معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ نویں قسط
قسط وہ بائبل سے اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگی جس میں اسے مکمل ناکامی ہوئی۔ ایسے معاملات میں وہی شخص دخل دے جسے کافی کچھ علم ہو۔ میں خاموشی سے بیٹھا یہ مناظرہ سن رہا تھا۔ میری طبیعت میں ویسے بھی مناظرہ بازی کا کوئی رجحان نہیں، نہ اسے میں اثباتِ حق کا کوئی مؤثر ذریعہ سمجھتا ہوں۔ یہ دونوں چونکہ کھڑے ہوئے تھے اس لیے اردگرد کے لوگ بھی ان کی باتیں سننے لگے۔ یہ مناظرہ آدھے گھنٹے تک جاری رہا ۔ جب بالکل صاف نظر آنے لگا کہ حنا کے اسلحے خانے میں اب کچھ نہیں بچا اور جو پہلے چلا وہ بھی بیکار گیا تو مجبوراً مجھے مداخلت کرنی پڑی۔ میرے لیے اب یہ نصرتِ دین کا مسئلہ تھا۔ میں اب بھی خاموش رہتا تو میرا مسلمان ہونا خدا کی نگاہ میں بے کار تھا۔ بالخصوص میرے اس علمی پس منظر کے ساتھ جو تھا تو بہت معمولی مگر اس گفتگو کے لیے کافی تھا۔یہ گفتگو شروع بھی میری ذات سے ہوئی تھی اس لیے میرا مداخلت کرنا دخل در معقولات ہر گز نہ تھا۔
معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ آٹھویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے ان صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اس وقت جس مذہب پر ہوں دلیل کی بنیاد پر ہوں۔ یہ میرا آبائی عقیدہ ہرگز نہیں۔ میں نے اسلام کو ایک طویل علمی سفرکے بعد حق سمجھا ہے۔ اس دوران میں نے اسلام کا تمام اہم ادیان و مذاہب سے تقابل کیا ہے اور تب ہی اسلام کو دین بنایا ہے۔ اسلام کے مقابلے میں عیسائیت کو رد کرنے کے دلائل میں بالکل سادہ انداز میں آپ کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔ میں اگر غلط ہوں تو دلائل سے میری اصلاح کردیجیے۔ دلیل کے سامنے آپ میرا سر جھکا ہوا پائیں گے۔
پہلی بات یہ ہے عیسائیت کی بنیادی کتاب بائبل ( عیسائیوں کی بائبل میں عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدیددونوں شامل ہیں۔ چاروں اناجیل یعنی متی،مرقس، لوقا اور یوحنا ، عہد نامہ جدید میں شامل ہیں) کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس میں صرف وہی کچھ لکھاہوا ہے جو آنجناب نے فرمایا۔ یقیناًایسا نہیں ہے۔یہ بات ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ بائبل کے متن میں تحریف ہوئی ہے۔ اب کیا معلوم کہ اس میں کتنا حصہ اصل ہے اور کتنا حصہ اضافی ہے۔لہٰذا میں اس کتاب پر اپنے عقیدے کی بنیاد کیوں کر رکھوں۔جبکہ دین اسلام کی بنیاد ایک ایسی کتاب پر ہے جو ابتدا سے آج تک بغیر کسی تبدیلی کے ہم تک پہنچی ہے۔اسلام کو مانا جائے یا نہیں لیکن یہ بات ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس کے پیش کرنے والے نے جو بات کہی تھی وہی بات آج تک قرآن کی شکل میں محفوظ ہے۔
دوسری بات یہ کہ عیسائیت کی بنیاد جن عقائد پر ہے وہ ایک معقول آدمی کے لیے ناقابلِ فہم ہیں۔ مثال کے طور پر آپ عقیدۂ تثلیث کے امکان کو عقلی طور پر ثابت کردیجیے۔ اگر نہیں کرسکتے تو آپ دوسروں کو اس کی طرف کس بنیاد پر بلارہے ہیں جبکہ ان کے پاس ایک زیادہ عقلی عقیدہ موجود ہے۔
اس کے بعد اگلے کئی گھنٹوں تک وہ صاحب، ان کی بیوی، ان کی بیٹی شیرون اور ساتھ بیٹھا ہوا عیسائی نوجوان رابن ان دونوں باتوں کا جواب دینے کی کوشش کرتے رہے۔ میری پہلی بات کا جواب دینا ان میں سے کسی کے بھی بس سے باہر تھا۔وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکے کہ بائبل میں تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اس کے Revised ورژن ہوتے ہیں۔یعنی بائبل پر نظر ثانی ہوتی رہتی ہے۔ میں نے بحث برائے بحث سے بچتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ میری بات کا مطلب نہیں سمجھے۔ کیاآپ کی (وہ صاحب پروٹسٹنٹ تھے)اور کیتھولک فرقے کی بائبل بالکل ایک ہے؟اگر نہیں ہے اور یقیناًنہیں ہے تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ زمانی اثرات اور انسانی خیالات کے تحت بائبل تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اس کے جواب میں ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اسی طرح دوسری بات کے جواب میں جو دلیل وہ پیش کرتے میں چند الفاظ میں اس کی بے معنویت کو واضح کردیتا۔ مثلاًانہوں نے تثلیث کو ایک تکون سے سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ صرف یہ کہیں کہ خدا تین ہیں تو یہ مثال بالکل درست ہے مگر آپ کو اس پر بھی اصرار ہے کہ خدا ایک ہے۔ گویا کہ ایک وجود بیک وقت تکون بھی ہے اور خط واحد بھی۔ یہ بات عقلی طور پر ماننے کے قابل نہیں۔ میں نے کہا کہ میں ایک سادہ عقیدے پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا ایک ہے۔ اس پران کی بیوی فوراً بولیں کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔ میں نے جواب میں کہاکہ پھر وہ تثلیث کہاں گئی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس تضاد سے واقف نہیں جو آپ کے عقیدہ میں پایا جاتا ہے۔
دورانِ گفتگو میں نے کہا کہ آپ مشرقی ملکوں (دونوں میاں بیوی اور رابن کا تعلق انڈیا پاکستان سے تھا)میں پروان چڑھنے والوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آپ لوگ عقلی استدلال کے جواب میں جذباتی تقریریں کردینا کافی سمجھتے ہیں۔میں نے بہت سادہ بات آپ کے سامنے رکھی ہے اس کا عقلی جواب دیجیے۔ ان لوگوں میں سب سے زیادہ معقول ان کی بیٹی شیرون تھی۔ وہ ساری زندگی کینیڈا میں رہی اور اس وقت یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی طالبہ تھی۔ اس نے میرے اعتراض کی معقولیت کو تسلیم کرلیا اور کہا کہ میں تثلیث کو سمجھانہیں سکتی۔ بس یہ روحانی طور پر محسوس کرنے کی بات ہے۔ میرے دل نے اسے سچ تسلیم کرلیا ہے اور آپ بھی خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کو تثلیث پر یقین عطا کردے۔اس پر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ سب سے زیادہ درست بات شیرون نے کی ہے کہ تثلیث کو عقل سے نہیں سمجھا جاسکتا۔عقل کے بعد اب نقل پر آئیے اور بائبل سے تثلیث کو اسی طرح ثابت کردیجیے جس طرح آپ بیان کررہے ہیں۔ میرے اس سوال کا جواب بھی وہ نہ دے سکے۔
خدا، بیٹا اور سولی
اس ابتدائی گفتگو کے بعد وہ صاحب اور ان کی بیوی تو ڈھیر ہوگئے اور میدانِ جنگ چھوڑ گئے البتہ شیرون اور رابن ڈٹے رہے۔ شیرون عیسائیت پر اپنے ایمان کا معاملہ بیان کرکے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ جبکہ رابن پاکستان میں عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کو بیان کرنے لگا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں مسلمانوں کے نہیں اسلام کے وکیل کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔ کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ عیسائیوں پرظلم کرنا اسلامی تعلیم ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ نکتہ ہماری بحث میں شامل ہوناچاہیے وگرنہ نہیں۔ پھر میں نے اس لایعنی بحث کو ختم کرنے کے لیے گفتگو کا رخ موڑ دیا اورشیرون سے کینیڈا اور اس کے بارے میں تفصیلات دریافت کرنے لگا۔ مگر آخر کار گفتگو گھوم کر وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی۔شیرون نے ایک دفعہ پھر عیسائیت پر اپنے قوی روحانی یقین کا تفصیلی اظہار کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اسلام کی دعوت پیش کرنا اب میری ذمہ داری ہے اس لیے کہ محض عیسائیت پر تنقید کرنامیرا مقصد تھا نہ اس کا کوئی فائدہ۔
