پنجاب حکومت کے رنگ
قارئین،دو ماہ کے بعد کینیڈا سے واپس لوٹا ہوں، مگر وطن کے مجموعی حالات ویسے ہی ہیں،جیسے پہلے تھے،بلکہ پہلے سے بھی بد تر نظر آ رہے ہیں،عطا الحق قاسمی اور حفیظ اللہ نیازی دو ایسے دانشور،کالم نگار ہیں جن سے مجھے عقیدت کی حد تک پیار ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ملکی سیاست کے بہترین نبض شناس ہیں،ان سے میرے جیسا قلمکار بہت کچھ سیکھتا ہے،ہفتہ رفتہ میں دونوں کے کالم ایک اخبار میں سیم پیج پر تھے، مگر ان کے خیالات ایک دوسرے سے کوسوں دور نظر آئے،قاسمی صاحب نے پنجاب میں میرٹ کا بول بالا کیا تو نیازی صاحب نے پنجاب میں اہلیت اور میرٹ کے قتل عام کی دھاک بٹھا دی”کیے جاؤ مے خوارو کام اپنا اپنا“ کے مصداق میری کیا مجال کہ میں ان دونوں کے احساسات اور خیالات کو جھٹلاؤں۔
مگر یہ حقیقت ہے کہ حکومتوں کی ناکامی اور کامیابی میں ان کی گورننس کا بہت زیادہ کردار ہوتا ہے،حکمرانوں کی طرف سے ہونے والے فیصلے، منتخب بیورو کریسی، کلیدی عہدوں کے لئے افسروں کا انتخاب اور اور پھر ان کلیدی افسروں کے مشورے سے صوبائی سطح پر افسروں کی تعیناتیاں، حکومت کی گورننس کو گڈ گورننس یا بیڈ گورننس بناتی ہیں، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا اپنی انتظامی ٹیم پر اعتماداور ان کے ساتھ رویہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،بیورو کریسی اور ریاستی مشینری متعلقہ حکومت کی انتظامی فورس کا درجہ رکھتی ہے،رہنما او ر کارکن ہرسیاسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں، مگر کچھ سرکاری فرائض ایسے ہوتے ہیں جو رہنماؤں اور کارکنوں کے علم میں لائے بغیر انجام دئیے جائیں تو ہی بہتر ہوتا ہے،ہر ریاستی کام کو سیاسی رنگ دینے سے معاملات عمومی طور پر خراب ہوتے ہیں،مگر ہمارے ہاں یہ ایک روایت کا درجہ پا چکے ہیں۔بھٹو دور ہمارے سامنے اس کی ایک مثال ہے، جنہوں نے طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں کا نعرہ لگایا اور عوام کو غیر ا علانیہ طاقت دے دی اور نتیجے میں کوئی سرکاری کام انجام دینا ممکن نہ رہا،سرکاری مشینری اور بیورو کریسی مجبور محض بن کر رہ گئی۔ تحریک انصاف کے بانی کا کارکنوں پر سحر اقتدار ختم ہونے کے بعد بھی طاری ہے، مگر پارٹی اور حکومت کے معاملات کو ایک ہی انداز سے نہیں چلایا جا سکتا،جس طرح عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوس ،انتخابات کے لئے اہم ہوتے ہیں لیڈر اور عوام میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح بیورو کریسی سرکاری مشینری جس نے حکومتی فیصلوں، پالیسیوں کو عملی شکل دینا ہوتی ہے وہ بھی حکومتی لیڈر اور حکومت کے درمیان رابطہ کاری کے علاوہ ڈیلیور کرنے کی منظم فورس ہے۔حکومتی معاملات میں جس رازداری کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بھی امین بیورو کریسی ہوتی ہے، مگر تحریک انصاف کی قیادت یہ نہ سمجھ سکی،ان کی حکومت سے پہلے بھی،ماضی میں سرکاری حکام کو ذاتی ملازم کی طرح رکھا گیا جسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تاریخ شاہد ہے کہ نا اہل ترین حکومت کے ساتھ اچھی بیوروکریسی کی طاقت ہو تو وہ کامیاب ہو جاتی ہے بیورو کریسی کی پسند ناپسند،ان کے لئے کونسی حکومت اچھی ، کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ق لیگ کی حکومت بہترین ٹھہری، ق لیگ اگر چہ مشرف کے دور میں برسر اقتدار رہی، مگر آج سالوں گزرنے پر بھی اس دور کی یادیں عوام اور سرکاری افسروں کے دِل و دماغ میں پائی جاتی ہیں،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں بیورو کریسی کو نہ صرف عزت سے نوازا بلکہ ان کے ساتھ رویہ بھی بہت اچھا رکھا،ان کو ریاستی نمائندہ کے طور پر ہی ٹریٹ کیا،اس دور میں بیوروکریسی کو جو مقام و مرتبہ ملا اس کے جواب میں بیورو کریسی نے ڈیلیور بھی کیا اور پنجاب میں مثالی گورننس اور ترقی رہی، اس دور کی کامیابی میں بیورو کریسی کے اس وقت کے تین بڑوں،جی ایم سکندر، سلمان صدیق اور سلیمان غنی کا بڑا ہاتھ تھا جو ان کے ساتھ،پرنسپل سیکرٹری،چیف سیکرٹری اور چیئرمین پی اینڈ ڈی تھے۔ پنجاب میں شہباز شریف دور بیورو کریسی کے لئے ایک آزمائش سے کم نہ تھا،وہ تمام محکموں کے سیکرٹری صاحبان کو صبح سے لے کر رات تک انگیج رکھتے،سارا دن ان کو اپنے دفتر کے باہر بٹھائے رکھتے اور رات کو گھر بُلا لیتے،گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد صبح پھر آفس میں طلبی کے پروانے کے ساتھ رخصت ملتی، اکثر افسروں کی بے عزتی بھی کی جاتی،مگر جن افسروں پر شریف برادران اعتماد کرتے ان کو عزت و توقیر سے نوازا جاتا،اعزاز کے ساتھ انعام بھی دیا جاتا،جس کی وجہ سے ن لیگ کا بھی بیورو کریسی میں ایک گروپ موجود ہے،جسے ن لیگ کی بیورو کریسی کہا جاتا تھا، پنجاب میں میاں شہباز شریف کے دور میں بے شمار چیف سیکرٹری رہے،جن میں جاوید محمود بیڈ گورننس اور ناصر محمود کھوسہ گڈ گورننس کا سمبل تھے۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں بہت ہی محدود اقتدار میں رہی، جبکہ مرکز میں پچھلے بیس سالوں میں ایک دفعہ اقتدار میں رہی،اس لئے بہت ہی کم بیوروکریسی اس کی حمائت یافتہ نظر آتی ہے،تحریک انصاف نے قریب قریب چار سال کا عرصہ مرکز اور پنجاب کے اقتدار میں گزارا، مگر اس نے کسی افسر کو خوش کیا نہ کسی کو احترام دیا۔
پنجاب کے موجودہ چیف سیکرٹری زا ہد اختر زمان پچھلے اٹھارہ ماہ سے یہاں تعینات ہیں اور بہترین کام کر رہے ہیں،نگران حکومت کے ایک سالہ دور میں انہوں نے ترقیاتی کاموں،گورننس اور اچھے افسروں کی تعیناتی میں نیک نامی حاصل کی،انہیں نگران وزیراعلیٰ کی بھی مکمل سپورٹ حاصل تھی،مگر اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ انتظامی معاملات میں ایوانِ وزیراعلیٰ حاوی ہو رہا ہے۔موجودہ پنجاب حکومت نے افسروں کے عرصہ تعیناتی کی بات کی تھی،مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا،ابھی حال ہی میں احمد عزیز تارڑ،عثمان انور اور معظم اقبال سپرا جیسے افسروں کو اچھا کام کرنے کے باوجود تبدیل کر دیا گیا، پنجاب میں وافر تعداد میں اچھے افسر ہیں مگر پسند ہی نہیں آتے جب سے یہ حکومت آئی ہے ایک ایک افسر کو کئی کئی چارج دیے جا رہے ہیں،صحت کے دونوں محکمے ایک طویل عرصہ ون ویلنگ کا شکار رہے،احمد عزیز تارڑ کو سیکرٹری اطلاعات لگا کر ڈی جی پی آر کا چاج بھی دیے رکھا، شہنشاہ فیصل عظیم کو ڈی جی پی آر لگایا تو اب احمد عزیز تارڑ کو تبدیل کر کے سیکرٹری اطلاعات کا اضافی چارج بھی شہنشا ہ فیصل عزیز کو دے دیا گیا،قبل ازیں عثمان انور سیکرٹری پراسیکیوشن تھے، مگر بعض وکلا کے دباو پر انہیں تبدیل کر دیا گیا،اسی طرح معظم سپرا فوڈ میں بہت اچھا کام کر رہے تھے، مگر ایک ایسی میٹنگ کا سہارا لے کر انہیں ہٹا دیا گیا،جس میں وہ شامل ہی نہ تھے،یہ سارے وہ معاملات ہیں،جو موجودہ پنجاب حکومت کی گورننس پر سوالیہ نشان بن رہے ہیں، مگر پچھلے دِنوں دو بہت ہی اچھے نوجوان افسروں سید موسیٰ رضا کو لاہور اور ڈاکٹر فیصل سلیم کو منڈی بہاالدین کا ڈپٹی کمشنر لگایا گیا ہے، جو قابل ِ تعریف کام ہے،سید موسیٰ رضا کے بارے کہا گیا کہ وہ شاید لاہور کو نہ چلا سکیں، مگر انہوں نے اب تک ثابت کیا ہے کہ صوبائی سیکرٹری سہیل اشرف نے ان کی بہترین تربیت کی ہے۔