کاروبار حکومت کاکام نہیں
ورلڈ بینک کے مطابق سرکاری تحویل میں لئے گئے شعبوں کی انتظامیہ کی جانب سے لوٹ مار کے سبب جنوبی ایشیا ئی ریجن میں پاکستان کے سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں کا منافع دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ترین ہے، مگر افسوس کہ کوئی بھی حکومت کاروبار سے نکل کر عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں بنکوں اور ٹیلی کام شعبے کی نجکاری کامیابی کی داستانوں کے طور پر لی جاتی ہے، جس سے ریاست اور عوام کی مالی حالت میں بہتری پیدا ہوئی۔ نجکاری کے چند ہی برسوں میں ان دونوں شعبوں کے خسارے منافعوں میں بدل گئے۔ مثال کے طور پر 2001ء میں نجکاری سے قبل بینکوں کا منافع بعد از ٹیکس9.77 ارب روپے تھا اور نجکاری کے بعد2007ء میں یہ منافع 73.115 ارب روپے ہو گیا۔ اس کے سبب بینکوں کی جانب سے قومی خزانے میں جمع کروائے گئے ٹیکسوں کی مد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا اور2001ء میں بینکوں کی جانب سے اگر 10.8 ارب قومی خزانے میں جمع کروایا گیا تھاتو 2007ء میں بڑھ کر 33.8 ارب روپے تھا۔اسی طرح 2001ء میں قومی تحویل میں چلنے والے بینکوں کی جانب سے قرضے معاف کرنے کی شرح نجی شعبے میں جانے والے بینکوں سے دوگنا تھی۔
جن بینکوں کی نجکاری کی گئی وہ بدترین کارکردگی سے بہترین کارکردگی کا سفر دنوں میں طے کرتے نظر آئے۔ اِس سے قبل ایڈوانسز کے ڈیفالٹ ہونے کی روش عام تھی، کیونکہ خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے انتہائی ناقص مینجمنٹ اختیار کی جاتی تھی، لیکن نجکاری کے بعد اس پر بہت کام ہوا اور بینکوں کے خسارے ان کے منافعوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ ایک یوبی ایل کی مثال لے لیجئے، جس کا 1993ء میں قبل از ٹیکس منافع 275ملین سے گھٹ کر 1994ء میں محض 59ملین رہ گیا تھا۔ کل ملا کر منافع میں کمی79 %بنتی تھی جو انتہائی تکلیف دہ بات تھی۔ نیشنلائزیشن کے بعد بینک سے مختلف حکومتوں نے 17ارب روپیہ نکال کر مختلف سیاسی ترقیاتی سکیموں پر لگوادیا تھا جس کی ریکوری ہی نہ ہو سکی تھی۔ 2002ء میں جب اس بینک کی نجکاری ہوئی تو اس کے منافع میں انتہائی نمایاں اضافہ ہوا۔ اسی طرح نجکاری کے بعد ایم سی بی، حبیب بینک اور الائیڈ بینک کی کایا بھی دیکھتے ہی دیکھتے پلٹ گئی اور آج یہ تمام بینک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف قومی خزانے میں بھاری بھرکم ٹیکس جمع کروارہے ہیں،بلکہ منافعوں کی نئی تاریخ بھی رقم کر رہے ہیں۔جب حکومت نے ٹیلی کام سیکٹر کو پرائیویٹائز کیا تب ایم این ایز ایم پی ایز اپنے ووٹروں کے گھروں میں ٹیلی فون لگوانے میں جتے ہوتے تھے لیکن آج کوئی ایسا نہیں کرتا، کیونکہ اب پرائیویٹ سیکٹر نے ٹیلی فون کی انڈسٹری میں انقلاب برپا کردیا ہے۔
1992ء سے 2001ء کے دوران پاکستان میں بینکوں اور ٹیلی کام سیکٹر کے علاوہ آٹو موبائل، سیمنٹ، کیمیکل، انجینئرنگ، فرٹیلائزر، گھی، معدنیات، سمیت تمام صنعتیں اور روٹی پلانٹ، اخبارات، سیاحت سمیت سرکاری تحویل میں زمینیں سرکاری تحویل سے نکال دی گئی ہیں، جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑے ہیں اور ترقی کے نئے مدارج طے ہوئے ہیں۔ مگر ابھی بھی پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، ہوٹلز،پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی بیلنس شیٹیں چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق ریاستی تحویل میں چلنے والے اداروں کامجموعی خسارہ 905ارب ہو چکا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 23فیصد زیادہ ہے، جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ خسارہ ہوشربا 1.4کھرب روپے کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ان میں پی آئی اے کا خسارہ 97.5 ارب روپے، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کا خسارہ 168.5 ارب روپے، اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا خسارہ 202.2 ارب روپے تک پہنچ چکاہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ حکومت ایسے تمام خسارے نجی شعبے کا بازو مروڑ کر وصول کرتی ہے، کہیں حد سے بڑھے ٹیکسوں کی صورت میں تو کہیں بجلی کی گراس سبسڈی کی صورت میں اور نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ریاستی تحویل میں چلنے والے ادارے خسارے سے باہر آ رہے ہیں اور نہ ہی نجی شعبہ ترقی کر پارہا ہے اور ریاست پاکستان کے پاس اخراجات پورے کرنے کے لئے قرضے لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
2018ء میں جب حکومتی اور نجی تحویل میں چلنے والے آئی پی پیز کا معاملہ اٹھا تو صرف 16آئی پی پیز کی حد تک ڈالر کی انڈیکٹیشن 148روپے پر اور منافع 12فیصد تک کردیا گیا۔اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومتی تحویل میں چلنے والے 52فیصد آئی پی پیز 33فیصد کپیسیٹی پر پلانٹ چلا کر 100فیصد کپیسیٹی کے چارجز لے رہے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر 36فیصد کپیسیٹی استعمال کر کے100 فیصد کپیسٹی کے چارجز لے رہا ہے۔ یہ مس مینجمنٹ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ ان معاہدوں کے بعد انہوں نے تیل، کوئلے اور Heat rateمیں چوریاں کیں، کہیں بھی eficiency کو یقینی نہیں بنایا گیا۔
پچھلے سال آئی پی پیز نے 11ہزار میگاواٹ پروڈیوس کئے، جبکہ ان کی کل کپیسٹی 44ہزار میگاواٹ کی ہے۔اِس وقت پاکستانی 24روپے فی یونٹ اوسط پر کپیسٹی چارجز دے رہے ہیں جو پوری دنیا میں کہیں بھی 8روپے فی یونٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ہم پاکستانی 16روپے فی یونٹ اوسط کپیسٹی زیادہ ادا کررہے ہیں۔ اس میں سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور پاور پلانٹس کی انتظامیہ سمیت سب کی بدنیتی، نالائقی اور مس مینجمنٹ شامل ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ یہی صورت حال رہی تو ملک بھر کی تمام صنعتیں بند ہو جائیں گی، کیونکہ ملک میں Take or Pay کے معاہدے اگلے سال مزید آجائیں گے۔
سپریم کورٹ اگر صرف فرانزک آڈٹ کروا دے تو سب کچھ کھل کر سامنے آجائے گاکہ معاہدوں میں غلطیاں تھیں۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ انٹرنیشنل انوسٹرز کے پیچھے بھی مقامی انوسٹرز ہی ہیں،جہاں تک Sovereign guarantee کا تعلق ہے تو اس کی پاسداری کا سوال تب پیدا ہوتا جب معاہدے ایمانداری سے کیے گئے ہوتے، لیکن اگر حکومت ہی کاروبار کرنا چاہتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے پالیسی کون بنائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 52فیصد آئی پیز حکومت کے ہیں اور وہ خود سے معاہدہ کر کے 33فیصدچلا کر 100فیصد کپیسٹی کے پیسے صارفین سے لے رہی ہے۔ جہاں تک بقیہ 28فیصد پرائیویٹ سیکٹر کے آئی پی پیز کا تعلق ہے تو ان کو بھی مذاکرات کی میز پر آنا چاہئے اور طے کرنا چاہئے کہ وہ جتنی بجلی بیچ رہے ہیں، اتنی ہی کے پیسے لیں، اس سے اوپر ایک پیسہ نہیں لینا چاہئے۔
اِس وقت پاکستان میں اکانومی پرفارم نہیں کر رہی، صنعت کا پہیہ نہیں چل رہا اور ایکسپورٹس 23بلین ڈالر پر منجمد ہیں۔ حکومتی آئی پی پیز کی مس مینجمنٹ عوام پر ڈالی جا رہی ہے۔ حکومت پہلے یہ مان لے کہ اس نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے تو بہت سے لوگ اس کا حل بتادیں گے، کیونکہ اس وقت ملک بھر کی بزنس کمیونٹی ایک ہو چکی ہے اور آئی پی پیز معاہدوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے ہیں۔اِس لئے حکومت عوام کی فلاح کی پالیسی بنائے اور کاروبار نہ کرے، کیونکہ حکومت بعض ایک پاور پلانٹوں سے 300روپے فی یونٹ میں بجلی خرید کر اس کا بوجھ ملکی خزانے پر ڈال رہی ہے۔
ہماری آج کی بجلی پیدا کرنے کی کپیسٹی 44000 میگاواٹ کی ہے، ہماری ضرورت23000میگاواٹ سالانہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس وافر انرجی موجود ہے۔ اگر حکومت کاروائی کرے گی تو پرائیویٹ انوسٹر ز یہ کارخانے سوٹ کیس میں ڈال کر کہیں نہیں چلے جائیں گے، کیونکہ اس قیمت پر دنیا میں کوئی اور انہیں قبول نہیں کرے گا۔ آج عوام کی فلاح کا معاملہ ہے، حکومت نے دیکھنا ہے کہ اس نے عوام کا بھلا دیکھنا ہے یاآئی پی پیز کا، کیونکہ قوم کی بس ہو گئی ہے۔پاکستان اس انرجی کرائسس کو sustainنہیں کر سکتا،پہلے بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہو چکی ہیں، بے روزگاری پھیل رہی ہے۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ بجلی کے موجودہ ریٹ پر مزید کارخانے بند ہو جائیں گے، جس مزید لوگ بیروزگار ہوں گے۔ ملک میں صنعتکاری کی ضرورت ہے،اس کو سہولت بہم پہنچائی جائے۔