جب وہ گھنٹہ بھر بول چکی تو میں نے کہا کہ میں بھی آپ کو بتا نا چاہوں گا کہ میں کیوں مسلمان ہوں۔ میں نے کہا کہ ایک صاحبِ شعور آدمی کی حیثیت سے مجھے اسلام کی یہ بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ اس کی تعلیمات جیساکہ اس کے اولین داعی نے پیش کی تھیں آج کے دن تک بعینیہٖ موجود ہیں۔ انہوں نے خدا کا نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ سچے ہیں تو ہمارے سامنے ٹھیک خدا کی بات موجود ہے۔ جبکہ دیگر تمام مذاہب ، بلا استثنا ، یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں کہ ان کے اولین داعی نے جو کچھ کہا وہ آج کے دن تک محفوظ ہے۔ گویا اگر انہیں سچا مان بھی لیا جائے تو ضروری نہیں کہ ان کی بات کو سچ مانا جائے۔ کیونکہ وہ تو تبدیل ہوچکی۔دوسری بات یہ ہے کہ خدا کو جاننے کا ذریعہ مذاہب ہی نہیں یہ کائنات بھی ہے۔ اور یہ کائنات جس قسم کے خدا کاتعارف کراتی ہے وہ غیر معمولی حد تک بلند وعظیم ہے۔ یہ کائنات آخری حد تک عقلی اصولوں پر استوار ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ وہ خدا جس نے یہ کائنات بنائی جب اپنا پیغام بھیجے تو اس میں غیر عقلی باتیں ڈال دے اور اس میں خدا کی ایک مضحکہ خیز تصویر سامنے آئے۔اسلام واحد مذہب ہے جس کی ہربات عقل کے عین مطابق ہے اور اس کی کتاب سے خدا کی عظمت کا صحیح تصور سامنے آتا ہے۔مجھے اسلام کی یہ خوبیا ں کسی دوسرے مذہب میں نظر نہیں آئیں۔
پھر میں نے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے فلسفے کے مطابق خدا نے اس دنیا میں انسان کو آزمائش کے لیے بھیجا ہے۔ اس نے ہر دور میں اپنے رسولوں کو ایک ہی پیغام دے کر بھیجا ہے کہ لوگو! تمہار ا رب ایک ہی ہے اور ایک روز تمہیں اس کے حضور حاضر ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اگرتم اچھے کام کروگے تو اس کی نعمت بھری جنت میں جاؤگے اور برے کام کروگے تو جہنم تمہارا مقدر ہوگی۔اسلام کے فلسفے اور اس کی تعلیم میں آپ کو کو ئی بھی کمی یا علمی اور عقلی نقص نظر آئے تو بتائیے۔ ابھی نہیں تو بعد میں سوچ کر اعتراض کرلیں۔ میں نے ان دونوں کو اپنا ای میل ایڈریس بھی دیا۔
میری اس گفتگو کے پس منظر میں دراصل میرے وہ اعتراضات تھے جو میں پہلے عیسائیت کی تعلیمات پرکرچکا تھا۔ مثلاً میں نے کہا تھاکہ خدا کو بیٹے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جواب ملا کے آدم ؑ وحوا کے اس گناہ (Original Sin) کی بنا پر جو ابتدائے آفرینش میں انہوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھاکرکیا ۔جس کی بنا پر پوری انسانیت گنہگار ہوگئی۔ چنانچہ خدا نے اپنے بیٹے کو انسان کی شکل میں دنیا میں بھیجا تاکہ وہ سولی پر چڑھ کر پوری انسانیت کی طرف سے کفارہ ادا کردے۔
میں نے کہا یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ اگر آدم ؑ نے بالفرض کوئی گناہ کیا تو اس کی ذمہ داری ان کی اولاد پر کیوں ڈالی جائے۔ یہ تو خلافِ عدل ہے۔دوسرے یہ کہ گناہ آدم ؑ نے کیا تھاتو کفارہ بھی وہی دیتے۔ خدا نے اس مقصد کے لیے کیوں پہلے ایک بیٹے کو پیدا کیا اور پھر اس کو سولی پر بھی چڑھادیا۔ایک کے جرم کا بدلہ دوسرے کو دینا کیا ظلم نہیں ہے؟ آپ جس کفارے کو خدا کی رحمت کہتے ہیں وہ تواس کے ظلم کا ثبوت ہے۔ تیسرے یہ کہ عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث کے مطابق عیسیٰ بھی خدا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسانوں کے جرم کی سزا خدا نے اپنے آپ کو کیوں دی۔عجیب منطق ہے۔ جرم آدم ؑ نے کیا ، مجرم اولادِآدم ؑ ہوئی اور سزا خدا نے بھگتی۔ پچھلی بات اگر خدا کے ظلم کا ثبوت ہے تو یہ بات اس کی حماقت کا(معاذاللہ)۔
