معلوماتی سفرنامہ۔۔۔پینتیسویں قسط
نورِ ہدایت
شرک کی اس لامتناہی تاریکی میں اگر نورِ رسالت کا یہ عظیم مدنی سورج طلوع نہ ہوتا تو شاید آج بھی لوگ یہ کہتے ہوئے مرجاتے کہ اے خدا میں نہیں جانتا تو کون ہے، کیسا ہے اور تجھے کیسے راضی کیا جائے۔ خدا ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ان گنت درود و سلام بھیجے کہ وہ اگر اپنی جان پر اتنی سختیاں جھیل کر دین حق اور توحید کا علم بلند نہ کرتے تو آج اس دنیا میں کوئی خدا کا عبادت گزار نہ ہوتا۔صلی اللہ علیہ وسلم۔آپ کی لائی ہوئی ہدایت نے انسانوں کو بتایا کہ آقا کون ہے اور غلاموں کو کیسا ہونا چاہیے۔آپ کی دعاؤں نے بندوں سکھایا کہ خدا اور بندے کا رشتہ کیسا ہونا چاہیے۔آپ کی سیرت نے مخلوق کوآگاہ کیاکہ عقل و خرد کی طرح دل و نظر کا مسجود بھی وہی ہے۔ آپ کے شب و روز نے دنیا کو دکھایا کہ مطلوب وہی ہے، مقصود وہی ہے اور معبود وہی ہے۔ لاالہ الا اللہ۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چونتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں جب کبھی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتا ہوں تو خدا کے سامنے یہ گواہی ضرور دیتا ہوں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اے خدا میرے لیے تو بھی نہ ہوتا۔اس میں کیا شک ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہ ہوتی تو ہم قرآن کو جان پاتے نہ ایمان کو۔ نہ خدا کو نہ اسلام کو۔ آج اگر ہم جانتے ہیں کہ خدا حق ہے، آخرت حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، انبیاء حق ہیں، کتابیں حق ہیں تو یہ صرف آپ کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ ورنہ آج ہم بھی کسی فرشتے کسی بت کو صاحبِ اختیار سمجھ کر نذرانے چڑھاتے ،کسی نبی کسی ولی کو پوجتے، چاند سورج کو سجدہ کرتے،بے کس قبروالوں کے آگے گڑگڑاتے، خدا کو، دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کرکے اور بہت دور سمجھ کر، کوئی وسیلہ کوئی شفیع ڈھونڈتے ۔یا پھر خدا اور آخرت کا انکار کرکے ایسی اندھیری راہوں کے مسافر بن جاتے جن کی کوئی منزل نہیں ۔ یہ صرف آپ کی ذات تھی جس نے ہمیں ہر اندھیرے سے نکال لیا۔ ہر ظلم ہر گمراہی سے بچالیا۔ خدا آپ پر اپنی شان کے مطابق درود و سلام بھیجے اور پوری انسانیت کی طرف سے آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے۔
آگ اور انعام
ہم دوپہر کے وقت مدینہ پاک پہنچے۔ ظہر نکل چکی تھی۔ رضوان بھائی گاڑی پارک کرنے چلے گئے اور میں اپنی اہلیہ ، بھابی اور بچوں کے ہمراہ ہوٹل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ خواتین کو ایک طرف بٹھایا اور بہت تلاش کے بعد ایک ہوٹل میں کمرہ لیا۔ اس وقت سعودی عرب میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اس لیے بہت زیادہ رش تھا۔ ہمارے ہوٹل سے مسجد کا فاصلہ بہت کم تھا۔ اس لیے اس گرمی میں بھی زیادہ مسئلہ نہ ہوا۔اس وقت گرمی انتہائی عروج پر تھی۔ مدینے میں گرمی کچھ زیادہ ہی پڑتی ہے۔ اس وقت یہ گرمی لو کی شکل اختیار کرچکی تھی۔ گرم ہوا کے تھپیڑے جب جسم سے ٹکراتے تو جھلس کر رکھ دیتے تھے۔ ان دنوں روزانہ یہ معمول تھا کہ عصر تک آسمان یونہی آگ برساتا رہتا مگر عصر کے بعد بادل چھاجاتے۔ یہ بادل سورج کے آگے تو پردہ بن جاتے مگر اس وقت تک زمین تندور کی طرح دہک چکی ہوتی۔ پیاسی زمین امید بھری نگاہوں سے ان بادلوں کو تکتی رہتی مگر یہ بادل برس کر نہیں دیتے تھے۔ تاہم یہ ہماری روانگی والے دن برسے اور اس طرح ٹوٹ کر برسے کہ فضااور زمین کی ساری حدت خنکی میں بدل گئی۔
