دھوکہ کسے دے رہے ہیں؟

آپ گاڑی کو دیکھ لیں اس وقت تک بڑے آرام سے چلتی ہے،جب تک اُس کے سب کل پرزے کام کر رہے ہوتے ہیں،ایک ذرا سا پیچ بھی ڈھیلا ہو جائے تو ہچکولے کھانے لگتی ہے یا چوں چراں کی آوازیں دیتی ہے۔آپ کوئی مکان تعمیر کر رہے ہیں اور اینٹ،سیمنٹ،ریت کی مقدار معیار کے مطابق نہیں رکھتے تو اُس کی پائیداری مشکوک ہو جاتی ہے۔انسانی جسم کو دیکھ لیں،جب تک ہر چیز اپنے مقام پر موجود ہے،اپنے نارمل طریقے سے کام کر رہی ہے،انسان بھاگتا دوڑتا پھرتا ہے۔قدم ایسے اُٹھ رہے ہوتے ہیں جیسے ہوا میں تیر رہے ہوں،مگر جونہی کوئی خرابی ہوتی ہے،کوئی عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔بلڈ پریشر، شوگر اور نبض نارمل نہیں رہتے تو وہی اڑتا ہوا جسم بوجھ محسوس ہوتا ہے۔یہ کائنات کی حقیقتیں ہیں کہ مختلف عوامل مل کر نظام کو چلا رہے ہیں یہی حال کسی معاشرے کا ہوتا ہے۔ اُس کی ساری شاخیں جب اپنی جگہ پر کام کرتی ہیں تو وہ چلنے نہیں دوڑتے لگتا ہے، پھر اس بات کا تعین بھی وہ معاشرہ خود کرتا ہے کہ اسے اچھا بننا ہے یا بگاڑ کے ساتھ زندہ رہنا ہے،معاشرہ کوئی بے جان شے نہیں ہوتا،بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اُس کا کوئی اپنا خاص وجود نہیں ہوتا،اُس میں رہنے والے افراد اُسے زندگی دیتے اور اچھا یا برا بناتے ہیں،جن معاشروں کے افراد نے اس حقیقت کو مان لیا ہے وہ آج فلاحی معاشرے کہلاتے ہیں۔جن معاشروں کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ معاشرہ اُن کے وجود سے کوئی علیحدہ چیز ہے،وہ آج ہماری طرح کے معاشرے کی صورت دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔ہم اپنے مطلب کی گاڑی چلانا چاہتے ہیں،یہ بھول جاتے ہیں گاڑی صرف میری ہی نہیں، دوسروں کی بھی چلنی ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کسی سڑک پر جب گاڑیوں کی لمبی قطار لگی ہو۔ ٹریفک جام ہو چکی ہو تو کھوج لگانے پر یہ حقیقت کھلے گی کہ چند بے صبروں نے لائن میں کھڑے ہونے کی بجائے اسے توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی اور سامنے سے آنے والی گاڑیوں کا راستہ روک دیا،جس جلد بازی کے لئے انہوں نے قطار توڑی تھی وہ پہلے سے کہیں زیادہ تاخیر کا باعث بن گئی،ٹریفک کا سنہری اصول یہی ہے کہ راستہ دو، راستہ لو، ہم اس پر یقین نہیں رکھتے، ہم کہتے ہیں ہمیں راستہ دو، خود ٹریفک میں بے شک شام تک پھنسے رہو۔یہ تو خرابی کو جنم دینے والی بات ہے اور اس میں ہم پوری طرح کار بند رہتے ہیں۔آپ نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ جب ریلوے کا پھاٹک بند ہوتا ہے تو دونوں طرف گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں، گاڑیاں جب گر جاتی ہیں تو پھاٹک کھلتے ہی سامنے سے آنے والوں کا دھیان کئے بغیر سب نکل جاتے ہیں، جو ٹریفک دو منٹ میں گذر سکتی تھی،اُسے گزرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ یہ کچھ بنیادی مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرتی نظام کی ہم آہنگی میں خلل کو ظاہر کرتی ہیں یہ صحت مند معاشرے کی علامتیں نہیں،بلکہ ایک بیمار معاشرے کی نشانیاں ہیں۔
