گاہے بگاہے ارد گرد دوسرے ممالک کے ساتھ ”چھیڑ خانی“ کرتا رہتا ہے، اِسی سوچ کے پیش نظر ترکیہ کے صدر نے اسلامی اتحاد کی بات کی ہے جو کہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ویسے تو سعودی عرب کی قیادت میں 35 اسلامی ممالک کا ایک فوجی اتحاد 2015ء سے قائم ہے، 10 دیگر اسلامی ممالک اِس کا باضابطہ حصہ نہیں ہیں لیکن اُن کا تعاون اِس اتحاد کو حاصل ہے، پاکستان بھی اِس کا حصہ ہے اور پاکستانی فوج کے سابق سپہ سالار اِس کے سربراہ ہیں، ترکیہ اِس میں با ضابطہ شامل ہے۔ اِس کا مقصد مذہب اور مسلک سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کے خلاف کام کرنا ہے،اِس کے رکن ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف حسب ِ ضرورت عسکری تعاون کرتے ہیں۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ اب تک اِس اتحاد کی طرف سے کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی،اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سمیت دیگر اسلامی تنظیمیں بھی موجود ہیں لیکن آپسی اختلافات خصوصاً ممالک کے ذاتی فوائد اِن تنظیموں کی طرف سے کسی بھی قسم کے موثر اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال ہو چکے ہیں اور بظاہر اسلامی ممالک میں کوئی بڑی تفریق حائل نہیں ہے تاہم اِ س کے باوجود اسلامی ممالک نیٹو کی طرز پر اپنا اتحاد بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ترکیہ کے صدر کی تجویز پر غور کرنا چاہئے اور پہلے سے موجود اسلامی فوجی اتحاد کے مینڈیٹ میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کے خلاف غیر اسلامی ممالک کی طرف سے کی جانے والی جارحیت شامل کر دی جائے تو عین ممکن ہے کہ فلسطین اور کشمیر جیسے سنگین مسائل کا حل ممکن بنایا جا سکے۔ اسرائیل آج جس ڈھٹائی اور دھڑلے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اِس کی ایک بڑی وجہ اس کے اتحادی ممالک کی پشت پناہی ہے،اسلامی ممالک بھی اگر متحد ہو جائیں تو بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ ترکیہ کے صدر کی تجویز پر تمام اسلامی ممالک غور کریں، اِس حوالے سے اقدامات کریں، ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر مل بیٹھیں، پریشر گروپ بنائیں۔دنیا میں جنگل کا قانون لاگو نہیں ہو سکتا، دنیا کے کئی حصوں میں مسلمان اِس وقت تکلیف میں ہیں، آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اِن کی نسل کشی کی جا رہی ہے ایسے میں ایک حقیقی اُمت مسلمہ کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے خلاف بڑھتی جارحیت کا راستہ روک سکے،اِنہیں انصاف دِلا سکے، مذاکرات کا جلد از جلد حتمی نتیجے پر پہنچانا ضروری ہے۔ اگر آج اسرائیل اور دیگر قوتوں کا راستہ نہ روکا گیا تو کل کو کوئی بھی ملک،کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہے گی۔