پھر اس کفارہ کا وقت بھی محل نظر ہے۔ اس کی اگر کوئی ضرورت بھی تھی تو اس کا مناسب وقت حضرت آدم ؑ سے متصل زمانہ تھاتاکہ بعد میں آنے والے تمام لوگ کفارہ پر ایمان لاتے اور نجات پاتے۔ یہ واقعہ صرف دو ہزار سال قبل پیش آیا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے لوگوں کی نجات کیسے ہوتی تھی؟ جیسے بھی ہوتی تھی کم از کم کفارے کے عقیدے کو مان کر تو ہوتی نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس وقت تک تو یہ واقعہ ہوا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفارے کو مانے بغیر نجات ہوتی رہی ہے۔ تو دو ہزار سال قبل خدا کو اچانک یہ خیال کیسے آگیا کہ اب نجات کے لیے بیٹا پیدا کروں اور اسے سولی پر چڑھواؤں؟
پھر میں نے پوچھاکہ کیا اللہ تعالیٰ کے لیے ایک سادہ راستہ یہ نہیں تھا کہ وہ آدم ؑ کو معاف کردیتے ؟ میں جس مذہب پر ہوں اس نے مجھے یہی بتایا ہے کہ خدا نے آدم ؑ کو معاف کردیا تھا۔آپ بتائیے کہ کون سی بات عقل سے قریب ہے۔بلاوجہ بیٹا پیدا کرکے سولی پر لٹکوانا یا سیدھا سا آدم ؑ کو معاف کردینا۔
عصائے قرآن
خدا نے اپنے رسولوں کو مختلف معجزات سے نوازا ہے۔ مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن سب سے زندہ اور عظیم معجزہ ہے۔ بڑے بڑے کام کرنے والا حضرت موسیٰ کا عصا ان کے بعد محض لکڑی کی ایک عام چھڑی بن کر رہ گیا تھا۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن آج بھی ہر سانپ کو رسی میں بدل دیتا ہے۔ اس روز مجھے اس کا ایک مشاہدہ ہوا۔ میں نے اپنی بات کے آخر میں سورۃ المائدہ کی آخری آیات کامفہوم ان کے سامنے بیان کیا جس میں، بروزِقیامت، اللہ تعالیٰ اور حضرت عیسیٰ کا مکالمہ نقل ہوا ہے۔ میرا مقصد خدا کی عظمت اور حضرت عیسیٰ ؑ جیسے عظیم ترین انسان کی حالت کا بیا ن تھاجو خدا کی ہیبت سے ان کے اوپر طاری ہوگئی۔ ان آیات میں حضرت عیسیٰ ؑ کے الفاظ سے جو عبدیت اور بے کسی جھلک رہی ہے اور خدا کے کلام سے جو غضب (خیال رہے کہ غضب کا رخ عیسائیوں کی طرف ہے) ٹپک رہا ہے وہ کسی بھی ترجمے اورخاص طور پر اس انگریزی ترجمے کی، جو میں اس وقت کررہا تھا، گرفت میں نہیںآ سکتا۔ با لخصوص جب حضرت عیسیٰ ؑ سے اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ اے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بنالو۔ مجھے دوسروں کی قلبی حالت کا تو اندازہ نہیں لیکن اس وقت میرا اپنا حال یہ ہوگیا کہ گویا میرا اپنا دل پھٹ جاتا۔ ان سب پربھی سناٹا طاری ہوگیا جو بہت دیر تک رہا۔ شاید وہی سناٹا جو جادوگروں کے سانپوں کے رسیوں میں تبدیل ہوجانے پر ہوگیا ہوگا۔
اس وقت ٹرین اپنی منزل کے قریب پہنچنے والی تھی۔ قرآن کے بعد ہم سب نے جان لیا تھا کہ کہنے سننے کی ساری بات ختم ہوچکی ہے۔ رابن کچھ کہے بغیر اپنی سیٹ پر چلاگیا اور شیرون جو پچھلے چھ گھنٹے سے میری طرف رخ کیے اپنی سیٹ پر الٹی بیٹھی تھی خاموشی سے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ البتہ حنا وہیں کھڑی رہی۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ یہ بے چاری چھ گھنٹے سے کھڑی ہوئی ہے۔ا ترنے سے قبل میں نے بہت خوشگوار انداز میں ان لوگوں سے اجازت لی اور واضح کیا کہ کسی کی دل آزاری یا مناظرہ بازی میرا مقصود نہ تھا۔ بہرحال ہم اچھی طرح مل کر رخصت ہوئے۔
میں اس چھ گھنٹے کی بحث میں بمشکل آدھ گھنٹے ہی بولا ہوں گا۔ میں نے اسلام کا دفاع کیا تھا تو کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں۔ بلکہ اس بنا پر کہ یہ اس دنیا میں حقیقت کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے۔ میرے نزدیک حق کو عقل سے دریافت کرنا چاہئیے اور دل سے عمل کرنا چاہیے۔میں نے ان کے لیے اور اپنے لیے بھی خدا سے ہدایت کی دعا کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ امریکا کی سرزمین میں داخل ہوتے ہی میں نے امریکا والوں کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ تو ان لوگوں کو ہدایت کی روشنی عطا فرما۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)