اب آتے ہیں اس رونے کی طرف جو ہم اکثر روتے ہیں کہ معاشرے میں کرپشن، بے ایمانی اور دھوکہ دہی بہت بڑھ گئی ہے۔بلاشبہ بڑھ گئی ہے،اِس میں دو رائے نہیں،مگر کیا یہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نے بڑھائی ہے،کیا اِس میں ہمارا کوئی کردار نہیں،چند روز پہلے ایک جاننے والے صاحب میرے پاس آئے۔انہوں نے کہا نجی تعلیمی اداروں نے لوٹ مار شروع کر رکھی ہے،فیسیں آئے روز بڑھا دیتے ہیں اور دیگر فنڈز کی مد میں بھی والدین کو لوٹ رہے ہیں۔آپ حکام بالا کی توجہ اِس طرف دلائیں۔میں نے کہا اچھی بات ہے کرتا ہوں کچھ۔ وہ چلے گئے تو میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک دوست نے جو انہیں اچھی طرح جانتا تھا،پوچھا آپ کو علم ہے یہ شخص کیا کرتا ہے،میں نے کہا کچھ زیادہ علم نہیں کبھی کبھار ملنے آ جاتا ہے۔اُس نے کہا اس شخص کی شہر میں دو فروٹ شاپس ہیں، رمضان المبارک میں اس نے خوب کمائی کی، بازار میں سب سے زیادہ مہنگے پھل اس کی دکان سے ملتے تھے۔اب بھی اس کی دکان پر پھل بازار سے مہنگے ہی ہوں گے۔یہ شخص آپ تو کوئی خوف خدا کرنے کو تیار نہیں، نجی تعلیمی اداروں کی طرف دیکھ رہا ہے،جو یقینا لوٹ رہے ہیں، لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم دوسروں کو ایمانداری کا درس دیں اور خود بے ایمانی سے جیبیں بھرتے رہیں، میں نے کہا بات تو تمہاری درست ہے ہم سب ایک چین کی صورت ایک دوسرے سے منسلک ہیں،مجھے پھل مہنگا ملے گا تو میں چاہوں گا میری آمدنی بھی بڑھے،فیسیں بڑھیں گی تو ہر دوسرا بندہ یہ چاہے گا کسی بھی ذریعے سے پیسہ کمائے۔یوں کسی ایک فرد کا عمل پورے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن جاتا ہے، جس طرح گاڑی کا پُرزہ ناکارہ ہو جائے تو گاڑی کام نہیں کرتی اُسی طرح معاشرے کا کوئی شعبہ بھی پٹڑی سے اُتر جائے تو معاشرے کی گاڑی کا انجر پنجر ہل جاتا ہے۔
چند روز پہلے اُس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب تعلیمی بورڈ ملتان کے دفتر میں کام کرنے والے ایک کلرک نے کسی دوست کی وساطت سے میرے ساتھ رابطہ کیا۔ اس کا کام ایک پٹواری کے ساتھ تھا جو اتفاق سے میرا جاننے والا تھا۔ کلرک نے کہا پٹواری میرے پلاٹ کا انتقال درج نہیں کر رہا۔رشوت مانگ رہا ہے،میں نے کہا میں اسے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تم رشوت مانگ رہے ہو، کیونکہ میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں،البتہ اُسے کہہ سکتا ہوں کہ تمہارا کام کر دے۔میں نے جب پٹواری سے کہا یہ میرا جاننے والا ہے اور ایک دوست کی وساطت سے آیا ہے اس کا کام کر دو،تو اُس نے کہا سر آپ کا حکم سر آنکھوں پر،لیکن یہ وہ شخص ہے جس نے میرے بیٹے کی گمشدہ سند نکلوانے کے لئے ریکارڈ فراہم کرنے کی خاطر رشوت لی تھی۔اب کہیں خود بھی کوئی کام بغیر رشوت لئے کر دیا کرے۔میں اس کی بات سن کر ہنس پڑا اور معنی خیز نظروں سے اُس کی طرف دیکھا وہ شرمندہ تو ہوا،لیکن توبہ تائب ہوا اس کا علم نہیں جب اس قسم کی دوعملی ہو کہ ہم دوسروں کا کام رشوت کے بغیر نہ کریں اور اپنا کام رشوت کے بغیر نکلوانا چاہیں تو گاڑی چلے گی نہیں، سب سے پہلے مفاد کی خاطر خود کو آگے رکھنے کی بجائے ایمانداری کے حوالے سے آگے نہیں رکھیں گے کوئی اصلاح ہو سکتی ہے اور نہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ہم درحقیقت ایک ایسا معاشرہ بن گئے ہیں جس پر ہر شخص دوسرے کو دھوکہ دے رہا ہے اور خود یہ خواہش رکھتا ہے،اسے کوئی دھوکہ نہ دے۔ہر شخص رشوت کے خلاف ببانگ ِ دہل بولتا ہے،مگر اس رشوت کے خلاف جو دوسرا اُس سے مانگتا ہے اپنے لئے رشوت کو حق الخدمت قرار دے کر جائز سمجھا جاتا ہے۔یہ صریحاً دھوکہ دہی ہے جو ہم ایک دوسرے سے روا رکھے ہوئے ہیں اور اچھے معاشرے کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