یہ کیاہورہاہے ۔۔۔؟؟ْ؟

ایجوکیٹرز2012سےپاکستان میں قائم اپنےسکولوں کی کتب میں آزاد کشمیر،جموں کشمیراورگلگت بلتستان کو بھارت کاحصہ دکھارہےہیں.2015 میں دی ایجوکیٹرز کے ہی ایک استاد"ارمغان حلیم"نےان کوتاہیوں کی نشاندہی کی جس کےبعد یہ کتابیں درست کرلی گئیں. 2017 میں دی ایجوکیٹرز نے پھر سے وہی پرانہ وطیرہ اپناتے ہوئے آزاد کشمیر، مقبوضہ جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ پڑھانا شروع کردیا.اس پہ آواز آٹھانے کی سزا ارمغان حلیم کو یہ ملی کہ اُنہیں نوکری سے ہی ہاتھ دھونا پڑ گئے۔ ارمغان حلیم کادعویٰ ہےکہ" ان پرمتعدد الزامات بھی عائد کیےگئے۔مار چ2018میں نئےسال کی کتب میں دی ایجوکیٹرز نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے باقاعدہ طورپرکشمیر کو "Indian State of Jammu and Kashmir" لکھنا شروع کردیا.اس کے بعد ارمغان بھائی نے 2018 میں سپریم کورٹ میں درخواست دی تو جون 2018 میں سُپریم کورٹ آف پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے ان کتابوں کا نوٹس لیا تو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے کہا کہ واقعی ان کتابوں میں پاکستان کے حوالے سے متنازعہ مواد موجود تھا , جس پر پابندی عائد دی گئی ہیں اور سرکاری مدعیت میں ایف آئی آربھی درج کردی گئی ۔
سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے درخواست پر کام نپٹا دی کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے اس پہ ایکشن لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کروا دی ہے. اس کے بعد پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے ملتان میں دی ایجوکٹرز کے ریجنل آفس میں چھاپا مارا تو باوجود پابندی کے ان متنازعہ کتابوں کی فروخت جاری تھی جسکے بعد پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اختر بٹ نے سرکاری مدعیت میں ایف آئی آر درج کروا دی.ایف آئی آر 4 میں لوگوں کے نامزد کیا گیا تھا جن میں بک پبلشرز، دی ایجوکیٹرز سئنیر منیجمنٹ، شہزاد حُسین ریجنل ہیڈ اور بکس ریجنل مینجر ملتان راؤ وقار شامل تھے ۔ لیکن افسوس صد افسوس ہماری پنجاب پولیس میں بیٹھی کالی بھیڑوں نے دی ایجوکیٹرز نامی کو ہی معاونت دیتے ہوئے اس معاملے کے اہم ترین ذمہ داران یعنی سینئر منیجمنٹ دی ایجوکیٹرز اور بک پبلسشرز کو چالان میں نامزد ہی نہیں کیا اور شروع سے ہی کیس کی کمر توڑ دی جبکہ ایف آئی آر میں یہ چاروں ہی شامل تھے.
چالان میں صرف دو افراد یعنی شہزاد حُسین ریجنل ہیڈ اور بکس ریجنل مینجر ملتان راؤ وقار کا ہی نام ڈالا گیا ۔ اس کےبعد 18 ماہ گزرنے اور متعدد عدالتی سمن جن میں پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کو بارہا کہا گیا کہ وہ عدالت میں پیش ہو کر تمام ثبات پیش کریں اور کیس کی پیروی کریں مگر متعدد سمن ملنے کے بعد بھی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے عدالت کا رُخ نہیں کیا جو کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی انتظامیہ پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس کی ایک ممکنہ وجہ وزیرِتعلیم شفقت محمود کی اہلیہ " حمیرا شفقت " کا 15 , 16 برس سے دی ایجوکیٹرز سے منسلک ہونابھی ہے کیونکہ ذرائع نےیہ دعویٰ کیاہےکہ"حمیرا شفقت"نےدی ایجوکیٹرز کوبچانےکےلیےمبینہ طور پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کیاہے ۔ دی ایجوکیٹرز نے عدالت میں کیس کو جھوٹ اور محض پروپگنڈہ کی بنیاد پر بنا کیس کہہ کر کیس خارج کرنے کی درخواست دے دی جس ضن میں عدالت نے پھر سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ انتظامیہ کو نوٹسز بھیجے کہ ایجوکیٹرز نے کیس خارج کرنے کی درخواست دی ہے اس لیے حاضر ہو کر کیس کی پیروی کریں لیکن پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ انتظامیہ نے خاموش رہی اور عدالت آ کر مؤقف دینے کی زحمت گوارا نہیں کی.اس کے بعد پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اختر بٹ سے رابطہ کیا گیا تو ان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ہم نے دی ایجوکیٹرز نے ساتھ معاملہ رفع دفع کرلیا ہے اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے.
