عوامی تحریک بن سکتی ہے؟

عوامی تحریک بن سکتی ہے؟
عوامی تحریک بن سکتی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تحریک انصاف سوشل میڈیا سے نکل کر سڑک تک پہنچنے کی کاوشیں کرتی نظر آ رہی ہے،تحریک انصاف کے وکلاء ہمہ وقت سیاسی محاذ کو گرم رکھنے میں مصروف رہتے ہیں ویسے زبان و بیان کی گرمی تو تحریک انصاف کا طرہ امتیاز رہا ہے دوسروں کو گالی گلوچ کرنا، جھوٹ بولنا اور پاؤں جوڑ کر بولنا اور ایسے بولنا کہ شک پیدا ہونے لگے کہ یہ سچ ہے،کوئی مثبت کام کرنے کی بجائے جھوٹ اور افتراق و تفریق کی ترویج ان کا خاصا رہا ہے۔ بانی تحریک کے جیل چلے جانے سے ایسی سرگرمیاں کم نہیں ہوئیں،کیونکہ تحریکی بھائی اس کام میں اِس قدر تربیت یافتہ ہو چکے ہیں کہ اب معاملات آٹو پر چل رہے ہیں بانی کھلے ہوئے ہوں یا بند ہوں،باہر ہوں یا اندر،اب تو ہر تحریکی انصافی اس قدر تربیت یافتہ ہو چکا ہے کہ وہ خودبخود ویسا  ہی کرتا ہے اور ویسا ہی بولتا ہے جو تحریک انصاف کی گھٹی میں موجود ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نئے آنے والے بھی قلیل مدت میں ایسے تاک ہو جاتے ہیں کہ وہ نو آموز لگتے ہی نہیں،  یہ کلچر کا اثر ہوتا ہے کہ نئے بھی اسی رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔اسد عمر، شبلی فراز اور ایسے ہی کلچرڈ قسم کے لوگ بھی بالآخر دشنام طرازی کے ماہر بن چکے ہیں ماحول نے انہیں اپنے ہی رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔

تحریک انصاف،مولانا فضل الرحمن کے ساتھ سلسلہ جنبانی جاری رکھے ہوئے ہے،کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مولانا کے ورکر، صرف ورکر ہی نہیں نظریاتی کارکن ہیں،دینی جذبے سے سرشار مدارس کے باقاعدہ تربیت یافتہ مولانا کی ایک آواز پر متحرک ہونے اور کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہونے والے ہیں وہ اس قسم کے عملی مظاہرے پہلے بھی کر چکے ہیں، مقتدرہ قوتوں کو بھی مولانا کی اس قوت کا اندازہ ہے،عمران خان بھی اسی قوت کو ساتھ ملانے یا اس کے ساتھ مل کر حکومت کو ناکام بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔نظریاتی اور فکری طور پر صرف مولانا فضل الرحمن اور تحریک انصاف ہی نہیں،بلکہ جماعت اسلامی بھی ایک صفحے پر نظر آتے ہیں یہ سب لوگ الیکشن2024ء کو نہیں مانتے،مقتدرہ کی مداخلت سے قائم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو پی ڈی ایم ٹو کہتے ہیں، ویسے شہباز شریف کی پی ڈی ایم اتحادی حکومت نے16 مہینوں کے دوران، ملک کو ڈیفالٹ  سے بچانے کے نام پر جو کچھ کیا وہ قابل ِ ستائش نہیں ہے،عوام کو معاشی مشکلات کا شکار کرنے کے بعد ”اللہ کا شکر ہے“ کا نعرہ بلند کرنا اور کہنا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے۔اِس وقت عمومی تاثر یہی تھا کہ ملک کے بارے میں تو پتہ نہیں کہ وہ ڈیفالٹ سے بچا ہے یا نہیں، لیکن عوام کے بارے میں یہ یقینی ہے کہ وہ ڈیفالٹ کر گئے ہیں،ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے نام پر عوام پر ٹیکسوں کا جو بوجھ ڈالا گیا اِس سے مسلم لیگ(ن) اور اتحادیوں کے بارے میں عوامی تاثر میں ابتری پیدا ہوئی۔یہ اسی ابتری کا نتیجہ ہے ہے نواز شریف چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز نہیں ہو سکے۔ ن لیگ سے عوامی نفرت کا اظہار، تحریک انصاف کو اکثریت ملنے کی صورت میں کیا گیا۔ فروری 2024ء کے انتخابات کے وقت تحریک انصاف 9مئی کے سانحے کے زیر اثر سہمی بیٹھی تھی، عمران خان اور دیگر بڑے قائدین یا جیلوں میں تھے یا زیر زمین جا چکے تھے۔ تحریک انصاف سے ان کا پارٹی نشان بھی چھینا جا چکا تھا اس کے باوجود انصافی ووٹر جوق در جوق نکلے،پولنگ سٹیشنوں تک پہنچے اور انصافی امیدواروں کو چن چن کر جتوایا،لیکن مخصوص نشستیں نہ ملنے کے باعث تحریک انصاف حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ آ سکی۔

