وزیر اعلیٰ مریم نواز کے سو دن
پنجاب حکومت کے 100دن مکمل ہو چکے ہیں، عام طور پر اتنا وقت کسی حکومت یا حکمران کی کارکردگی پرکھنے کے لیے کافی نہیں ہوتا،یہ عرصہ تو حکومتی معاملات کو سمجھنے اور سرکاری اداروں کی صورت حال جانچنے میں لگ جاتا ہے، پھر بھی یہ سوا تین مہینے کا وقت اتنا ضرور ہوتا ہے کہ حکومت یا حکمران کی سوچ کی سمت کا اندازہ لگایا جا سکے،یہ دیکھا جا سکے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں، اس تناظر میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس سارے عرصے میں وہ بے حد متحرک اور سرگرم رہی ہیں، ان 100دنوں میں کوئی دن ایسا نہیں گیا جب انہوں نے کسی نہ کسی سرکاری ادارے کا دورہ نہ کیا ہو، وہاں کے حکام کی کارکردگی نہ جانچی ہو اور معاملات کو بہتر بنانے کے لیے احکامات نہ جاری کیے ہوں، ان کی سرگرمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں میں انہوں نے 45 منصوبے شروع کرائے۔ مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، امنِ عامہ اور نوجوانوں کے مسائل کے حل پر خصوصی توجہ دی، ان کی ایک بڑی کامیابی مہنگائی کم کرنا ہے، انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے 20روپے والی روٹی 14روپے کی کر دی اور نان کے نرخ بھی کم کیے، آٹے، دالوں، چینی، گوشت، سبزیوں اور خوردنی تیل سمیت متعدد اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی، یہ مہنگائی کے مارے عوام کے لیے ایک بڑا ریلیف تھا۔
جس وقت مریم نواز نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا رمضان المبارک کی آمد آمد تھی، انہوں نے تیزی سے کام کرتے ہوئے اپنی حکومت کے پہلے رمضان پیکیج کا اعلان کیا اور محکمہ خزانہ کو اس اعلان پر عملدرآمد کے لیے فوری طور پر 30ارب روپے فراہم کرنے کا کہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس پیکج سے 65لاکھ گھرانے اور ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد مستفید ہوئے، مسلم لیگ ن کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں صحت کے شعبے میں اصلاحات لائی گئی ہیں، فیلڈ ہسپتال قائم کیے گئے ہیں، امراض قلب کے مریضوں کو گھر گھر ادویات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، ڈائلیسز اور کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات دینے کے کام کا آغاز کیا گیا ہے اور کسان کارڈ متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ سارے دعوے درست ہو سکتے ہیں لیکن معاملہ اتنا بھی سیدھا اور سادہ نہیں جتنا بیان کر دیا جاتا ہے، یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو خوش گوار ہو سکتا ہے لیکن اسی تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جسے اجاگر کیے بغیر نہ تو پوری تصویر واضح ہو گی اور نہ ہی اچھی طرح تجزیہ کیا جا سکے گا کہ مریم نواز کی حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی دراصل ہے کیا اور کیسی؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مریم نواز نے گزشتہ 100دنوں میں درجنوں منصوبوں اور اقدامات کا اعلان کیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے احکامات پر عمل درآمد ہوا اور کتنے اعلانات عمل درآمد کے بغیر ہی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ گزشتہ برس سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت کی رمضان المبارک میں 84ارب روپے کی آٹا تقسیم میں 20ارب سے زائد کی چوری ہوئی ہے۔ اس بار ایسی کرپشن کی کوئی خبر تو نہیں آئی لیکن یہ خبریں آتی رہیں کہ آٹا من پسند لوگوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔
9مارچ کی ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا نگہبان رمضان راشن سکیم ڈور ٹو ڈور راشن پہنچانے کا حکم نظر انداز کر دیا گیا، عوام ذلیل و خوار ہو گئے مستحقین کو ان کی دہلیز پر راشن کی عدم فراہمی، تھیلوں کی چوری، اور مستحقین کو محروم رکھنے جیسی شکایات تیزی سے سامنے آ رہی ہیں۔ پھر پنجاب میں آٹا اور روٹی تو سستے کر دیے گئے لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی قیمت بلکہ بھاری قیمت ہمارے کسانوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ، عین گندم کی برداشت سے چند ہفتے پہلے بھاری مقدار میں گندم کی درآمد سے اس فصل کی پیداوار ٹکے ٹوکری ہو گئی، کاشت کاروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں،سال بھر کی محنت، مہنگی کھاد، ڈیزل، بجلی اور دیگر اخراجات سے تیار کی جانے والی گندم آڑھتی من مانے ریٹ پر بٹور رہے ہیں اور کسان بے بسی اور بے کسی سے اپنے ہی لٹنے کا تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ گندم کا سرکاری ریٹ3900روپے فی من مقرر کیا گیا تھا لیکن درآمد شدہ گندم اور نئی پیداوار کی وجہ سے یہ سرپلس ہو گئی اور کسان تین ہزار یا 29 سو روپے کی ایک من گندم بھی فروخت کرتے رہے۔ اس طرح سستی روٹی کے نام پر پنجاب کی ساٹھ فیصد کسان آبادی پر ظلم کیا گیا۔ انہی 100 دنوں میں تجاوزات ختم کرنے کا کہا گیا جو ختم نہیں ہو سکیں شہروں کی صفائی کا حکم جاری کیا گیا لیکن لاہور کے باہر ویسی صفائی نظر نہیں آئی جیسی نظر آنی چاہیے تھی۔ گیس کے نرخ بڑھتے رہے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ انہی 100دنوں میں دوبارہ شروع ہو گئی، پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی ان سو دنوں میں کئی بار اضافہ اور چند بار کمی کی گئی، شہروں میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز اب تک استعمال ہو رہے ہیں جبکہ ملاوٹ خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کا سلسلہ بھی پہلے ہی کی طرح جاری ہے۔ مریم نواز کی میڈیا کیمپین میں سوشل میڈیا کا اس قدر استعمال کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا امین گنڈا پور نے انہیں ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ کا نام دے دیا اور کہا کہ ان کی کارکردگی ٹک ٹاک کے لیے ہوتی ہے۔ مریم نواز کی حکومت میں محکموں کی کارکردگی، بے ہنگم آبادیوں اور ٹریفک کے مسائل میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مریم نواز نے جو 43 منصوبے شروع کرائے ان میں سے کتنوں پر عمل ہوا، کسی کو کچھ معلوم نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پنجاب حکومت نے ہتک عزت کا بل بھی پہلے سو دنوں میں ہی پاس کیا اور اپوزیشن کی آواز کو نظر انداز کر کے کیا،اِس بِل کا اطلاق الیکٹرانک اور پرنٹ سمیت پورے سوشل میڈیا پر بھی ہو گا۔ یو ٹیوب، ٹک ٹاک، ایکس، فیس بک، انسٹا گرام اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمز سمیت کسی بھی میڈیا کے ذریعے جھوٹی اور غیر حقیقی خبریں پھیلانے پر ہتک عزت کا مقدمہ درج ہو سکے گا۔یہ سب جانتے ہیں کہ ہر حکومت کا اقتدار میں میڈیا معاملات پر موقف اور ہوتا ہے اور اپوزیشن کے دنوں میں مختلف۔
اب ان پہلے سو دنوں کی کارکردگی کی بنا پر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ مریم نوازکی حکومت کتنی کامیاب اور کتنی ناکام ہے، حکمران کے لیے محض منصوبوں کا اعلان کرنا کافی نہیں ہوتا، ان پر عملدرآمد کرانے کے لیے نگرانی بھی کرنا پڑتی ہے، اگر آنے والے دنوں میں ان کوتاہیوں، خامیوں اور کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے،تبھی حکمرانوں کی جانب سے کیا گیا گڈ گورننس کا کوئی دعویٰ سچ ثابت ہو گا۔