مجھے اس موسم میں خیال آیا کہ ایسی ہی گرمی ہوگی جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جنگ تبوک کے موقع پر مدینے سے 700 کلومیٹر دور واقع تبوک کے مقام پر گئے ہوں گے۔ ایک لق و دق صحرا کواس گرمی میں عبور کرکے اونٹوں اور گھوڑوں پر اتنی دور جانے اور ایک بڑی فوجی طاقت سے مقابلے کا تصور اتنا دہشتناک تھا کہ کچھ حد نہیں۔ اس پر سال بھر کی محنت پیداوار کی شکل میں تیار کھڑی تھی۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کہ اس دور میں نہیں تھا۔ ورنہ امید یہی تھی کہ شاید پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوتا۔ تاہم جو عظیم ہستیاں اس قابل تھیں کہ انہیں اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے منتخب کیا جائے، وہ پچھلی آزمائشوں کی طرح ، اس امتحان میں بھی پوری اتریں۔جس کے بعد خدا نے عرب و عجم کی بادشاہت اور خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر کردیے۔
مسجدا لنبوی الشریف
مسجد النبوی کی دینی اور روحانی حیثیت سے قطع نظر یہ فنِ تعمیر کا بھی ایسا شاہکار ہے کہ یہ عمارت اگر مسجد نبوی نہ ہوتی تب بھی لوگ دور دور سے اسے دیکھنے کے لیے آتے۔ مسجد اس پورے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ منورہ کہلاتا تھا۔ میں مسجد کے تعمیری حسن کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ وہ اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ٹی وی پر ایک دستاویزی فلم کی صورت میں بار بار دکھائی جاتی ہیں۔ تاہم اسے دیکھنے سے دل میں جو تاثیر پیدا ہوتی ہے اس کا اندازہ ٹی وی اسکرین سے نہیں کیا جاسکتا۔ مسجد کے خارجی رنگ کا انتخاب انتہائی خوبصورت ہے۔ مسجد کے نئے تعمیرشدہ حصے میں بڑے بڑے فانوس ، خوبصورت روشنیاں، بے گنتی ستون جو سنگ مرمر کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو ملاکر بنائے گئے ہیں اور خوبصورت چھت جس پر مختلف قسم کے ڈیزائن بنے ہیں، یہ سب مل کر ایسا سماں پیدا کرتے ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔وہاں ہر طرف اللہ کا نام یا قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں ۔ اس حصے میں لوگ صرف جمعے کی نماز میں ہوتے ہیں کیونکہ مسجد اتنی بڑی ہے کہ عام حالات میں لوگ یہاں تک نہیں ہوتے۔ یہیں وہ گنبد ہیں جو بے آواز کھسکتے چلے جاتے ہیں۔ جب سورج کی روشنی نیچے آتی ہے تب پتا چلتا ہے کہ چھت کھل گئی ہے۔اندرونی حصہ کی نمایاں خصوصیت وہ صحن ہے جو چھتریوں سے ڈھک جاتا ہے۔ پرانی مسجد کے حصے میں اس قدر رنگ ہیں کہ حد نہیں۔ سارے رنگ بڑے گہرے اور شوخ ہیں۔ لیکن برے نہیں لگتے۔ چھت پر موجود گنبدوں کو قرآنی آیات کی خطاطی سے مزین کیا گیا ہے۔
ہمارے مسجد میں جانے کے بھی وہی اوقات تھے جو مکہ میں تھے۔ یعنی تہجد سے اشراق، پھر ظہر کے لیے اور پھر عصر تا عشا۔ البتہ خواتین کا معاملہ یہاں ذرا مختلف تھا۔ کیونکہ مسجد الحرام کے برعکس یہاں خواتین کی ایک مخصوص جگہ ہے اور روضہ مبارک پر ان کی حاضری کے دو وقت مقرر ہیں۔ صبح سات سے گیارہ تک اور دوپہر دو سے تین۔ اس لیے ہماری خواتین اسی حساب سے جاتیں۔پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ خواتین سے زیادتی ہے۔ مگر خواتین کی جو حرکتیں اور شور و ہنگامہ دیکھا تو محسوس ہوا کہ یہ رویہ بالکل ٹھیک ہے۔ خواتین کے وقت پر ایک پردہ کھینچ کر رکاوٹ کردی جاتی ہے۔ اس جگہ سے اتنے شور و غل کی آواز یں آتی ہیں کہ حد نہیں۔ ایک دفعہ میں وہاں بیٹھا تھا۔ خواتین کا وقت ہوا تو وہ باقاعدہ سیٹیاں اور چیخیں مارتی اور بھاگتی ہوئی آئیں۔ یہ ایک مخصوص آواز ہے جو عرب خواتین خوشی کے وقت نکالتی ہیں۔ میں نے اس کی کوئی نظیر کہیں اور نہیں دیکھی۔
مسجد النبوی کی چند خاص جگہیں
مسجد النبوی میں تین جگہیں ایسی ہیں جہاں لوگ دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اول ریاض الجنتہ جس کے بارے میں ارشاد گرامی ہے کہ میرے گھر اور منبر کے بیچ کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اس جگہ کی نشاندہی کے لیے یہاں سبز رنگ کے قالین بچھے ہوئے ہیں جبکہ باقی جگہ سرخ قالین بچھائے جاتے ہیں۔ لوگ اس جگہ سب سے زیادہ جم کر بیٹھتے ہیں۔ وہ شاید حصولِ فضیلت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ مگر میرا اصول ہے کہ مسجد الحرام یامسجد النبوی کی کسی بھی متبرک جگہ پر میں زیادہ دیر نہیں بیٹھتا۔ میرے نزدیک اس طرح میں اس مسلمان بھائی کا حق ماروں گا جو جگہ کے خالی ہونے کے انتظار میں کھڑا ہوا ہے۔ خدا کے بندوں کا حق مار کر خدا سے کوئی بھلائی نہیں لی جاسکتی۔ لہٰذا میں مختصر وقت کے لیے ایسی جگہوں پر بیٹھتا ہوں۔ ذکر، تلاوت، دعا، نماز جس کا ذہن بنا وہ کیا اور دوسروں کے لیے جگہ چھوڑدی۔
دوسری جگہ جہاں لوگ ٹوٹتے ہیں وہ مصلیٰ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ نئے آدمی کے لیے اس جگہ کو پہچاننا آسان نہیں کیونکہ مسجد میں تین محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ تاہم اس کی نشانی یہ ہے کہ یہ ریاض الجنتہ کے ساتھ والی محراب میں ہے۔ اس پر عربی میں لکھا بھی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر ہے۔ اس جگہ کھڑے ہوکر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے آپ کے سجدے کی جگہ پر محراب تعمیر کرادی تاکہ کسی کے قدم وہاں نہ پڑیں۔ اب جو لوگ یہاں نماز پڑھتے ہیں ان کا سر اس جگہ آتا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ہوتے تھے۔ یہاں جگہ حاصل کرنا سب سے مشکل ہے۔وجہ میں اوپر بیان کرچکا۔ تاہم جو شخص صبح نو دس بجے آئے گا اس کے لیے سب سے زیادہ ممکن ہے کہ وہ یہاں نماز پڑھ سکے۔
تیسری جگہ روضہ مبارک کی سنہری جالیوں کے سامنے والا حصہ ہے جہاں کھڑے ہوکر لوگ سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ تین جالیاں ہیں جن میں وسطی جالی پر بنا ہوا پہلا دائرہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی نشاندہی کرتا ہے اوراگلے دو دائرے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی۔ اصل قبریں چار دیواری سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ اس جگہ لوگ کھڑے ہوکر سلام پڑھتے ہیں اور آگے سے سلام عرض کرتے ہوئے گزرتے بھی رہتے ہیں۔
مدینہ پاک کی زیارتیں
یہاں پہلی دفعہ آنے والا شخص ان جگہوں پر زیارتوں کے لیے ضرور جاتا ہے جنہیں مذہبی یا تاریخی اعتبار سے کوئی اہمیت حاصل ہے۔ مدینہ وہ جگہ ہے جہاں اسلام کی تاریخ بنی۔ یہیں کفارِ مکہ سے مسلمانوں کی عظیم جنگیں پیش آئیں۔اسلام کے ابتدائی دور کے کئی اہم اور فیصلہ کن واقعات کا ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اس لیے قابلِ زیارت جگہوں کا ہونا عین فطری ہے۔ ان میں سب سے نمایاں جگہ جنت البقیع کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری جالیوں کے سامنے سے سلام کرنے کے بعد لوگ جس دروازے سے باہر نکلتے ہیں اسے باب البقیع کہتے ہیں۔ کیونکہ عین اس کے سامنے بقیع کا قبرستان واقع ہے۔میں جب پہلی دفعہ س 88میںیہاں آیا تو چھوٹا تھا۔ اپنے آٹھ روزہ قیام کے دوران میں اکثر بقیع چلا جاتا اور ان پیشہ ور لوگوں کے پیچھے ہولیتا جو بقیع میں موجود تمام اہم شخصیات کی قبروں پر جاکر صاحبِ قبر کا تعارف کراتے تھے۔ اس طرح مجھے تمام اہم صحابہؓ، امہاتؓ المومنین، بناتؓ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آئمہؒ کی قبروں کا علم ہوگیا۔ ا مہاتؓ المومنین اور بناتؓ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبریں بالکل سامنے ہیں۔ صحابہ میں اہم ترین شخصیت سیدنا عثمانؓ کی ہے۔ آپ کی شہادت جن حالات میں ہوئی ان کی بنا پر آپ کی قبر کی بے حرمتی کااندیشہ تھا اس لیے آپ کو بقیع میں بہت دور دفن کیا گیا ۔پہلی دفعہ کے بعد میں دوبارہ اندر نہیں گیا اور اب باہر سے ہی سلام عرض کر دیتا ہوں۔ بقیع کا دروازہ دن میں دو دفعہ کھلتا ہے۔ صبح اشراق کے بعد اور شام میں مغرب سے قبل۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر بقیع آیا کرتے تھے۔
دوسری اہم زیارت مسجدِ قبا ہے۔ یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے وقت قبا میں اپنے قیام کے دوران تعمیر کیا تھا۔ قبا اس زمانے میں مدینے کی نواحی بستی تھی۔ یہ مسجد طریق الھجرہ کے اختتام پر مدینے کی حدود میں داخلے کے وقت آتی ہے۔ ہم مدینہ آتے ہوئے یا واپسی میںیہاں ضرور آتے تھے۔ کیونکہ ایک روایت میں یہاں دو نفل پڑھنے کا ثواب عمرے کے برابر بیان ہوا ہے۔ خود قرآن میں سورۂ توبہ میں اس مسجد کی تعریف کی گئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہاں پیدل یا سوار ہوکرتشریف لاتے ۔ ایک اور مسجدجس کی تاریخی اہمیت ہے وہ مسجد قبلتین ہے۔ یہاں روایات کے مطابق تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا۔
مدینہ میں رہ کر کفار کے مقابلے میں مسلمانوں نے دو جنگیں لڑیں۔ ان میں سے پہلی جنگ احد کی تھی۔ یہ سن تین ہجری میں پیش آئی۔ یہ جنگ احد کے اس مشہور پہاڑ کے دامن میں لڑی گئی جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ہم سے اور ہمیں اس سے محبت ہے۔ یہاں آج بھی اس پہاڑی ٹیلے کا کچھ حصہ باقی ہے جس پہ تیر اندازوں کا ایک دستہ خصوصی طور پرتعینات کیا گیا تھا ۔انہی میں سے بعض تیر اندازوں کے اپنی جگہ چھوڑنے سے مسلمانوں کی شکست کا سانحہ وجود میں آیا۔اس جنگ میں ستر صحابہ ؓ شہید ہوئے۔ یہاں شہدائے احد کے مزارات موجود ہیں جن میں سب سے نمایاں عم رسول سیدنا حمزہؓ کامزارہے۔ دیگر معروف صحابہ میں سے حضرت عبداللہ ابن جحشؓ اور حضرت مصعب بن زبیرؓ بھی یہیں مدفون ہیں۔ یہ مزارات ایک چار دیواری میں بنے ہوئے ہیں۔ دوسری مشہور جنگ خندق یا احزاب کی ہے جو اطرافِ مدینہ میں لڑی گئی۔اس کے آثار میں صرف اب وہ پانچ مساجد موجود ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان مقامات پر بعض صحابہ دورانِ محاصرہ خیمہ زن تھے۔ واللہ اعلم۔
یہ ساری جگہیں بالعموم زیارت کہلاتی ہیں اور مسجد النبوی کے باہر کھڑے ڈرائیور کچھ پیسے لے کر لوگوں کو ان سب جگہوں کی زیارت کراتے ہیں۔ میں ان جگہوں کی تاریخی اہمیت کی بنا پر کئی دفعہ وہاں گیا ہوں۔ مگرعام طور پر مدینہ آکر صرف قبا اور بقیع جاتا تھا۔ اس دفعہ بھی انہی دو جگہوں پر گیا۔ ایک جگہ اورہے جو تاریخی اہمیت کے اعتبار سے سب سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے مگر چونکہ مدینے سے دور ہے اور آج کل کے راستے پربھی واقع نہیں اس لیے لوگ وہاں نہیں جاتے۔ میری مراد میدانِ بدر سے ہے۔خوش قسمتی سے مجھے وہاں جانے کا بھی موقع ملا۔ میں 1997 میں اپنے بڑے بھائی عرفان کے ہمراہ مدینے سے واپسی پر وہاں گیا تھا۔ یہاں ایک جگہ شہدائے بدر کے مزارات ہیں۔ جبکہ بدر کے نام سے ایک چھوٹی سی آبادی بھی موجود ہے۔ دیگر تاریخی مقامات کی طرح یہاں بھی کسی قسم کی معلومات پہنچانے کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ سوائے ان صحابہ کرام کے ناموں کے جو اس جنگ میں شہید ہوئے۔