اسی دن سے ایک سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا۔جماعت اسلامی، تحریک انصاف مولانا فضل الرحمن اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے ان انتخابات کی شفافیت اور ن لیگی حکومت کی نمائندہ حیثیت پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے تھے، گزرے تین چار مہینوں کے دوران حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عوام کے ساتھ جو کچھ کر دیا ہے اس نے حکومت کی مقبولیت کا گراف پاتال تک پہنچا دیا ہے۔حکومت کی ناکامی اور نامرادی کے بارے میں متفقہ رائے قائم ہوتی چلی گئی ہے اس میں ن لیگی، انصافی، جماعتیہ، پپلیا وغیرہ کی تفریق نہیں ہے،حکومتی اقدامات  نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو بلاتفریق شدید متاثر کیا ہے،طبقہ اشرافیہ بشمول حکمران و مقتدر طبقات کے علاوہ ہر طبقہ برباد نظر آ رہا ہے،ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے اور بڑھاتے ہی چلے جانے کی پالیسی نے عمومی کاروبارِ حیات پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔معاشی نمو میں اضافے کے بغیر صنعتی پھیلاؤ کے بغیر، سرمایہ کاری میں اضافے کے بغیر،روز گار کے مواقع بڑھائے بغیر ٹیکسوں میں اضافہ احمقانہ اقدام نہیں تو اور کیا ہے،حکومت نے ایسے اقدامات کرتے وقت کسی منظم حکمت عملی اور اس کے مستقبل میں اثرات کا بھی ذکر نہیں کیا تو قرضوں کے بڑھے ہوئے اور بڑھتے ہوئے حجم کا،جس کے لئے ٹیکسوں کی وصولیوں میں اضافے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے،لیکن یہ نہیں کہا کہ عوام کا خون نچوڑنے کے بعد قرضوں کا بوجھ کم بھی ہو گا؟قرضوں کا بوجھ ہر دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔حکومت کے پاس کوئی قلیل مدتی یا طویل مدتی پلان ہی نہیں ہے کہ قرضوں کا بوجھ کس طرح کم کرنا ہے وہ تو ”ڈے بائی ڈے“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ آج کا دن خیر خیریت سے گزر جائے، کل کس نے دیکھا ہے۔ 9مئی نے عمران خان کی پارٹی کو نیم مردہ کر دیا تھا لیکن حکمرانوں کی پالیسیوں نے اسے درگور نہیں ہونے دیا۔موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے اسے ایک یار پھر زندہ کر دیا ہے وہ جیل میں ڈٹا ہوا ہے،للکار رہا ہے۔حکومت پر تنقید کے نشتر چلا رہا ہے عمران خان ایک سزا یافتہ مجرم ہے لیکن پارٹی چلا رہا ہے۔وہ ریاست کا ملزم ہے لیکن للکار رہا ہے اسے حقیقی معنوں میں کیفر کردار تک پہنچایا بھی نہیں گیا اور نہ ہی اسے حتمی انجام تک پہنچانے کی کوئی پالیسی نظر آ رہی ہے ایسے لگ رہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی ناکامی،عمران خان اور ہم نواؤں کو ایک بار پھر اقتدار کے قریب  لار ہی ہے اور اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو عوام اٹھ بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -