لازوال احتساب 

 لازوال احتساب 
 لازوال احتساب 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے ہاں وقفے وقفے سے احتساب کا ابال اٹھتا ہے اور پھر بیٹھ جاتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا معاملہ درپیش ہو تو ایک نعرے کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ یہ نعرہ لگانے والے خود بھی مستوجبِ احتساب ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف نے بغاوت کی تو ان کو احتساب کی راہ پر لگانے والے بھی پیدا ہو گئے۔ مشرف صاحب نے احتساب کا ایسا آغاز کیا جس کا انجام ان کی مصلحتوں کی دھول تلے دب گیا۔ پاک فوج سے کچھ لوگ تواتر سے احتساب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔آج پاکستان بدترین سیاسی بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ بہت سے اکابرین کو ان بحرانوں کا حل انتخابات کے انعقاد میں نظر آ رہا ہے۔ انتخابات کب ہوتے ہیں؟ پنجاب میں شیڈول آگیاہے۔ کے پی کے میں کب اور مرکز و سندھ بلوچستان میں کب ہونگے۔

اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں جو بھی کامیاب ہو،کیا جیت کر اقتدار میں آنے والے اُس وقت کی اپوزیشن کے لیے قابل ہونگے۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد سے2018ءتک سیاست میں کیا ہوتا رہا۔ عمران خان کرپشن کے خاتمے اورکڑے احتساب کے نعرے اور دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئے، ان کو اسی نعرے کی بنیاد پر جتنی بھی ملی پذیرائی ملی، وہ اقتدار میں تھے تو ان کے خلاف بھی محاذ آرائی ہونے لگی۔ نئے انتخابات کا مطالبہ ہوتا رہا۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک موقع پر کہا کہ دوبارہ انتخابات ہو جاتے ہیں اور عمران خان بالفرض جیت گئے تو بھی ان کو قبول نہیں کریں گے۔ یہ مولانا فضل الرحمن کے بیان سے زیادہ ہمارے سیاسی رویوں کا اظہار ہے۔ عمران خان مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادت کے بارے میں کیاکہتے رہے ہیں۔


ہمیں اپنے وطن میں آئیڈیلز کی تلاش رہتی ہے،ویسے تو انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی یا گروہی سطح پر بھی اپنے اپنے آئیڈیلز ہیں۔ عدلیہ میں اپنی پسندکی شخصیات ہیں، فوج دیگر اداروں اور سیاست میں بھی ایسا ہی ہے۔ہر پاکستانی خود کواور ملک کو خوشحال دیکھتے کا متمنی ہے۔ کئی اتنے خوشحال ہیں کہ دوسروں کو ان پر رشک آتا ہے۔ہماری عمومی طور پر دو ترجیحات ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ اور معیشت کی مضبوطی۔ دونوں میں سے کسی ایک کو دوسری پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کرپشن جاری رہے اور معیشت مضبوط ہو جائے ایسا ممکن نہیں ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے لیے کرپشن کے ناسور کو قومی وجود سے الگ کرنا ہوگا، صرف کرپشن کے خاتمے سے بھی معیشت بامِ عروج تک نہیں پہنچ سکتی ہے، اس کے لیے مزید اقدامات اور وسائل میں اضافے کی ضرورت ہے، وسائل کرپشن کی نذر ہوتے رہے ہیں۔ کرپشن ختم ہو جائے تو وسائل میں خود بخود اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ 


ہمیں کبھی چین کی طرف دیکھنے کو کہا جاتا ہے ۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں500 لوگوں کو گھروں سے اٹھا کرالٹا لٹکا دیا گیا۔ چین میں کرپٹ وزرا کو پھانسی دینے کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں، کیا ایسے ہی طریقے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔


معاشرے میں جرائم کے خاتمے کے لیے آئیڈیل یا مثالی صرف اور صرف وہ سزائیں ہو سکتی ہیں جو ہمارے مذہب نے متعین کر دی۔عمران خان کہتے ہیں کہ انتخابات کرا دیئے جائیں جو جیت جائے اسے حکومت دے دی جائے اگر یہ (پی ڈی ایم والے) جیت جائیں تو یہ لوگ اقتدار میں آجائیں۔ عمران خان کواپنی کامیابی کا یقین ہے اس لیے وہ ایسا بھاشن دے رہے ہیں اگر پی ڈی ایم یا کوئی بھی پی ٹی آئی کے سوا کوئی پارٹی جیت جاتی ہے تو عمران خان کے لیے ان کو قبول کرنا اسی طرح نا ممکن ہوگا جس طرح ماضی میں قبول نہیں کیا گیا۔پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو پی ڈی ایم قبول نہیں کرے گی۔ 


بات ہم نے آئیڈیلز معیشت اور احتساب سے شروع کی تھی، آخر کار احتساب کیسے ہو سکتا ہے ، معیشت کیسے مضبوط ہو سکتی ہے ،اس کے لیے ایک ہی آئیڈیل یعنی مثالی صورت ہو سکتی ہے۔عدلیہ طاقتورہو۔ وہ کیسے؟ اس پر سوچا جاسکتا ہے۔
 آج کی عدلیہ میں بھی قابل،اہل اور ماہر جج موجود ہیں مگرسب کے سب جج ایسے ہوں جن کی ساکھ سوالیہ نشان کے بغیرہو،کوئی سیاسی کیس عدالت میں جاتا ہے ، بنچ جتنے بھی ججوں پر مشتمل ہو، بنچ کی تشکیل کے ساتھ ہی تبصرے تجزیے شروع ہو جاتے ہیں کہ کون کس طرح کا فیصلہ دےگا۔جج ایسے ہوںجن کے فیصلے پر وہ لوگ بھی بات نہ کریں سوال نہ اُٹھائیں جن کے خلاف فیصلہ کیا گیاہو۔ ماضی قریب سے ماضی بعید کے فیصلوں کو اٹھا کر دیکھ لیں اکثر کی حیثیت متنازعہ رہی ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ جج اپنے فیصلوں کا جواز دیتے نظر آتے ہیں،کئی کو تو سروس کے دوران بھی وضاحتیں دیتے دیکھا گیا ہے اس کی نوبت کیوں آتی ہے ، ہماری عدلیہ مضبوط ہو جائے تو احتساب کے لیے معیشت کی مضبوطی کے لیے کرپشن کے خاتمے کے لیے کسی طرف دیکھنا نہیں پڑے گا۔لازوال احتساب عدلیہ ہی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے مگر مضبوط، طاقتور،غیر جانبداراور قانون کے تابع عدلیہ کا قیام ممکن کیسے ہے؟ ایسا ہوجائے جو ناممکن نہیں ہے تو سیاست کی سمت خود بخود درست ہوجائے گی۔ کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔معیشت مضبوط ہوگی جو پاکستان اور پاکستانیوں کی خوشحالی کی ضمانت ہوگی۔

مزید :

رائے -کالم -