جب انہیں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے احکامات جاری کیے جس کے جواب میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ انتظامیہ نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے کاروائی کی ہے اور کیس کو آگے لےکر چل رہے ہیں تو آپ اس کیسے ان کے خلاف کاروائی نہیں کریں گے؟ جس کے بعد مبنہ طورپر یہ جواب دیا گیا کہ 'جس کو مسئلہ ہ ہے وہ اپنی کوشش کریں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنا ٹائم ہے اور رابطہ منقطع کر دیا گیا".اس کے بعد 16 جنوری 2020 کو بالاخر جج صاحب نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم نے مدعی یعنی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو کئی بار سمن جاری کیے تاکہ وہ یہاں آ کر اپنا مؤقف، ثبوت اور گواہ پیش کریں لیکن مدعی اس کی کیس کی پیروی کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا اس لیے عدالت اس کو کیس کو بند کرتے ہوئے دونوں مجرمان یعنی شہزاد حُسین ریجنل ہیڈ اور بکس ریجنل مینجر ملتان راؤ وقار کو اس کیس سے بری کردیا اور حکم دیا کہ یہ فائل بند کرکے ریکارڈ میں لگا دی جائے اور یہ لکھا گیا کہ اگر دوبارہ کبھی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی طرف سے اس کیس کو ری اوپن کرنے کی درخواست دی جائے تو یہ کیس دوبارہ اوپن ہوسکتا ہے اس لیے میں اس کیس کو خارج نہیں کرتا اور نہ ہی دی ایجوکیٹرز کو بری کرتا ہوں.
دوسری طرف دی ایجوکیٹرز نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلے کو چلینج کریں گے کہ ہمیں اس کیس میں بری کیا جائے.دی ایجوکیٹرز کی جانب سے سیشن کورٹ میں درخواست دی گئی جسے سیشن جج نے ایڈیشنل سیشن جج خورشید صاحب کے پاس بھیج دیا اور معزز جج نے درخواست دیکھتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ واقعی میں دی ایجوکیٹرز کے خلاف جو فیصلہ دیا گیا ہے وہ غلط ہے انہیں تو باعزت بری کرنا چاہیے کیونکہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے جس ڈپٹی ڈائریکٹر نے یہ کہہ کر کہ ہم نے کتابیں برآمد کی ہیں جن میں متنازعہ مواد موجود تھا، جس میں کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے اس لیے ہم نے ایجوکیٹرز کے خلاف سرکاری مدعیت میں ایف آئی آر درج کروائی تھی وہی ڈپٹی ڈائریکٹر عدالت میں آکر بیان دے کر گئے کہ جب ہم نے دی ایجوکیٹرز پر چھاپہ مارا تھا اور کتابیں دیکھی تھیں وہ کتابیں درست تھیں ان میں نقشے بھی ٹھیک تھے اور ہم نے دی ایجوکیٹرز کو باقاعدہ جانچ پڑتال کے بعد "این او سی" جاری کی کہ وہ یہ کتابیں پڑھا سکتے ہیں ان میں کوئی قابلِ اعتراض مواد موجود نہیں تھا لہذا آپ ایجوکیٹرز والوں کو بے شک بری کردیں دی ایجوکیٹرز کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ایف آئی آر میں نامزد مجرمان تو یہ کتب فروخت ہی نہیں کرتے.
اس لیے ایف آئی آر خارج کردیں اور جج صاحب نے مدعی کی جانب سے مجرم کی صفائی دینے پر کیس کو ختم کرتے ہوئے ایجوکیٹرز کے خلاف ایف آئی آر خارج کردی اور یوں ملک دشمن جیت گئے.دوسری طرف ٹیکسٹ بک بورڈ پنجاب نے افسران نےبھی کمال غفلت کا ثبوت دیادیا.دی ایجوکیٹرزکو قصوری فیملی کی طاقت اور اثر و رسوخ حاصل ہے اور انہیں مبینہ طورپر کروڑوں روپے کی بیرونی فنڈنگ بھی ہورہی ہے۔ اس سلسلےمیں مزید تحقیقات ضرور ہونی چاہیں ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